پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی بطور قیادت ایک مشکل سیاسی وقت سے گزر رہے ہیں اور ان کے حامی ، سپورٹرز،ووٹرز بھی موجودہ صورتحال میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔کیونکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے مرکزی راہنماؤں سمیت قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو نو مئی کے مقدمات میں دس دس برس کی قید اور نااہلی سمیت اسمبلیوں سے ان کی نشستوں سے محرومی کے بعد یقینی طور پر پی ٹی آئی کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ آنے والے کچھ عرصے میں مزید راہنماؤں کو سزا سمیت اسمبلیوں سے نااہل کیا جا سکتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی شدید خواہش کے باوجود پی ٹی آئی کسی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی نہ تو پوزیشن میں ہے اور نہ موجودہ پارٹی کی قیادت اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا ایک مخمصہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی حکمت عملی میں جارحانہ اور مزاحمت کی سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست میں انھیں اپنی خواہش کے مطابق سیاسی راستہ نہیں مل سکے گا۔ جب کہ پارٹی کی قیادت جو عملاً پارٹی چلارہی ہے، وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس کے بقول مفاہمت سے سیاسی راستہ مل سکتا ہے۔
لیکن اس گروپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مفاہمت کی سوچ کے باوجود وہ اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ مفاہمتی گروپ کی ناکامی نے بھی بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے مزاحمتی گروپ کو مایوس کیا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت دو کشتیوں میں سوار ہے ، مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی ان کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی قید کو دو برس بیت گئے ہیں، یہ درست ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی جیل نہیں کاٹ سکیں گے،وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے بڑی جرات سے جیل کاٹی ہے اوراب وہ ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گئے ہیں۔
ان کی سیاسی مقبولیت بدستور موجود ہے ۔جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں عالمی دنیا اور بالخصوص امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کلیدی کردارادا کریں گے ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک طرف عالمی دنیا کی خاموشی اور دوسری طرف داخلی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے دوری، بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔ان کے سیاسی مخالفین اس بات کی دہائی بھی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ، پی ٹی آئی بطور جماعت اورقومی سلامتی اکٹھے نہیں چل سکتے۔
اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کے خیال میں بانی پی ٹی آئی کا سیاسی باب ختم ہوگیا ہے۔یہ کوئی انہونی بات نہیں، ماضی میں ہم اسی طرز کی دلیلیں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے ۔سیاسی قیادتیں کبھی غیر سیاسی فیصلوں ، عدالتی فیصلوں اور حکمت عملی سے ختم نہیں ہوتی اور ان کو ختم کرنے کے لیے عملاً سیاسی حکمت عملی ہی درکار ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات اور پارٹی کے داخلی بحران کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پانچ اگست کو ملک گیر تحریک کا کوئی بڑا سیاسی ماحول پیدا نہیں کرسکی اور چند ہی گھنٹوں کے احتجاج کے بعد یہ تحریک ختم کردی گئی ہے ۔اب کہا جا رہا ہے کہ کارکن 14اگست کے بعد تحریک کی تیاری کریں مگر وہ بھی کوئی سیاسی رنگ نہیں جما سکے گی۔
وہ احتجاجی تحریک جو پانچ اگست سے شروع ہونی تھی ، پانچ اگست کو ہی ختم کردی گئی۔ بالخصوص پنجاب میں ان کی احتجاجی تحریک کوئی رنگ نہیں جما سکی اور احتجاج محض کے پی کے تک محدود رہا جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت تھی۔
لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود پی ٹی آئی نے کمزور ہی سہی احتجاج کرکے اپنے سیاسی وجود کو کسی نہ کسی شکل میں دکھایا بھی ہے اور اس مشکل حالات میں اتنا احتجاج بھی پارٹی کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے پانچ اگست کو بھی وہی کچھ کیا جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں اور اب وہ بطور وزیر اعلی پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہ تو بانی پی ٹی آئی کو ہورہا ہے اور نہ ہی پارٹی کو۔
پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی بوجھ ہی بن کر رہ گئی ہے اور وہ پارٹی کے داخلی بحران کو کم یا ختم کرنے کی بجائے اس میںمزید مسائل پیدا کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی اور بالخصوص بانی پی ٹی آئی کو اب پارٹی کی قیادت اور تنظیم کے بارے میں سخت گیر اور اہم فیصلے کرنے ہوںگے اور جو لوگ بطور عہدے دار پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں ان سے تنظیمی عہدے واپس لینے ہوں گے۔
ایسے لگتا ہے کہ حکومت ،اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کے تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں جو قومی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
اب بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے گی اور اس فیصلہ پر پارٹی کی تقسیم بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست کا بھی بائیکاٹ کرسکتی ہے اور اگر ایسا کرتی ہے توان کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔
بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ہے کہ وہ بگاڑ ، محاذ آرائی یا مزاحمت کے بجائے خاموشی سے حالات کا مقابلہ کریں تو ان کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے جس میں ان کی رہائی بھی شامل ہے ۔مگر بانی پی ٹی آئی شاید آمادہ نہیں ہیں۔لیکن قیادت کا اصل کام مشکل حالات میں ایسا سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جہاں وہ سیاست بھی کرسکیں اور اپنے سیاسی وجود کی ساکھ بھی قائم کرسکیں ۔یہ کام جہاں بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہے وہیں خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی کرنا ہے تاکہ حالات نارمل ہوسکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی بطور پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کے پانچ اگست کی سیاسی پارٹی کے پارٹی کی ہیں اور رہے ہیں گئے ہیں اور اس کے لیے ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
سیلاب نے ملک میں بہت تباہی مچائی، یوسف رضا گیلانی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب نے ملک میں کافی تباہی مچائی،متاثرین کی آبادکاری کیلئے آخری وقت تک سیلاب زدگان کے ساتھ ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز ملتان میں متاثرین کو خوراک اور بنیادی ضروریات کی اشیا کی تقسیم کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں کیا۔ اس موقعے پر رکن قومی اسمبلی سید عبدالقادر گیلانی ،چئیرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی و رکن صوبائی اسمبلی سید علی حیدر گیلانی اور رکن صوبائی اسمبلی کامران مڑل سمیت سیاسی و سماجی رہنماؤں اور معزین علاقہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اس وقت پورے ملک کو سیلاب نے لپیٹ رکھا ہے،لوگوں کی زمینیں ،گھر،جانور اور کاروبار ختم ہو گئے،مشکل کی اس گھڑی میں ہم سیلاب زدگان کے ساتھ ہیں اور ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا جانی یا مالی نقصان ہوا ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں،میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی گھروں کو واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔انہوں نے فارمرز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اور پاکستان پاورٹی ایوی ایشن کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تنہا حکومت اس مشکل سے نہیں نمٹ سکتی،فلاحی اداروں کا کردار قابل تحسین ہے جنہوں نے مصیبت زدہ اور مشکل میں پھنسے لوگوں کے ساتھ تعاون کیا اور ان کے کھانے پینے اور ضروریات کا خیال رکھا۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بھی ہر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کا ساتھ دیا،اس وقت تمام کارکنان، پارٹی رہنما ،سول سوسائٹی ،تمام ادارے اور وفاقی و صوبائی حکومت کا فوکس سیلاب زدگان کی بحالی ہے۔انہوں نے پاکستان سویٹ ہومز اور مختار اے شیخ کی جانب سے متاثرین کیلئے کی جانے والی خدمات کی تعریف کی اور کہا کہ صحت ،خوراک ،تعلیم اور رہائش کے حوالے سے تمام ادارے متحرک ہیں اور اچھا کردار ادا کر رہے ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم جو کچھ ہیں علاقے کے عوام کی دعاؤں سے ہیں،عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ،اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ عوام کا ساتھ دیں۔انہوں نے مخیر حضرات،تاجروں اور صنعتکاروں سے بھی اپیل کی کہ متاثرین کی مزید خدمت کیلئے آگے بڑھیں۔