اعظم سواتی نے 14 اگست کی احتجاج کی کال کو غلط قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پی ٹی آئی رہنماء اعظم سواتی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس نے کہا ہے 14 اگست کو احتجاج ہوگا، اگر کسی نے 14 اگست کو احتجاج کا کہا یے بلکل غلط کہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اعظم سواتی نے کہا ہے کہ اگر کسی نے 14 اگست کو احتجاج کا کہا یے بلکل غلط کہا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماء اعظم سواتی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس نے کہا ہے 14 اگست کو احتجاج ہوگا، اگر کسی نے 14 اگست کو احتجاج کا کہا یے بلکل غلط کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی آزادی کا اور یکجہتی کا دن ہے، اس دن کو آزادی پورے جوش و جذبے کے ساتھ منائیں گے۔ اعظم سواتی نے کہا کہ چودہ اگست قائد اعظم کی فتح کا دن ہے، اس پر احتجاج نہیں کریں گے۔ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کا نام ای سی ایل اور پی سی ایل سے نکالنے کے لئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست پر سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے کی۔
وکیل درخواست گزار علی عظیم افریدی ایڈوکیٹ نے کہا کہ 13 اگست کو صبح 9 بجے درخواست گزار کی فلائٹ ہے، درخواست گزار کا نام لسٹ میں ہے، اس وجہ سے سفر نہیں کرسکتے، عدالت نے نام نکالنے کا حکم دیا لیکن ان کو ائیرپورٹ پر جانے نہیں دیا گیا۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کا نام اب کسی لسٹ میں نہیں ہے، ان کا نام نکال دیا ہے، جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اب یہ بیرونی ملک سفر کرسکتے ہیں؟ نمائندہ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ان کا نام کسی لسٹ میں نہیں ہے، یہ سفر کرسکتے ہیں۔ اعظم سواتی کا نام لسٹ سے نکالنے پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اگست کو احتجاج اعظم سواتی نے درخواست گزار نے 14 اگست کہا کہ نے کہا کہا ہے کا نام
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست خارج کر دی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت درخواست خارج کردی۔ جسٹس خادم حسین سومرو نے کلثوم خالق ایڈووکیٹ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون وکیل پر بھاری جرمانہ عائد کرنے سے گریز کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے صرف آبزرویشنز دیں، کوئی حکم جاری نہیں کیا جس پر عملدرآمد ہوتا۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ پٹیشنر نے توہین عدالت کی درخواست میں بہت سے ایسے افراد کو فریق بنایا جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، آئینی عہدے پر فائز شخص یا شخصیات کو فریق نہیں بنایا جا سکتا جب تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اسی عدالت کے کسی دوسرے حاضر سروس جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں، کسی حاضر سروس جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی قابل سماعت نہیں۔ پٹیشنر کی جانب سے کی گئی استدعا غلط فہمی پر مبنی، قابل اعتبار مواد سے غیر مستند اور آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہیں، عدالت نے پٹیشنر کی جانب سے آفس اعتراضات پر مطمئن نا کرنے کے باعث کیس داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔