ہولی فیملی اسپتال میں دو سینئرڈاکٹروں کی غفلت، علاج میں تاخیر سے 11 سالہ بچی جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
راولپنڈی:
ہولی فیملی اسپتال میں 11 سال کائنات کی موت پر ہونے والی فیکٹ فائنڈنگ کے حوالے سے اسپتال ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں دو سینئر ڈاکٹروں کی غلفت اور لاپروائی کی وجہ سے علاج میں تاخیر ثابت کی تصدیق ہوئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپتال کی پیڈز سرجری میں ڈاکٹر نے غلط تشخیص کرکے 11 سالہ کائنات کا اپینڈکس آپریشن کردیا تھا، کائنات کو پیٹ میں شدید درد تھا اور وہ چیختی چلاتی دم توڑ گئی تھیں۔
علاج میں غلفت اور لاپروائی کے ذمہ دار ڈاکٹروں کے خلاف انضباطی کارروائی کے لیے سربمہر رپورٹ سیکریٹری ہیلتھ کو بھجو ادی گئی۔
اسپتال ذرائع نے بتایا کہ ذمہ دار قرار پانے والے دو سینئر ڈاکٹروں کے نام سیکیورٹی وجوہات پر ظاہر نہیں کرسکتے تاہم افسوس ناک واقعے پر وائس چانسلر راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر نے الگ سے تین رکنی اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی قائم کردی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر سرور پرنسپل راولپنڈی میڈیکل کالج، ڈاکٹر جواد ظہیر ہیڈ آف انستھیزیا ڈپارٹمنٹ اور ڈاکٹر ندیم ملک اے ایم ایس ہولی فیملی اسپتال پر مشتمل ہے۔
کمیٹی تفتیش کے بعد 24 گھنٹوں میں رپورٹ دے گی اور ذمہ داری کا تعین اور کارروائی کے لیے تجاویز دے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ 15 اگست کو اسپتال کے تفصیلی دورے کے بعد اپنی رپورٹ میں اسپتال میں علاج معالجے کے نظام پر متعدد سوالات اٹھانے کے علاوہ صفائی، بیڈ گورننس، بدانتظامی، اور مریضوں کو ادویات نہ ملنے کی نشان دہی کر چکا ہے اور مذکورہ رپورٹ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو بھجوائی گئی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذرائع نے بتایا کہ
پڑھیں:
کراچی، اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بچہ فروخت
بچے کو شمع بلوچ اور ڈاکٹر زہرا نے مل کر پنجاب میں فروخت کردیا تھا،ایس ایس پی ملیر
بچہ بازیابی کے بعد والدین کے حوالے، میمن گوٹھ میں قائم نجی اسپتال کو سیل کردیا گیا
شہر قائد کے علاقے میمن گوٹھ میں اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلیے نومولود کو فروخت کرنے کا انکشاف ہوا جسے خاتون نے خرید کر پنجاب میں کسی کو پیسوں کے عوض دے دیا تھا۔ پولیس نے مقدمے کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کیا۔اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے کارروائی کرتے ہوئے پنجاب سے بچے کو بازیاب کروا کے والدین کے حوالے کردیا جبکہ اسپتال کو سیل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق شمع بلوچ اسپتال کی ملازمہ ہے اور اُس نے ڈاکٹر زہرا کے ساتھ ملکر یہ کام انجام دیا۔ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ کے مطابق بچے کو شمع بلوچ اور ڈاکٹر زہرا نے ملکر پنجاب میں فروخت کردیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر زہرا اور شمع بلوچ کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے گئے ہیں تاہم کامیابی نہ مل سکی، دونوں کو جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق میمن گوٹھ میں قائم نجی اسپتال میں شمع نامی حاملہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کیلئے گئی تو وہاں پر ڈاکٹر نے زچگی آپریشن کیلیے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔خاتون نے جب ڈاکٹر سے رقم نہ ہونے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون بچے کی خواہش مند ہے اور وہ بچے کو نہ صرف پالے گی بلکہ آپریشن کے اخراجات بھی ادا کردے گی۔خاتون کے آپریشن کے بعد لڑکے کی پیدائش ہوئی جسے ڈاکٹر نے مذکورہ خاتون کے حوالے کیا جس پر والد سارنگ نے مقدمہ درج کروایا۔والد سارنگ نے مقدمے میں بتایا کہ وہ جامشورو کے علاقے نوری آباد کے جوکھیو گوٹھ کا رہائشی ہے۔ مدعی مقدمہ کے مطابق اہلیہ چند ماہ قبل حاملہ ہونے کے باوجود ناراض ہوکر والدین کے گھر چلی گئی تھی۔’پانچ اکتوبر کو اہلیہ اپنی والدہ کے ساتھ معائنے کیلیے کلینک گئی تو ڈاکٹر زہرا نے آپریشن تجویز کرتے ہوئے رقم ادائیگی کا مطالبہ کیا، رقم نہ ہونے پر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ ایک عورت کو جانتی ہیں جو غریبوں کی مدد کرتی اور غریب بچوں کو پالتی ہے‘۔سارنگ کے مطابق ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ عورت نہ صرف بچے کو پالے گی بلکہ آپریشن کے تمام اخراجات بھی ادا کردے گی، جس پر میری اہلیہ نے رضامندی ظاہر کی تو خاتون شمع بلوچ نے آکر اخراجات ادا کیے اور بچہ لے کر چلی گئی۔والد کے مطابق مجھے جب لڑکے کی پیدائش کا علم ہوا تو اسپتال پہنچا جہاں پر یہ ساری صورت حال سامنے آئی اور پھر اہلیہ نے شمع بلوچ نامی خاتون کا نمبر دیا تاہم متعدد بار فون کرنے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوا کیونکہ موبائل نمبر بند ہے۔شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ مجھے شبہ ہے کہ شمع نامی خاتون نے میرا بچہ کسی اور کو فروخت کر دیا ہے لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔