اسپین کی تاریخی مسجد میں آتشزدگی، متاثرہ حصہ بند
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
اسپین کی تاریخی جامع مسجد قرطبہ میں آگ بھڑک اُٹھی جس پر فائربریگیڈ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے قابو پالیا، تاہم آگ سے متاثرہ حصہ بند کردیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آتشزدگی گزشتہ روز اسپین کی تاریخی قرطبہ مسجد میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی، جب فرش صاف کرنے والی مشین میں شارٹ سرکٹ ہوا، جس سے شعلے بھڑک اُٹھے اور قریبی حصے کو لپیٹ میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں: 250 سال پرانی مسجد جس کی تعمیر میں جنات نے بھی حصہ لیا
فائر بریگیڈ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے علاقے کو خالی کرا کے آگ پر قابو پایا جبکہ پولیس اور ریسکیو عملہ رات بھر موقع پر موجود رہا تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو روکا جاسکے۔
امس، احترق جزء كبير من مسجد مدينة قرطبة الأسبانية
أهم معلم سياحي في المدينة بالكامل pic.
— Mostafa (@mokatia) August 9, 2025
قرطبہ کے میئر نے فائر فائٹرز کی بروقت کارروائی کو سراہا اور کہا کہ ان کی تیزی سے کی گئی کوششوں کے باعث کوئی بڑا سانحہ پیش نہیں آیا۔
آتشزدگی کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئیں اور عوام نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ مقامی حکام کے مطابق ہفتے کے روز عمارت کو دوبارہ سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا تاہم متاثرہ حصہ بدستور بند ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: لوئر دیر کی 130 سالہ قدیم مسجد جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے
یاد رہے کہ تاریخی مسجد قرطبہ اب چرچ میں تبدیل ہوچکی ہے اور ’مسجد کیتھیڈرل قرطبہ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسپین آگ تاریخی مسجد چرچ قرطبہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسپین تاریخی مسجد
پڑھیں:
اترپردیش میں ہندوتوا شدت پسندوں کا امام مسجد پر بہیمانہ تشدد، حالت نازک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اترپردیش: بھارت کی ریاست اترپردیش میں ہندوتوا کے جنونیوں نے ایک اور المناک واقعہ رقم کردیا، علی گڑھ کے گاؤں لکھن پور میں مقامی مسجد کے امام محمد مصطفیٰ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا، اس واقعے نے ایک بار پھر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو عیاں کردیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں نے امام مسجد پر دباؤ ڈالا کہ وہ “جے شری رام” کے نعرے لگائیں، جب امام مسجد نے انکار کیا تو ایک درجن سے زائد شدت پسندوں نے ان پر ٹوٹ پڑے، حملہ آوروں نے ان کی داڑھی نوچی، ٹوپی اتاری اور لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے نصف گھنٹے تک بے رحمی سے مار پیٹ کی، جب امام مسجد کی حالت غیر ہوگئی تو انہیں مردہ سمجھ کر دفنانے کی کوشش کی گئی، علاقے کے مسلمان بڑی تعداد میں موقع پر پہنچ گئے جس پر حملہ آور انہیں پھینک کر فرار ہوگئے۔
شدید زخمی حالت میں امام مسجد کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے، واقعے کے بعد پولیس نے حسب روایت تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے اسے محض ’’نجی جھگڑا‘‘ قرار دینے کی کوشش کی، عوامی احتجاج کے بعد مذہبی منافرت کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا۔
خیال ر ہے کہ یہ واقعہ کوئی انفرادی عمل نہیں بلکہ اس بات کا تسلسل ہے جو مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں تیزی سے بڑھا ہے، مسلمانوں پر حملے، مساجد کی بے حرمتی، مذہبی علامات کی توہین اور سماجی بائیکاٹ معمول بنتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریہ ہندوتوا کے غلبے کو فروغ دیتا ہے، جس نے بھارت کی سیکولر شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی خبردار کرچکی ہیں کہ بھارت میں مذہبی اقلیتیں بالخصوص مسلمان بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ علی گڑھ کے امام مسجد پر حملہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اگر عالمی سطح پر اس انتہا پسندی کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو نہ صرف بھارت کی جمہوری اور سیکولر شناخت ختم ہو جائے گی بلکہ پورے خطے کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔