تجاوزات کی خاتمہ مہم کے فوائد و نقصانات
اشاعت کی تاریخ: 18th, August 2025 GMT
پنجاب میں پہلی منفرد تجاوزات کا خاتمہ مہم کے چرچے ہیں، خاص کر یہ مہم پنجاب میں زیادہ زیر بحث ہے جس پر پی ٹی آئی کڑی تنقید کر رہی ہے کہ صوبائی حکومت نے غربت و بے روزگاری میں جکڑے پنجاب بھر میں تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی بے طریقہ مہم کے نتیجے میں تقریباً تیس لاکھ افراد کو روزگار سے محروم کر دیا ہے جس کے نتیجے میں صرف ریڑھی پتھارے والے اور گھوم پھر کر اپنے کندھوں پر سامان رکھ کر فروخت کرنے والے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے مگر حکومت پنجاب نے ان بے روزگار ہونے والوں کے لیے نہ کوئی منصوبہ بندی کی نہ انھیں روزگار کے لیے متبادل جگہ دی۔
پنجاب حکومت نے صوبے میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے پیرا نامی نیا ادارہ بنایا ہے جس کے فرائض میں تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ غلط پارکنگ ہٹانا بھی شامل ہے اور پیرا میں سارجنٹس کو مقرر کیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ہمارا کام صرف تجاوزات کا خاتمہ ہے اور کاروباری علاقوں میں ریڑھی پتھاروں کو ہٹانا اور جن دکانداروں نے اپنی دکانیں تخت لگا کر بڑھا رکھی ہیں انھیں اپنی دکانوں کے شٹر تک محدود کرنا ہے۔ ان علاقوں میں کندھوں پر مختلف سامان رکھ کر فروخت کرنے والوں کو تجاوزات میں شامل کیا گیا ہے ۔
ریڑھی، پتھاروں اور آگے بڑھی ہوئی دکانوں کے ساتھ کندھوں پر سامان رکھ کر روزی کمانے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور سب کا سامان ضبط کرنا شروع کیا گیا اور جن کا سامان ضبط کرکے لے جایا جاتا ہے انھیں کہا جاتا ہے کہ وہ علاقوں کے اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس جائیں وہی سامان واپسی یا جرمانے کا فیصلہ کریں گے۔
بعض دکانداروں کا سامان ضبط کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاتی ہے اور بھاری جرمانے ادا کرکے انھیں رہائی ملی ہے۔ پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائیوں سے تجاوزات کرنے والوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔
تجاوزات کے خلاف اتنی سخت مہم پچاس ساٹھ برسوں میں کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے شہروں کے دکانداروں نے اپنی دکانیں اتنی آگے بڑھائی ہوئی ہیں کہ وہاں کے بازار اب گلیاں بن چکی ہیں اور ان تجاوزات کے قیام میں وہاں کے بلدیاتی اداروں کا سب سے اہم کردار ہے جنھوں نے اپنی مقررہ رشوت وصولی کے لیے بازاروں کو تنگ گلیاں بنانے والوں کو کبھی نہیں روکا۔بڑے شہروں میں جہاں سرکاری ترقیاتی اداروں کی ذمے داری ان تجاوزات کا خاتمہ تھا کبھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور رشوت وصولی پر زور رکھا جس کے نتیجے میں تجاوزات قائم کرنے والوں نے ان تجاوزات کو قانون سمجھ لیا اور ان کا کہنا ہے کہ وہ تو عشروں سے اسی طرح اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور متعلقہ اداروں کو ٹیکس دیتے آئے ہیں۔
تجاوزات کا مسئلہ پورے ملک ہی میں ہے جس کے قیام کے لیے بڑے شہروں میں رشوت زیادہ اور چھوٹے شہروں میں مختلف ہے مگر تجاوزات تشویش ناک ہو چکی ہے لوگوں کے چلنے کے لیے فٹ پاتھوں پر بھی اب جگہ نہیں ملتی، سڑک کے دونوں اطراف پتھارے، ریڑھیاں اور کاروں نے بڑے شہروں میں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے مگر تجاوزات کرانے والے اداروں کے کرپٹ عملہ، پولیس کے خلاف پہلے کارروائی ہونی چاہیے تھی جو کبھی نہیں ہوئی اور اب پنجاب میں جو تجاوزات ختم کرنے کی کارروائی شروع کی گئی ہے اسے متاثرین حکومت کی زیادتی بھی قرار دے رہے ہیں مگر وہاں آنے والے لوگ اور دکاندار اچھا اقدام بھی قرار دے رہے ہیں۔
تجاوزات مہم سے متاثر ہونے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو انھیں متبادل جگہ دینی چاہیے تھی اور وہ شہریوں کو دکانوں کی نسبت سستا مال فروخت کرتے تھے۔
یہ بات حقیقت بھی ہے مگر حکومت کو اس سہولت سے نہیں تجاوزات ختم کرا کر تجارتی علاقوں کو وسیع کرانے سے سروکار ہے اگر ان تجارتی علاقوں کے قریبی میدانوں میں ہی ان ریڑھی و پتھاروں کو متبادل یا عارضی جگہیں دے دی جاتیں تو نہ احتجاج ہوتے نہ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوتے۔ انسداد تجاوزات مہم سے جہاں لوگ خوش ہیں وہاں ہزاروں رشوت خوروں کی رشوت ماری گئی اور پنجاب کی حکومت کے اس اچھے اقدام پر متاثرین تنقید بھی کر رہے ہیں اور (ن) لیگ کی مخالفت بھی بڑھی ہے جو اسے مستقبل میں سیاسی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں تجاوزات کے تجاوزات کا بھی نہیں کے خلاف ہیں اور رہے ہیں کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ جو افراد ہر معاملے پر ’مرسوں مرسوں‘ کے نعرے لگاتے تھے، وہ اب صوبائیت کا سہارا لے رہے ہیں، جبکہ پنجاب کو اپنے ہی حصے کے پانی کے استعمال کے لیے کسی اور صوبے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
ایک بیان میں عظمیٰ بخاری نے کہاکہ کسی بھی صوبے کے اندرونی معاملات میں مداخلت آئینی خلاف ورزی ہے، اور پیپلز پارٹی پنجاب کے امور میں دخل اندازی کرکے آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب اور گندم پر سیاست کرنے والوں کو جواب ملے گا، مریم اورنگزیب کا پیپلزپارٹی پر وار
ان کا کہنا تھا کہ یا تو آپ اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں یا مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں؟ دو ہفتے پہلے تک میڈیا میں آپ کو کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا، اور اب آپ پنجاب کے سیلاب متاثرین اور کسانوں پر تنقید کر کے سرخیوں میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ سندھ میں آپ کی حکومت ہے، تو وہاں کے کسانوں سے گندم کیوں نہیں خریدی گئی؟
عظمیٰ بخاری نے مزید کہاکہ پنجاب میں رہ کر سندھ کے وڈیروں کی تابعداری کب تک جاری رہے گی؟ پنجاب کو اپنے وسائل، خصوصاً پانی، کے استعمال کے لیے کسی اور صوبے سے منظوری درکار نہیں۔
’پنجاب کے تمام وسائل پر پہلا حق پنجاب کے عوام کا ہے، اور مریم نواز اپنے صوبے کے کسانوں کو ان کے حقوق ضرور دلوائیں گی۔ اگر مریم نواز پنجاب کے عوام کی آواز بنتی ہیں تو یہ بات آپ کو کیوں ناگوار گزر رہی ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جسے سندھ میں حکومت کرتے ہوئے 17 برس ہو چکے ہیں، وہاں کے حالات مسائل سے بھرے ہوئے ہیں۔ پنجاب کو یہ یاد رہے گا کہ جب وہ مشکل میں تھا تو پیپلز پارٹی نے اس کے عوام کے مسائل کا مذاق بنایا۔ پنجاب کے لوگ اس رویے کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
سیلاب متاثرین پر سیاست کرنے کے بجائے ان کی مدد کی جائے، ترجمان سندھ حکومت
دوسری جانب ترجمان سندھ حکومت مصطفیٰ عبداللہ بلوچ نے ردعمل میں کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں گہری جڑیں رکھتی ہے، وہاں ہمارے پرعزم کارکن اور ووٹر موجود ہیں، اور پنجاب میں عوام کی نمائندگی کرنے سے کسی کو باز نہیں رکھا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی کشیدگی: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق
مصطفیٰ عبداللہ نے کہاکہ سیلاب متاثرین کی مدد ہونی چاہیے، نہ کہ اس پر سیاست کی جائے، اور جس جماعت نے ملک کو آئین دیا، اسے آئینی حدود کا سبق نہ سکھایا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اختلافات پیپلزپارٹی ترجمان سندھ حکومت عظمیٰ بخاری مسلم لیگ ن وی نیوز