UrduPoint:
2025-11-07@22:36:44 GMT

صدر پوٹن سے 'بہت جلد' ملاقات کا امکان ہے، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

صدر پوٹن سے 'بہت جلد' ملاقات کا امکان ہے، ٹرمپ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے جلد ہی ملاقات کا ایک "اچھا موقع" ہے۔

ٹرمپ نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور روسی رہنما کے درمیان ہونے والی ملاقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ "بہت اچھی بات چیت تھی۔" امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ "ہم نے روس کے حوالے سے اچھی پیش رفت کی ہے۔

"

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ "اس بات کا اچھا امکان ہے کہ بہت ہی جلد ملاقات ہو گی۔"

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی دونوں صدور کے درمیان ممکنہ ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "بہت سی رکاوٹوں" پر قابو پانے کے لیے اب بھی کافی کام باقی ہے۔

(جاری ہے)

روبیو نے فوکس نیوز کو بتایا، "آج کا دن اچھا تھا، لیکن ہمارے پاس بہت زیادہ کام بھی ہے۔

ابھی بھی بہت سی رکاوٹوں پر قابو پانا باقی ہے، اور ہمیں امید ہے کہ اگلے چند دنوں اور گھنٹوں، شاید ہفتوں میں ہم اسے کر پائیں گے۔"

اس سے قبل بدھ کے روز ہی وائٹ ہاؤس کے حوالے سے یہ خبریں آئی تھیں کہ صدر ٹرمپ روس کے صدر پوٹن اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔

آئندہ ہفتے کے اوائل میں ہی پوٹن سے ملاقات کا امکان

وائٹ ہاؤس کے بعض ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں جو خبریں سرخیوں میں ہیں اس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے کے اوائل میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ذاتی طور پر ملاقات کر سکتے ہیں۔

اس طرح کی رپورٹس ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور روسی رہنما کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد سامنے آئیں، جنہیں ٹرمپ نے "انتہائی نتیجہ خیز" قرار دیا۔

امریکی میڈیا ادارے نیویارک ٹائمز، سی این این، اے پی اور روئٹرز جیسی نیوز ایجنسیوں نے بدھ کی شام کو یہ خبریں شائع کی تھیں کہ ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں کو بتایا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے اوائل میں پوٹن سے جلد ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

خبر رساں اداروں نے منصوبے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ صدر ٹرمپ پہلے روسی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے اور پھر بعد میں وہ پوٹن اور زیلنسکی سے ایک ساتھ ملاقات کریں گے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ روس نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور وہ صدر پوٹن اور صدر زیلنسکی دونوں سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔

"صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یہ وحشیانہ جنگ ختم ہو۔"

البتہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے ممکنہ ملاقات کی تاریخ یا مقام کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔

گزشتہ ہفتے ہی ٹرمپ نے یوکرین جنگ روکنے یا پھر امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے روس کو دس سے بارہ دن کی مہلت مقرر کی تھی۔

واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی جنگ کے خاتمے کی کوشش شروع کریں گے۔

روس کے شراکت داروں کے خلاف پابندیاں برقرار

وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز کہا کہ ماسکو میں امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان بات چیت میں "زبردست پیش رفت" کے اعلان کے باوجود امریکہ روس کے تجارتی شراکت داروں پر "ثانوی پابندیاں" لگانے کے لیے پرعزم ہے۔

اگرچہ اس کی تفصیلات کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے، تاہم توقع ہے کہ ان پابندیوں سے روس کے باقی تجارتی شراکت داروں کو نشانہ بنایا جائے گا تاکہ ماسکو کی مالی امداد تک رسائی کو مزید متاثر کیا جا سکے۔

اس میں روس کے تیل خریدنے والے شراکت دار چین اوربھارت شامل ہو سکتے ہیں۔ جون میں ٹرمپ نے روسی تیل کے خریداروں پر 100 فیصد ٹیرفس عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

امریکہ نے جنگ نہ رکنے کی صورت میں ماسکو کے خلاف بھی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے اور اگر ایسا کچھ ہوتا ہے، تو جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد روس کے خلاف یہ پہلی امریکی پابندیاں ہوں گی۔

تاہم ان تمام دھمکیوں کے باوجود ماسکو نے ابھی تک پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ منگل کے روز کریملن نے روس کے تجارتی شراکت داروں کے خلاف محصولات میں اضافے کی "دھمکیوں" کو "ناجائز" قرار دیا تھا۔

پوٹن اور وٹکوف میں تین گھنٹے کی 'تعمیری' گفتگو

کریملن میں خارجہ پالیسی کے معاون یوری یوشاکوف کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان بدھ کے روز ملاقات تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی۔

یوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ "ایک کافی مفید اور تعمیری گفتگو ہوئی۔" ان کا کہنا تھا کہ پوٹن اور وٹکوف نے یوکرین کے تنازعہ اور امریکہ اور روس کے تعلقات کو بہتر بنانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کچھ 'سگنل‘ موصول ہوئے تھے اور انہوں نے بھی اس کے بدلے میں بعض پیغامات بھیجے تھے۔ تاہم انہوں نے ان پیغامات کی تفصیل نہیں بتائی۔

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شراکت داروں کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدھ کے روز کے درمیان وائٹ ہاؤس پوٹن اور اور روس کے خلاف پوٹن سے کہا کہ روس کے کے لیے

پڑھیں:

امریکی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس غزہ میں جلد تعینات ہوگی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس بہت جلد غزہ میں تعینات کردی جائے گی تاکہ جنگ کے بعد کے حالات میں علاقے میں استحکام اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: سماجی ترقی کا خواب غزہ جنگ کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب

الجزیرہ کے مطابق غزہ اب بھی شدید انسانی بحران کا شکار ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بمباری جاری ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ بہت جلد ہو جائے گا اور غزہ میں صورت حال اچھے طریقے سے بہتر ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی طاقتور ممالک نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ اگر فلسطینی عسکری گروہ حماس کے ساتھ کسی قسم کا مسئلہ پیدا ہوا تو فورس مداخلت کرے گی حالانکہ حماس نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

اقوام متحدہ کا کردار اور امن مشن

صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی غزہ میں 2 سالہ عبوری حکومتی اور استحکام فورس کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کرنے جا رہی ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستانی دستوں کو غزہ بھیجنے کی خبروں پر پی ٹی آئی کی طرف سے تحفظات کا اظہار

یہ فورس شہریوں کی حفاظت کرے گی سرحدی علاقوں کو محفوظ بنائے گی اور فلسطینی پولیس کی تربیت فراہم کرے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس نے بتایا کہ کسی بھی استحکام فورس کو مکمل بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کر سکے۔

امریکی مسودہ قرارداد اور فوجی تفصیلات

دریں اثنا رائٹرز کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ قرارداد کا مسودہ امریکا نے اقوام متحدہ کی 10 منتخب رکن ریاستوں اور کئی علاقائی شراکت داروں کو بھیجا ہے۔

اس مسودے کے تحت 20,000 فوجی پر مشتمل استحکام فورس کو اپنا مینڈیٹ پورا کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اختیار کرنے کی اجازت دی جائے گی، جس میں فورس کے استعمال کی اجازت بھی شامل ہے۔

حماس اور اس کی عسکری صلاحیتیں

صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی ایک کلیدی شرط یہ ہے کہ حماس اپنے ہتھیار اتارے۔ اگرچہ حماس نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا مگر استحکام فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا کہ وہ حماس کی عسکری صلاحیتوں اور جارحانہ انفراسٹرکچر کو تباہ کرے اور دوبارہ اس کے دوبارہ قیام کو روکے۔

مزید پڑھیں: غزہ امن سربراہ اجلاس: صدر ٹرمپ سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات، گرمجوشی سے مصافحہ

امریکی صدر کے منصوبے نے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدی رہا کرنے اور عارضی جنگ بندی میں مدد فراہم کی تھی تاہم اسرائیل نے اپنی بمباری اور امدادی پابندیوں کے ذریعے بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

ترکی کی ثالثی اور اسرائیل کا مؤقف

ترکی نے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا حماس کو امن منصوبہ قبول کروانے کے ساتھ ہی استحکام فورس کے لیے حمایت حاصل کی اور اس سلسلے میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کو استنبول میں بلایا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ یکطرفہ اور ناقابلِ عمل، بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، خواجہ سعد رفیق

ترکی نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی جنگ کی بارہا مذمت کی اور عالمی سطح پر مطالبہ کیا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی بند کرے اور انسانی امداد داخل کرنے کی اجازت دے۔

تاہم اسرائیلی عہدیدار، بشمول وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خارجہ گیڈیون سآر نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ترکی کی فوجی موجودگی قبول نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح، غزہ امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے، اسحاق ڈار

نیتن یاہو نے ستمبر میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل مستقبل میں غزہ میں سیکیورٹی ذمہ داری برقرار رکھے گا۔

’امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا امکان نہیں‘

مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے گزشتہ ماہ غزہ کے دورے کے دوران واضح کیا تھا کہ کوئی امریکی فوجی وہاں تعینات نہیں ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈونلڈ ٹرمپ غزہ غزہ میں استحکام فورس غزہ میں امن فوج

متعلقہ مضامین

  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • امریکی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس غزہ میں جلد تعینات ہوگی
  • غزہ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس بہت جلد تعینات کی جائے گی، امریکی صدر
  • ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی
  • ایک اور ملک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، امریکی عہدیدار
  • دیکھتے ہیں ممدانی نیویارک میں کیسا کام کرتے ہیں، ٹرمپ
  • حقیقت میں پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے گئے، ٹرمپ
  • امریکی صدر نے پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا
  • سعودی عرب کو امریکا سے ایف 35 طیارے ملنے کا امکان
  • امریکا: بین البراعظمی ’منٹ مین تھری‘ میزائل کا کامیاب تجربہ