23 مارچ کو کن صحافیوں اور کھلاڑیوں کو ایوارڈز ملیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
حکومت نے 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے کھلاڑیوں اور صحافیوں کو قومی اعزازات دینے کا اعلان کیا ہے۔
اسپورٹس کے شعبے میں ایوارڈز حاصل کرنے والے: شاہد خان آفریدی (ہلالِ امتیاز) — کرکٹ شہروز کاشف (ہلالِ امتیاز) — ماؤنٹینئرنگ ملک محمد عطا مرحوم (ہلالِ امتیاز) — گھڑسواری ثناء میر (ستارۂ امتیاز) — کرکٹ حیدر علی (ستارۂ امتیاز) — ڈسکس تھرو محمد سجاد گجر (PAPP) — کبڈی شہزایب رند (PAPP) — کراٹے کامبیٹ محمد حمزہ خان (تمغۂ امتیاز) — اسکواش محسن نواز (تمغۂ امتیاز) — شوٹنگ راشد ملک (تمغۂ امتیاز) — ٹینس یہ بھی پڑھیں:صدر آصف علی زرداری نے 263 شخصیات کو 23 مارچ 2026 کو سول اعزازات دینے کی منظوری دیدی صحافت کے شعبے میں ایوارڈز حاصل کرنے والے: احتشام الحق (ہلالِ امتیاز) ضیا الحق سرحدی (ستارۂ امتیاز) — کالم نگاری سرمد علی (ستارۂ امتیاز) سمر عباس (تمغۂ امتیاز) عدیل عباسی (تمغۂ امتیاز) کرن ناز (تمغۂ امتیاز) بینش سلیم (تمغۂ امتیاز) کامران حمید راجہ (تمغۂ امتیاز) مونا عالم (تمغۂ امتیاز) محمد طارق عزیز (تمغۂ امتیاز) ارشد انصاری (تمغۂ امتیاز) عبدالموہی شاہ (تمغۂ امتیاز) — اسپورٹس جرنلزم شازیہ سکندر (تمغۂ امتیاز)
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
23مارچ اعزازت صحافی کھلاڑی.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
میونخ اولمپکس: جب پاکستانی ہاکی ٹیم نے میڈلز پہننے سے انکار کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251004-03-5
راشد منان
دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ایشیاء کپ کے فائنل کی ایوارڈ تقریب میں جو کچھ ہوا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کھیل میں ایسا رویہ ہم پاکستانی بھی کر چکے ہیں۔ 1972 کے اولمپکس کھیلوں کے دوران ہاکی کے فائنل میچ کے بعد میڈلز کی تقسیم کی تقریب میں جب پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے والی ٹیموں کے کھلاڑی میدان میں میڈل ٹیبل پر موجود تھے اور فاتح ملک جرمنی کا پرچم اپنے قومی ترانے کی دھن میں فضاء میں بلند ہو رہا تھا تو تمام منتظمین، تماشائی اور مہمان اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب چاندی کے تمغے کی حقدار ٹیم پاکستان کے تمام کھلاڑیوں نے اپنی پشت جرمنی کے قومی پرچم کی طرف موڑ دی۔ گرین شرٹ کا ردعمل یہیں تک رہتا تو خیر تھی مگر اس کے پانچ کھلاڑیوں نے ایسی حرکت کی جس سے نہ صرف قومی ٹیم پر تاحیات پابندی کے خدشات پیدا ہوگئے بلکہ پاکستان کے ارجنٹینا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ٹوٹنے کے قریب ہوگئے تھے۔
اولمپکس کی عالمی کمیٹی کے رکن اور مغربی جرمنی کے تاجر برٹ ہولڈ بیٹس جو مہمان خصوصی تھے انہوں نے جب پاکستانی کھلاڑیوں کو میڈل پہنانا چاہا تو کھلاڑیوں نے اسے گلے میں پہنے کے بجائے تمغے ہاتھوں میں پکڑ لیے۔ یہی نہیں پانچ کھلاڑیوں اصلاح الدین، منور زمان، شہناز شیخ اور اختر رسول نے سر عام میڈل کو اپنے جوتوں میں رکھ کر اس کی نمائش کی یہ ایک نا زیبا حرکت تھی جس کا نوٹس لیا گیا اور جس نے اولمپکس کی عالمی کمیٹی اور ورلڈ ہاکی فیڈریشن کو ناراض کر دیا میچ کے اس نتیجے پر اشتعال اور احتجاج صرف قومی ٹیم کے کھلاڑیوں تک ہی محدود نہ رہا ساری قوم اپنے تئیں جانبدارانہ امپائرنگ پر مشتعل اور غصے اور صدمے کا شکار ہوئی حتیٰ کہ اس وقت کے صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو کا ایک بیان ملک کے ایک موقر جریدے میں یوں رپورٹ ہوا ’میں غصے سے بھنا اٹھا اور وزارت خارجہ کے سیکرٹری سے کہا کہ اگر ارجنٹینا کے امپائر نے میرے ملک کے لوگوں کو نقصان پہنچانے اور ان کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے تو میں کل ہی ارجنٹینا سے سفارتی تعلقات منقطع کر لوں گا‘۔ بھٹو صاحب کے مذکورہ بیان کے ساتھ ان کا یہ بیان بھی بعد کے اخبارات میں یوں شایع ہوا کے ریڈیو پاکستان کی ناقص کمنٹری میں مبصروں نے کھیل کا جو آنکھوں دیکھا حال بیان کیا گیا اس نے مجھے گمراہ کیا۔
صدر مملکت بھٹو جنہوں نے شکست والے روز ہار کو ٹیم کی اخلاقی فتح قرار دے کر کھلاڑیوں کو یورپ کی سیر کا عندیہ دیا تھا جذبات کا طوفان تھمنے کے بعد ہاکی ٹیم پر بری طرح برس پڑے اور انہوں نے کراچی میں تاجروں سے خطاب کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانی ٹیم کے بے ہودہ اور احمقانہ رویے نے سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے میں مغربی جرمنی سے معذرت کرتا ہوں۔ انہوں نے ٹیم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو شکست دینے کے بعد کھلاڑیوں نے ایسا انداز اختیار کرلیا تھا گویا وہ صلاح الدین ایوبی ہیں اور انہوں نے بیت المقدس فتح کرلیا ہے۔ پاکستان کے معروف اسپورٹس جرنلسٹ قمر احمد جو اس تنازعے کے عینی شاہد تھے انہوں نے اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ جرمنی کے مائیکل کروز ے کے گول پر پاکستان نے تکنیکی وجوہات پر اعتراض کیا۔ مگر امپائر نے اس پر توجہ نہ دی۔ پاکستانی مینیجر غلام رسول چودھری نے گمان کیا کہ پاکستان کو طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہروایا گیا ہے۔ ٹیم کی انتظامیہ کے اس احساس نے کھلاڑیوں کو بھی جذباتی کر دیا اور ان کے اس گمان کے بعد پوری قوم اشتعال میں آگئی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اسی طرح وقفے سے ایک منٹ قبل مدثر اصغر کی ہٹ سے گیند گول میں چلی گئی۔ ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے امپائر سرویٹے نے پاکستان کے حق میں گول نہ دیا۔
سابق اولمپئن شہناز شیخ جنہوں نے میڈل کو جوتے کے ساتھ اٹھایا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مینیجر نے کھلاڑیوں سے کہا کہ میڈل ہاتھ میں نہیں لینا۔ اس لیے جس کی سمجھ میں جو آیا اس نے وہی کیا بعد کے وضاحتی بیان میں ان کا کہنا تھا کہ گرمی کے باعث میں نے جوتے اُتار رکھے تھے اور میں نے جوتے اُٹھانے کے لیے میڈل والا ہاتھ استعمال کیا جس سے دیکھنے والوں کو یوں لگا کے میڈل جوتے میں رکھا گیا ہے۔ جس سے قمر احمد بالکل اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کھلاڑیوں نے جان بوجھ کر میڈلز جوتوں میں رکھے میچ ہارنے پر اس طرح کا رد عمل اسپورٹس میں اسپِرٹ کے خلاف تھا۔
مغربی جرمنی کی فتح اولمپکس کی 44 سالہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ہاکی کا گولڈ میڈل کسی ایشیائی ملک کے بجائے کسی یورپی ملک نے جیتا ہو۔ میونخ میں جرمنی کے مدمقابل ہاکی کے اس معرکے میں پاکستانی ٹیم کے غیر معمولی اعتماد کی ایک وجہ اپنے روایتی حریف انڈیا کو سیمی فائنل میں ہرانا بھی تھا اور 1968 کے اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کا نو (9) میچوں میں ناقابل شکست رہنا بھی ان کے اعتماد کی ایک وجہ تھی جسے مغربی جرمنی کی شکست سے ٹھیس پہنچی تھی اس دور کی خاتون اوّل بیگم نصرت بھٹو بھی میچ دیکھنے والوں میں شامل تھیں جو عام تماشائیوں کی طرح کافی حد تک خود بھی مشتعل تھیں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اس وقت کے اولمپکس کمیٹی کے صدر رینی فرینک جن کا تعلق بلغاریہ سے تھا کو اپنے اجلاس میں بلایا۔ ان کا موقف جاننے کے بعد پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائی کی شروعات کا آغاز ہوگیا۔ یہاں تک کہا جانے لگا کے تاحیات پابندی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے چاندی کا تمغہ واپس لے لیا جائے لیکن ذوالفقارعلی بھٹو کی بصیرت اور ان کے معذرت خواہانہ بیان نے پاکستانی ہاکی فیڈریشن کو بھی احساس دلادیا کہ جرمنی کے پرچم کی توہین ایسی غلطی ہے جس کا دفاع ممکن نہیں۔ اس لیے اولمپکس کی عالمی کمیٹی کے سامنے معافی نامہ داخل کروا دیا گیا اور اس طرح پاکستان کی ہاکی کے کھیل میں دو بارہ واپسی ممکن ہو سکی البتہ پاکستانی ٹیم پر دو سال کے لیے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ تمغے کو جوتے میں رکھنے والے کھلاڑیوں پر آئندہ کسی بھی مقابلے میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی جس کے باعث ہاکی کے اگلے ورلڈ کپ میں وہ حصہ نہ لے سکے۔
تاریخ کے جھروکوں سے ان تفصیلات کے بعد سب سے پہلے تو پاکستانی ٹیم سے یہ سوال ضرور کیا جانا چاہیے کے پاکستانی ٹیم کا انڈیا کی ٹیم سے ہاتھ ملانا زیادہ ضروری امر تھا یا ان سے کھیل کے میدان میں ہماری جیت۔ اور پھر کیا بھارتی ٹیم کا ہم سے ہاتھ نہ ملانا ہمارے لیے اتنا بڑا صدمہ تھا کے ہم ایک ہی ایونٹ میں ان سے تین مرتبہ میچ ہار گئے، ہمیں شرمندگی ہاتھ نہ ملانے پر ہونی چاہیے نہ کے بار بار کی ہار پر۔ بھارت کرکٹ ٹیم کے کپتان سوریا کمار نے اپنی ٹیم مینجمنٹ کے کہنے پر وہی کچھ کیا جو ہماری ہاکی ٹیم نے 1972 کے فائنل میں اپنی ٹیم مینجمنٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کیا تھا۔ رہا بھارتی کپتان کی آپریشن سیندور کی بات تو اس پر احتجاج قومی اور سفارتی سطح پر ہونا چاہیے تھا نہ کہ ہر دو طرف کے کھلاڑیوں کو اس بات کی اجازت کے وہ کھیل کے بجائے سیاست میں حصہ لینے لگ جائیں۔ ایشیاء کپ میں ہمیں کھلاڑیوں کا کھیل سے دلچسپی تھی نہ کہ ان کی اداؤں سے! ایک نے ٹرافی لینے سے انکار کیا تو دوسرے نے چیک پھینک کر کرکٹ کی ویسی ہی توہین کی جس طرح ہماری گرین شرٹ نے 1972 میں ہاکی کے کھیل کی کی تھی۔ ان کا زعم تو ٹھیک تھا وہ مسلسل میچ جیت رہے تھے لیکن ہماری کرکٹ ٹیم تو اپنے کمتر درجے کی ٹیم سے بھی میچ ہار کر ملک بھر میں پھیلے شائقین کرکٹ کے ارمانوں کا ہمیشہ خون کرتی رہی ہے۔
مذکورہ تحریر جس میں مختلف حوالوں سے ایک تاریخ بیان کی گئی ہے کے بعد آئی سی سی کو بھی اپنے فل کورٹ اجلاس میں اس تنازعے کی پوری تفصیلات سننے کے بعد ہر دو ٹیم اور ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی فی الفور عمل میں لانی چاہیے تاکہ بالکل ابتدا میں ہی کرکٹ کے کھیل میں داخل سیاست کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع کر دیا جائے، دو ٹوک بات تو یہی ہے کہ ہر اس شخص، کھلاڑی اور انتظامیہ جو بھی اس واقعے کو ہوا دینے کا سبب بنا ہے انہیں کرکٹ کے میدان سے ہمیشہ کے لیے باہر کر دیا جائے تاکہ کھیل کھیل ہی رہے سیاست کا اکھاڑہ نہ بننے پائے۔