Daily Mumtaz:
2025-08-02@14:11:07 GMT

انسٹاگرام نے صارفین کو بڑی سہولت سے محروم کردیا

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

انسٹاگرام نے صارفین کو بڑی سہولت سے محروم کردیا

انسٹاگرام، جو دنیا بھر میں تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کا سب سے مقبول پلیٹ فارم مانا جاتا ہے، نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے لائیو اسٹریم فیچر کے لیے نئی سخت شرط عائد کر دی ہے۔
اس نئی شرط کے تحت اب صرف وہی صارفین انسٹاگرام پر لائیو ویڈیو نشر کر سکیں گے جن کے کم از کم 1000 فالوورز ہوں اور جن کے اکاؤنٹس پبلک ہوں۔
اس فیصلے سے قبل فالوورز کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی ، کوئی بھی صارف چاہے اس کے فالوورز کم ہوں یا اکاؤنٹ پرائیویٹ ہو آسانی سے لائیو جا سکتا تھا۔ مگر اب ایسا انہیں ہے۔
اگر 1000 سے کم فالوورز رکھنے والا کوئی صارف لائیو جانے کی کوشش کرے گا تو اسے ایک نوٹس نظر آئے گا جس میں لکھا ہوگا، ”آپ کا اکاؤنٹ اب لائیو کے لیے اہل نہیں ہے۔ ہم نے اس فیچر کی شرائط میں تبدیلی کی ہے۔ اب صرف 1000 یا اس سے زائد فالوورز والے پبلک اکاؤنٹس ہی لائیو ویڈیوز بنا سکتے ہیں۔“
یہ نئی پالیسی خاص طور پر نئے اور چھوٹے کریئیٹرز، مائیکرو انفلوئنسرز اور عام صارفین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو لائیو ویڈیوز کے ذریعے اپنے فالورز کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہتے تھے۔ اب ان کے پاس صرف اسٹوریز یا ویڈیو کال جیسے متبادل ذرائع ہی بچیں گے۔
انسٹاگرام کے مطابق، یہ تبدیلی ایپ کو زیادہ سادہ اور معیاری بنانے کی کوشش ہے، تاکہ لائیو اسٹریمز کی کوالٹی اور مقصدیت میں بہتری آئے۔
سوشل میڈیا تجزیہ کاروں کے مطابق، انسٹاگرام اس پالیسی کے ذریعے ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کے معیار سے ہم آہنگ ہو رہا ہے، جہاں پہلے ہی کم از کم 1000 فالوورز کی شرط ہے۔
مزید برآں، ٹیک ماہرین کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام (Meta) اس قدم سے اپنے لائیو اسٹریمنگ انفراسٹرکچر کے اخراجات کم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ کم فالوورز والے لائیو سیشنز کمپنی کے لیے زیادہ کارآمد نہیں ہوتے۔
انسٹاگرام صارفین، خاص طور پر نئے مواد تخلیق کرنے والوں نے اس تبدیلی پر مایوسی اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کئی صارفین نے انسٹاگرام سے اس پالیسی پر نظرِ ثانی کی اپیل کی ہے، کیونکہ ان کے مطابق یہ فیصلہ ”برابری کے مواقع“ کے اصول کے خلاف ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

’زندگی لوٹ آئی لیکن پھر سب کچھ چھن گیا‘، ڈیپ برین اسٹیمولیشن کے تجرباتی مریض مدد سے محروم

امریکا میں شدید ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کے شکار ایسے مریض جو ’ڈیپ برین اسٹیمولیشن‘ (ڈی بی ایس) کے تجرباتی علاج سے نمایاں طور پر بہتر ہوئے تھے، اب علاج کی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ تحقیقی منصوبوں کے خاتمے اور سرکاری فنڈنگ کی بندش کے بعد یہ مریض بنیادی طبی سہولیات اور آلات کی مرمت جیسی مدد سے محروم ہوچکے ہیں، جس نے ان کی زندگی کو ایک بار پھر غیر یقینی اور اذیت ناک بنا دیا ہے۔

ڈی بی ایس کے تحت مریضوں کے دماغ میں باریک الیکٹروڈز نصب کیے جاتے ہیں جو بجلی کے معمولی جھٹکوں کے ذریعے دماغی نظام کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ الیکٹروڈز ایک بیٹری سے جُڑے ہوتے ہیں جو سینے میں پیس میکر کی طرح نصب کی جاتی ہے۔ یہ علاج خاص طور پر ان مریضوں کے لیے کیا گیا جو روایتی دواؤں یا تھراپی سے فائدہ حاصل نہ کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: اسمارٹ واچز ڈپریشن کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتی ہیں، تحقیق

شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والی 51 سالہ برینڈی ایلس، جو کئی برس سے اس علاج سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، کہتی ہیں: ’جب یہ آلہ کام کرتا ہے تو میں خود کو نارمل محسوس کرتی ہوں، لیکن جیسے ہی اس میں خرابی آتی ہے، میری ساری حالت بگڑ جاتی ہے۔ یہ میری آخری امید ہے۔‘

ڈی بی ایس سے گزرنے والے کئی مریضوں کو جیسے ہی کلینیکل ٹرائلز ختم ہوئے، نہ صرف علاج بند ہو گیا بلکہ ان کے آلات کی مرمت، بیٹری کی تبدیلی اور دیگر ضروری خدمات کے اخراجات بھی ان کے ذمے ڈال دیے گئے۔ ان میں سے اکثر خدمات کو انشورنس کمپنیاں اس لیے مسترد کر دیتی ہیں کہ یہ علاج ابھی تک ’تجرباتی‘ درجے میں شمار ہوتا ہے۔ ایک بیٹری کی تبدیلی پر اوسطاً 15 ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔

کیلیفورنیا کی رہائشی کیرول سیگر، جو 10 سال تک اس امپلانٹ سے فائدہ اٹھاتی رہیں، اُس وقت شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئیں جب ان کے آلے کی بیٹری ختم ہوئی اور کسی ادارے نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر انہوں نے خیراتی ادارے، قریبی اسپتال اور اپنی بچت کے ذریعے نئی بیٹری نصب کروائی، لیکن وہ آج بھی خوفزدہ ہیں کہ اگلی بار کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر گیبریئل لازارو-مونیوز نے ان مریضوں کے لیے ایک منظم نظام کی تیاری کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جن افراد نے سائنسی تحقیق کے لیے خود کو پیش کیا، انہیں بعد میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) نے 2023–24 کے لیے 9 لاکھ 88 ہزار ڈالر کی فنڈنگ بھی منظور کی تھی۔

تاہم مئی 2025 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت سینکڑوں سائنسی منصوبوں کی فنڈنگ اچانک منسوخ کر دی گئی، جس میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس فیصلے نے اُن درجنوں مریضوں کو ایک بار پھر بے سہارا کر دیا جو اب تک اس امید میں تھے کہ ان کے لیے کوئی پائیدار نظام وجود میں آئے گا۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ڈی بی ایس جیسے علاج کے لیے صرف کامیاب نتائج کافی نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ مریضوں کو طویل المدتی مدد بھی فراہم کی جائے۔ اس وقت نہ تو ایف ڈی اے کی ہدایات میں ایسا کوئی ضابطہ موجود ہے، اور نہ ہی کمپنیاں یا تحقیقی ادارے مریضوں سے واضح طور پر وعدہ کرتے ہیں کہ ان کا علاج اور آلات عمر بھر فعال رکھے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کی سب سے طاقتور برین چپ نے انسانی آزمائش میں کامیابی حاصل کر لی

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پالیسی سازی میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، اور کمپنیوں کو مریضوں کی دیکھ بھال کا پابند نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک ایسے مریضوں کو ’تحقیق کے لیے استعمال کر کے فراموش کر دینا‘ ایک سنگین اخلاقی مسئلہ بنا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا برینڈی ایلس دماغی مریض ڈیپ برین اسٹیمولیشن شدید ڈپریشن شمالی کیرولینا کلینیکل ٹرائلز

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کی ہدایت پر بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر غیر ملکی مسافروں کیلئے علیحدہ امیگریشن کاؤنٹرز قائم کرنے کا فیصلہ
  • بھارتی طلباء امریکا میں تعلیم سے محروم
  • سندھ میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت 
  • ’زندگی لوٹ آئی لیکن پھر سب کچھ چھن گیا‘، ڈیپ برین اسٹیمولیشن کے تجرباتی مریض مدد سے محروم
  • قطرنے پاکستانیوں کیلئے ویزاآن آرائیولکی سہولت متعارف کرادی شرائط کیاہیں؟
  • کراچی رہنے کی نہیں سہنے کی جگہ بن چکا، جینے مرنے کی بھی سہولت نہیں ہے‘
  • خیبرپختونخوا: تیز بارشوں کے باعث بالائی علاقوں میں گلیشیائی جھلیں پھٹنے کا خطرہ
  • آسٹریلیا؛ 16 سال سے کم عمر بچوں پر یوٹیوب اکاؤنٹ بنانے پر پابندی؛ خلاف ورزی پر جرمانہ
  • کراچی: کمسن شاگرد کے اغواء و زیادتی کیس میں عدم شواہد پر قاری کو بری کردیا گیا