پاک افغان بارڈر پر قبائل کا دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کو علاقہ بدر کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
لوئر دیرمیں پاک۔افغان بارڈر سے منسلک قبائل نے علاقے میں موجود خارجی دہشت گردوں کے خلاف اسلحہ اٹھانے، انہیں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو علاقہ بدر کرنے کا اعلان کردیا۔
رپورٹ کے مطابق لوئر دیر میں پاک افغان بارڈر سے منسلک مسکینی درہ کے قبائل نے علاقے میں دہشت گردوں کو اپنے علاقوں میں نہ چھوڑنے فیصلہ کیا ہے۔
قبائیل جرگے نے اعلان کیا کہ اگر دہشت گردوں نے کوئی تخریب کاری کرنے کوشش کی تو ان کی جائیدادوں کو ضبط کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاندانوں کو علاقہ بدر کیا جائے گا
جرگے نے دہشتگردوں کے خلاف اسلحہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا اور دہشت گردوں کی نقل حرکت روکنے کے لیے رات کو پہرہ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
گزشتہ روز سیکورٹی ذرائع نے کہا تھا کہ خوارج باجوڑ میں آبادی کے درمیان رہ کر دہشتگردانہ اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، خیبر پختونخوا کی حکومت بشمول وزیر اعلیٰ اور سیکیورٹی حکام نے وہاں کے قبائل کے سامنے تین نکات رکھے تھے۔
نکات میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان خارجیوں کو جن کی زیادہ تعداد افغانیوں پر مشتمل ہے، کو باہر نکالیں۔
اگر قبائل خوارجین خود نہیں نکال سکتے تو ایک یا دو دن کے لیے علاقہ خالی کر دیں تاکہ سیکیورٹی فورسز ان خوارجین کو اُن کے انجام تک پہنچا سکیں۔
اگر یہ دونوں کام نہیں کیے جا سکتے تو حتی الامکان حد تک Collateral Damage سے بچیں کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہر صورت جاری رہے گی۔
سیکورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ خوارج اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب تک کے وہ ریاست کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کے سہولت کاروں اور ان
پڑھیں:
پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟
19 اپریل کو پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورہِ کابل اور اُس کے بعد مئی اور اگست میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد یہ اُمید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردی کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں گے اور تعلقات آگے بڑھیں گے، جس سے خطّے میں استحکام اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
افغان سرزمین سے حملے اور پاکستانی ردِ عمللیکن افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان نے 27 اگست کو افغانستان میں موجود دہشتگرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس کے بعد کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:20 سال مزید جنگ کے لیے تیار ہیں، بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں پر طالبان کا ردعمل
دوسری طرف 17 ستمبر کو پاکستانی دفترِ خارجہ نے افغان سفیر احمد شکیب کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن لے۔
علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی خدشاتصدر ٹرمپ کے بگرام ائربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بیان نے بھی خطّے میں سیکیورٹی صورتحال کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے، لیکن پاکستان کا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کو افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کی ضرورت درپیش ہے۔
اقوامِ متحدہ میں تنبیہ اور مطالبہ18 ستمبر کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں اور یہاں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف بین الاقوامی طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔
پاکستان کا مؤقف اور مسئلے کی نوعیتپاکستانی دفترِ خارجہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتاتا ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں۔
ہم افغانستان کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں اور تجارت بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف تحریکِ طالبانِ پاکستان کے محفوظ ٹھکانے اور وہاں سے پاکستانی سرزمین پر دہشتگرد حملے ہیں۔
افغان طالبان کا کنٹرول اور متفرق گروہمبصرین کے مطابق ساری صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھتے؛ مختلف دہشت گرد گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا
اس کے ساتھ ساتھ بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کھیل دہشت گردی کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔
بھارت کی ممکنہ مداخلتامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تعلقات کی خرابی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔
ان کے بقول یہ شواہد پر مبنی بات کی جا سکتی ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کے دھڑوں کے بیچ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کر رہا ہے اور طالبان کو پاکستان کے خلاف بدگمان کرتا رہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا بڑا نیٹ ورک کارفرما ہے۔
مسعود خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے انہیں اسلحہ اور تربیت ملتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔
ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغانستان میں داعش بھی موجود ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ان کے مطابق بی ایل اے بھی وہاں سے سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی میں سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے 5 شدت پسند گرفتار
پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں افغان قیادت کو پہل کرنی چاہیے۔
نظریاتی تعلق اور خفیہ ایجنسیوں کا کردارایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کے درمیان نظریاتی تعلق موجود ہے اور اس ملک میں بہت سی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔
طالبان کا پورے ملک پر مؤقف نہیں، حماد حسنسینئر صحافی حماد حسن نے وی نیوز کو بتایا کہ افغان طالبان کا اختیار عملی طور پر کابل تک محدود ہے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی مستحکم سیاسی حکومت ہے اور نہ ہی جمہوری طرز حکومت، وہاں قبائلی نوعیت کے سردار اور وار لارڈز کا رجحان ہے۔
ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں تقریباً 60 دہشتگرد گروہ کام کر رہے ہیں، جن میں جماعت الاحرار، حافظ گل بہادر گروپ، ٹی ٹی پی، آئی ایس خراسان وغیرہ شامل ہیں۔
مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہے، جیسے کنڑ میں طالبان، ننگرہار میں داعش، پکتیا اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی، خوست میں حافظ گل بہادر وغیرہ۔ لہٰذا طالبان جو کہتے ہیں وہ پورے افغانستان کی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔
بیرونی مداخلت اور محفوظ ٹھکانےحماد حسن نے بیرونی مداخلت کے بارے میں کہا کہ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے اور جنگ زدہ ممالک میں بیرونی ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔
بیرونی ایجنسیاں اپنی پراکسیز کو متحرک کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ داعش کے اہم لیڈر سیف العدل اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں سوال اٹھتا ہے کہ انہیں کس نے یا کن صلاحیتوں نے وہاں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے۔
بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورتحماد حسن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک تمام ممالک دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار نہیں کریں گے، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امریکا ٹی ٹی پی حماد حسن دہشتگرد طالبان کابل مسعود خان