سریاب خودکش حملہ کنٹرول سے باہر تھا، اس کی روک تھام ممکن نہیں تھی،حمزہ شفقات WhatsAppFacebookTwitter 0 3 September, 2025 سب نیوز

کوئٹہ (سب نیوز)ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ جلسے کا وقت 3بجے تھا لیکن خودکش دھماکا رات 9 بج کر 45 منٹ پر پیش آیا، خودکش حملہ جلسہ گاہ سے 500کلو میٹر دور ہوا، سریاب روڈ پر خودکش حملہ قابو سے باہر تھا، سیکیورٹی صورتحال سے متعلق سیاسی جماعت کو آگاہ کیا تھا۔
کوئٹہ میں پولیس حکام کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بلوچستان نے کہا کہ دھماکہ جلسہ ختم ہونے کے بعد ہوا، خودکش حملہ آور کی لاش برآمد کرلی گئی، حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم تھی۔حمزہ شفقات نے کہا کہ حملہ آور نے 8 کلو دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا، دھماکے میں 15 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی بلوچستان نے شہدا کے لئے 15 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا، زخمیوں کے لئے 5 لاکھ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی کے جلسے پر 120 پولیس اہلکار تعینات تھے، جلسہ کا وقت 3 بجے تھا لیکن واقعہ رات 9 بج پر 45 منٹ پر پیش آیا، دھماکا جلسہ ختم ہونے کے بعد پیش آیا، جلسے کے منتظمین کو جلسہ مختصر کرنے کا کہا گیا تھا۔حمزہ شفقات نے کہا کہ خودکش حملہ جلسہ گاہ سے 500 کلو میٹر دور ہوا، سیکیورٹی صورتحال سے متعلق سیاسی جماعت کو آگاہ کیا تھا، آئندہ مغرب کی نماز کے بعد جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ 15ستمبر تک 144 نافذ ہے، جلسے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، 3، 4 دن اس کی مخالفت بھی کی گئی لیکن منتظمین کی طرف سے بہت زیادہ پریشر تھا کہ جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے کہا کہ حکومت نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے این او سی دی، اس سلسلے میں 17 سے 18 شقیں ڈالیں، یہ شق بھی شامل تھی کہ وقت کی پابندی کی جائے گی۔ حمزہ شفقات نے کہا کہ بد قسمتی سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر بلوچستان کے تناظر میں قابو نہیں پایا جا سکتا، اس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا، بہت سارے بیگناہ لوگ اس میں شہید ہوئے۔انہوں نے کہاکہ خود کش حملہ آور کی شناخت تاحال نہ ہوسکی ہے، سخت سیکیورٹی کے باعث خودکش حملہ آور جلسہ گاہ کے اندر نہیں جاسکا، انہوں نے کہا کہ خودکش دھماکے کا واقعہ قابو سے باہر تھا، قانون نافذ کرنے والے ادارے جتنی کوششیں کرسکتے تھے انہوں نے کی۔
انہوں نے کہا کہ 12 ربیع الاول کے موقع پر سیکیورٹی تھریٹ الرٹ ہے، معرکہ حق کے بعد دہشتگردی تنظیم پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، باربار گزارش کررہے ہیں کہ 6 ستمبر کو اپنی موومنٹ کنٹرول رکھیں۔
دوسری طرف سی ٹی ڈی نے سریاب میں شاہوانی اسٹیڈیم کے قریب خودکش دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا،سی ٹی ڈی کے مطابق مقدمہ نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف درج کیا گیا، مقدمے میں قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔سی ٹی ڈی نے کہا کہ خودکش حملہ آور کے جسم کے اعضا فرانزنک کے لیے لیبارٹری بھیجوادیے گئے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمحبوبہ کا فون مسلسل مصروف، لڑکے نے غصے میں آ کر پورے گائوں کی بجلی کاٹ دی محبوبہ کا فون مسلسل مصروف، لڑکے نے غصے میں آ کر پورے گائوں کی بجلی کاٹ دی عمران خان ٹھیک ہیں انکی صحت سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں، علیمہ خان سپریم کورٹ بار کا تمام سیاسی جماعتوں سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر امن و امان پر توجہ دینے کا مطالبہ وزیراعظم کی جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسپتال متعارف کرانے کی ہدایت افغانستان زلزلہ؛ مریضوں کو خیبر پختونخوا میں علاج فراہم کریں گے، وزیراعلیٰ گنڈاپور سندھ کے عوام کیخلاف نازیبا الفاظ؛ صوبائی وزیر کا اینکر کیخلاف کارروائی کےلئے وفاقی وزیر کو خط TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حمزہ شفقات نے کہا انہوں نے کہا سے باہر تھا خودکش حملہ نے کہا کہ حملہ آور کے بعد

پڑھیں:

خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔

اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔

چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔

خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔

گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔

اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔

اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔

خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔

اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔

خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔

خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔

مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔

افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔

ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔

مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔

یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سموگ‘ فضائی آلودگی کی روک تھام کیلئے کریک ڈاؤن‘ 27 مقدمات‘ متعدد گرفتار
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • ہنگو : پولیس کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ، ایس ایچ او سمیت 2 اہلکار زخمی
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری
  • انڈین طیارے میں خودکش حملہ آورکی موجودگی،ہنگامی لینڈنگ
  • بھارتی طیارے میں خودکش حملہ آورکی موجودگی،ہنگامی لینڈنگ
  • سعودی عرب میں کینسر کی روک تھام سے متعلق نئی مہم کا اعلان
  • سنگجانی جلسہ کیس، زین قریشی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
  • سنگجانی جلسہ کیس: زین قریشی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری