Express News:
2025-08-07@23:16:08 GMT

پی ٹی آئی مشکل دوراہے پر

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی بطور قیادت ایک مشکل سیاسی وقت سے گزر رہے ہیں اور ان کے حامی ، سپورٹرز،ووٹرز بھی موجودہ صورتحال میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔کیونکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند ہیں۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے مرکزی راہنماؤں سمیت قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو نو مئی کے مقدمات میں دس دس برس کی قید اور نااہلی سمیت اسمبلیوں سے ان کی نشستوں سے محرومی کے بعد یقینی طور پر پی ٹی آئی کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔

اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ آنے والے کچھ عرصے میں مزید راہنماؤں کو سزا سمیت اسمبلیوں سے نااہل کیا جا سکتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی شدید خواہش کے باوجود پی ٹی آئی کسی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی نہ تو پوزیشن میں ہے اور نہ موجودہ پارٹی کی قیادت اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی کا ایک مخمصہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی حکمت عملی میں جارحانہ اور مزاحمت کی سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست میں انھیں اپنی خواہش کے مطابق سیاسی راستہ نہیں مل سکے گا۔ جب کہ پارٹی کی قیادت جو عملاً پارٹی چلارہی ہے، وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس کے بقول مفاہمت سے سیاسی راستہ مل سکتا ہے۔ 

لیکن اس گروپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مفاہمت کی سوچ کے باوجود وہ اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ مفاہمتی گروپ کی ناکامی نے بھی بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے مزاحمتی گروپ کو مایوس کیا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت دو کشتیوں میں سوار ہے ، مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی ان کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی قید کو دو برس بیت گئے ہیں، یہ درست ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی جیل نہیں کاٹ سکیں گے،وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے بڑی جرات سے جیل کاٹی ہے اوراب وہ ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گئے ہیں۔

ان کی سیاسی مقبولیت بدستور موجود ہے ۔جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں عالمی دنیا اور بالخصوص امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کلیدی کردارادا کریں گے ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایک طرف عالمی دنیا کی خاموشی اور دوسری طرف داخلی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے دوری، بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔ان کے سیاسی مخالفین اس بات کی دہائی بھی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ، پی ٹی آئی بطور جماعت اورقومی سلامتی اکٹھے نہیں چل سکتے۔

اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کے خیال میں بانی پی ٹی آئی کا سیاسی باب ختم ہوگیا ہے۔یہ کوئی انہونی بات نہیں، ماضی میں ہم اسی طرز کی دلیلیں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے ۔سیاسی قیادتیں کبھی غیر سیاسی فیصلوں ، عدالتی فیصلوں اور حکمت عملی سے ختم نہیں ہوتی اور ان کو ختم کرنے کے لیے عملاً سیاسی حکمت عملی ہی درکار ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات اور پارٹی کے داخلی بحران کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پانچ اگست کو ملک گیر تحریک کا کوئی بڑا سیاسی ماحول پیدا نہیں کرسکی اور چند ہی گھنٹوں کے احتجاج کے بعد یہ تحریک ختم کردی گئی ہے ۔اب کہا جا رہا ہے کہ کارکن 14اگست کے بعد تحریک کی تیاری کریں مگر وہ بھی کوئی سیاسی رنگ نہیں جما سکے گی۔

وہ احتجاجی تحریک جو پانچ اگست سے شروع ہونی تھی ، پانچ اگست کو ہی ختم کردی گئی۔ بالخصوص پنجاب میں ان کی احتجاجی تحریک کوئی رنگ نہیں جما سکی اور احتجاج محض کے پی کے تک محدود رہا جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت تھی۔ 

لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود پی ٹی آئی نے کمزور ہی سہی احتجاج کرکے اپنے سیاسی وجود کو کسی نہ کسی شکل میں دکھایا بھی ہے اور اس مشکل حالات میں اتنا احتجاج بھی پارٹی کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے پانچ اگست کو بھی وہی کچھ کیا جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں اور اب وہ بطور وزیر اعلی پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہ تو بانی پی ٹی آئی کو ہورہا ہے اور نہ ہی پارٹی کو۔

پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی بوجھ ہی بن کر رہ گئی ہے اور وہ پارٹی کے داخلی بحران کو کم یا ختم کرنے کی بجائے اس میںمزید مسائل پیدا کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی اور بالخصوص بانی پی ٹی آئی کو اب پارٹی کی قیادت اور تنظیم کے بارے میں سخت گیر اور اہم فیصلے کرنے ہوںگے اور جو لوگ بطور عہدے دار پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں ان سے تنظیمی عہدے واپس لینے ہوں گے۔

ایسے لگتا ہے کہ حکومت ،اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کے تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں جو قومی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

اب بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے گی اور اس فیصلہ پر پارٹی کی تقسیم بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست کا بھی بائیکاٹ کرسکتی ہے اور اگر ایسا کرتی ہے توان کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔

بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ہے کہ وہ بگاڑ ، محاذ آرائی یا مزاحمت کے بجائے خاموشی سے حالات کا مقابلہ کریں تو ان کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے جس میں ان کی رہائی بھی شامل ہے ۔مگر بانی پی ٹی آئی شاید آمادہ نہیں ہیں۔لیکن قیادت کا اصل کام مشکل حالات میں ایسا سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جہاں وہ سیاست بھی کرسکیں اور اپنے سیاسی وجود کی ساکھ بھی قائم کرسکیں ۔یہ کام جہاں بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہے وہیں خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی کرنا ہے تاکہ حالات نارمل ہوسکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی بطور پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کے پانچ اگست کی سیاسی پارٹی کے پارٹی کی ہیں اور رہے ہیں گئے ہیں اور اس کے لیے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے پارٹی میں اس پر بات کروں گا،سلمان اکرم راجا ن

 سٹی42: پی ٹی آئی کے پنجاب کے اہم لیڈر سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے پارٹی میں اس پر بات کروں گا،  احتجاج بہتر ہوسکتا تھا اور آئندہ ہوگا،  لوگ کیوں نہیں نکلے اس پر عمران خان سے مشاورت کریں گے۔ 

سلمان اکرم نے انکشاف کیا  کہ  مکل پانچ اگست کو وہ خود  اور محمود اچکزئی کل رات11 بجے تک عمران خان کی بہنوں کےساتھ چکری انٹرچینج پر رہے، سلمان اکرم راجا نے کہا،  عمران خان  کی کال ہو تو کوئی ایم این اے بغیرمعقول وجہ کیسے دور رہ سکتا ہے، احتجاج میں شامل نہ ہونےکی اگر کوئی معقول وجہ نہیں تواسکا جواب دینا پڑے گا۔ کل پانچ اگست کو پی ٹی آئی کی قیادت نے تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹروں کو اڈیالہ جیل کے باہر آ کر احتجاج کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن وہاں ایک بھی رکن پارلیمنٹ نہیں گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر خود ارکان پارلیمنٹ کو اڈیالہ جیل طلب کر کے اپنے گاؤں بونیر چلے گئے اور وہاں ایک چھوٹا سا احتجاج کروا کر واپس آ گئے۔ 

ایف آئی اے نے بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت حاصل کرلیے ؛ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

پنجاب میں کہیں بھی پی ٹی آئی سڑکوں پر کوئی قابل ذکر احتجاج ریکارڈ کروانے مین کامیاب نہیں ہوئی، خیبر پختونخوا میں بھی عوام کی پی ٹی آئی کے احتجاج مین شمولت بہت کم دیکھی گئی، حتیٰ کہ پشاور مین وزیراعلیٰ علی امین کی ریلی میں بھی بہت کم لوگ آئے اور وہ تقریر کئے بغیر واپس چلے گئے تھے۔

آج بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملک بھر کے 170 اضلاع، تمام تحصیلوں، یونین کونسلز میں بھرپور احتجاج ہوا، کل عوام نے ثابت کیا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔

صوفی بزرگ شاہ عبد الطیف بھٹائی کا عرس، 9 اگست کو عام تعطیل کا اعلان

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • یورینیم افزودگی کیوں کر بہت مشکل لیکن اہم ہے
  • وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے دی
  • پی ٹی آئی کا 14 اگست کے احتجاج کا انجام 5 اگست سے بھی برا ہوگا؛ شیر افضل مروت
  • پی ٹی آئی کو رویے کا جائزہ لینا ہوگا، ڈائیلاگ پر یقین نہیں: نیئر بخاری
  • کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے پارٹی میں اس پر بات کروں گا،سلمان اکرم راجا ن
  • پی ٹی آئی کی ایک اور بڑی وکٹ اُڑ گئی
  • سلمان اکرم راجا کا احتجاج میں لوگوں کی عدم شرکت پر عمران خان اور پارٹی سے بات کرنے کا فیصلہ
  • کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے، پارٹی میں اس پر بات کروں گا: سلمان اکرم راجہ
  • بانی پی ٹی آئی اس وقت ملک کے سب سے مقبول ترین لیڈر ہیں،محمود خان اچکزئی