6ستمبر ہماری خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کا روشن اور سنہری باب ہے،عاطف اکرام شیخ
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
6ستمبر ہماری خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کا روشن اور سنہری باب ہے،عاطف اکرام شیخ
قومی دفاع معاشی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، محنت اور عزم سے ہی ہم معاشی خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں ، صدر ایف پی سی سی آئی
اندرونی و بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کو فروغ اور معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا،یوم دفاع پاکستان کے موقع پر پیغام
اسلام آباد ()صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ6ستمبر ہماری خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کا روشن اور سنہری باب ہے، پاکستان ایک بہادر قوم جو اپنی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، قومی دفاع معاشی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، محنت سے ہی ہم معاشی خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں ، اندرونی و بیرونی چیلنجز کے مقابلے کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کو فروغ اور معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یومِ دفاع کے موقع پرافواجِ پاکستان اور شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، 6ستمبر ہماری خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کا روشن اور سنہری باب ہے، 65 کی جنگ میں افواجِ پاکستان کی جرات اور شجاعت آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے،پاکستان ایک بہادر قوم جو اپنی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ معرکہ حق میں ایک بار پھر مسلح افواج نے بہادری سے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا،1965 کی طرح اب بھی دشمن کو شکست ،عالمی سطح پر رسوائی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور قیامِ امن کے نئے سفر پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ آئندہ نسلوں کو خوشحال، پرامن اور ترقی یافتہ پاکستان دیں ،قومی دفاع معاشی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، محنت سے ہی ہم معاشی خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں ،اندرونی و بیرونی چیلنجز کے مقابلے کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کو فروغ اور معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا،ملک بھر کی بزنس کمیونٹی دشمن کی ہر مہم جوئی کے خلاف اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہماری خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کا روشن اور سنہری باب ہے عاطف اکرام شیخ
پڑھیں:
آپ ﷺ کے آنے سے روشن ہوگئی یہ کائنات ۔۔۔۔ !
نبی کریم ﷺ کی ولادت اس وقت ہوئی جب دنیا گم راہی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
عرب میں بت پرستی عام تھی اور ظلم کو طاقت کا قانون سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کو ذلت کا سامنا تھا اور غلامی کا نظام عروج پر تھا۔ ایسے میں انسانیت کو نجات دہندہ کی ضرورت تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اس ماحول میں اپنے محبوب نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ کی ولادت نے مردہ معاشرے میں نئی زندگی کی لہر دوڑائی۔ قرآن کریم میں فرمایا، مفہوم: ’’یقیناً اﷲ نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیا کہ ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے، ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔‘‘ (آل عمران)
زمانہ جاہلیت کا معاشرتی اور اخلاقی حال
آپ ﷺ کی آمد سے پہلے عرب معاشرتی اور اخلاقی پستی کی گہرائیوں میں تھا۔ خون ریزی کو فخر سمجھا جاتا اور معمولی بات پر جنگیں برسوں چلتی رہتیں۔ عورت کو وراثت میں حصہ نہ دیا جاتا اور زندہ درگور کرنے کی رسم عام تھی۔ غلام بدترین مظالم سہتے اور انصاف صرف طاقت وروں کے لیے تھا۔ ایسے وقت میں اﷲ نے اپنے آخری نبیؐ کو بھیجا تاکہ انسانیت کو عدل و ہدایت کی راہ دکھائیں۔ قرآن حکیم رسول کریم ﷺ کو سب سے بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے ہماری راہ نمائی فرماتا ہے، مفہوم: ’’جیسا کہ (بہ طور نعمت) ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول بھیجا جو تم پر گواہ ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔‘‘ (البقرہ)
ولادتِ مصطفی ﷺ پر خوشی کی لہر
حضور ﷺ کی ولادت ایک ایسا واقعہ تھا جس نے اہل ایمان کے دلوں کو خوشی سے بھر دیا۔ ظلم و شرک کے اندھیروں میں ایک نئی صبح کا آغاز ہُوا۔ یہ واقعہ انسانیت کے لیے سب سے بڑی خوش خبری تھا۔ قرآن حکیم نے آپؐ کو رحمت کا پیکر قرار دیا، مفہوم: ’’اور ہم نے آپ کو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء) آپ ﷺ کی ولادت دراصل دنیا کے لیے حقیقی روشنی کی آمد تھی۔
اہلِ مکہ میں خوشی و مسرت کی لہر
آپ ﷺ کی ولادت کی خبر اہل مکہ کے لیے باعثِ مسرت تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے خوشی کا اظہار کیا اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔ پورے قریش میں چرچا تھا کہ یہ بچہ عظیم مستقبل کا حامل ہے۔ لوگ آپؐ کے اوصاف اور معصوم چہرے کو دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ قرآن نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا، مفہوم: ’’یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہارا نقصان اس پر شاق گزرتا ہے، تم پر حریص ہے، ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘ (التوبہ)
حضرت آمنہؓ کی گود میں نورِ نبوت
نبی کریم ﷺ کی والدہ حضرت آمنہؓ کے لیے یہ بہت بڑا شرف تھا کہ اﷲ نے انھیں خاتم الانبیاء ﷺ کی ماں بنایا۔ آپ ﷺ کی ولادت کے بعد ان کے دل میں سکون اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بچپن ہی سے آپ ﷺ کے اخلاق اور سیرت دوسروں سے نمایاں تھے۔ یہی بچہ آگے چل کر انسانیت کا نجات دہندہ بنا۔ قرآن نے والدین کی عظمت کا ذکر کیا ہے، مفہوم: ’’ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کی ہے۔‘‘ (العنکبوت)
حضور ﷺ کی پیدائش کی تاریخی اہمیت
آپ ﷺ کی ولادت تاریخ کا وہ موڑ ہے جس نے انسانیت کے دھارے کو بدل دیا۔ اس سے پہلے دنیا ظلم اور جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آپؐ کی آمد کے ساتھ ہی توحید کی آواز بلند ہوئی۔ معاشرے میں عدل، مساوات اور رحمت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ واقعہ محض ایک ہستی کی پیدائش نہ تھی بل کہ ایک نئی تہذیب کا آغاز تھا۔ قرآن کریم نے فرمایا، مفہوم: ’’یقیناً یہ قرآن وہ ہدایت ہے جو سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)
قرآن کریم کی روشنی میں ولادتِ رحمت
قرآن کریم نے رسول اکرم ﷺ کی آمد کو اﷲ کی سب سے بڑی رحمت قرار دیا۔ آپؐ کی ولادت دراصل اﷲ کی طرف سے انسانیت پر انعام تھا۔ آپؐ نے ظلم کے اندھیروں کو مٹا کر عدل اور انصاف قائم کیا۔ قرآن حکیم میں فرمان ہے، مفہوم: ’’یقیناً تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور اور ایک واضح کتاب آ چکی ہے۔‘‘ (المائدہ) یہ نور نبی کریم ﷺ ہی کی ذات ہے جن کی بہ دولت انسان ہدایت سے بہرہ مند ہُوا۔
نبی کریم ﷺ کی آمد اور اہلِ کتاب
اہل کتاب میں آخری نبیؐ کے آنے کی خبر ان کے صحیفوں میں موجود تھی۔ یہودی اور نصاریٰ کے علماء جانتے تھے کہ نبی آخر الزماں ﷺ آنے والے ہیں۔ قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے، مفہوم: ’’وہ اس رسول کو پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔‘‘ (البقرہ) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی آمد محض عرب کے لیے نہیں بل کہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔
دنیا کے مذاہب اور آمدِ رسول کریم ﷺ
یہودی اور نصرانی اپنی کتابوں میں آخری نبی کی آمد کی نشانیاں پاتے تھے۔ وہ ایک عظیم مصلح اور نجات دہندہ کے منتظر تھے۔ نبی کریم ﷺ کی ولادت ان پیش گوئیوں کی تکمیل تھی۔ قرآن کریم میں ارشاد کا مفہوم ہے کہ اسلام وہ دین ہے جسے اﷲ نے تمہارے لیے پسند کیا ہے۔
حضور ﷺ کی آمد انسانیت کے لیے رحمت
آپ ﷺ کی آمد سے غلاموں کو آزادی ملی، عورتوں کو عزت ملی اور کم زوروں کو سہارا ملا۔ آپؐ کی تعلیمات نے امیروں اور غریبوں کے درمیان مساوات قائم کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔‘‘ (سنن ترمذی) یہ تعلیم انسانی مساوات کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔
نبی کریم ﷺ کا بچپن اور معصومیت
حضور اکرم ﷺ کا بچپن پاکیزگی اور معصومیت سے بھرپور تھا۔ آپؐ بچپن ہی سے سچائی اور امانت کے پیکر نظر آتے تھے۔ کھیل کود کے بہ جائے سنجیدگی اور وقار آپؐ کی طبیعت کا حصہ تھا۔ بچپن ہی میں لوگ آپؐ کو قابلِ اعتماد سمجھنے لگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جوانی میں بھی آپ کو ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ کہا گیا۔ قرآن نے آپؐ کے اخلاق کی تعریف کی ہے، مفہوم: "اور بے شک! آپؐ بلند اخلاق کے مالک ہیں۔‘‘ (القلم)
عبدالمطلب اور خاندانِ قریش کی خوشی
حضور ﷺ کی ولادت پر حضرت عبدالمطلب اور پورے خاندانِ قریش خوشی سے نہال تھے۔ عبدالمطلب نے آپؐ کی پیدائش پر بڑے اہتمام سے شکرانہ ادا کیا۔ خاندان میں ہر طرف مبارک باد دی جا رہی تھیں۔ قریش کے بڑے بوڑھے اس بچے کو غیر معمولی سمجھتے تھے۔ خاندان کو یقین تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں عظیم کردار ادا کرے گا۔ یہی بچہ آگے چل کر دنیائے کائنات کا سب سے معزز اور سچا راہ نما بنا۔
عرب معاشرت میں خوش خبری کا انداز
اہل عرب عام طور پر بیٹے کی پیدائش پر خوشی مناتے تھے۔ لیکن جب نبی کریم ﷺ کی ولادت ہوئی تو یہ خوشی عام خوشی سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اہل مکہ نے اس کو نیک شگون قرار دیا۔ قریش نے آپؐ کی آمد کو مستقبل کی بھلائی کی علامت سمجھا۔ یہ خوشی محض خاندان کی نہ تھی بل کہ معاشرتی سطح پر بھی محسوس کی گئی۔
نبوت کے لیے اﷲ کی خصوصی تیاری
اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بچپن ہی سے نبوت کے عظیم منصب کے لیے تیار فرمایا۔ آپ ﷺ کو یتیمی کی حالت میں پروان چڑھایا تاکہ آپؐ غریبوں اور یتیموں کے درد کو سمجھ سکیں۔ چرواہے کا کام کرنے دیا تاکہ صبر، محنت اور قیادت کی تربیت ہو۔ سفرِ تجارت کے تجربات دیے تاکہ دنیا کے حالات سے آگاہ ہوں۔ یہ سب اﷲ کی حکمت کا حصہ تھا۔ قرآن کریم فرماتا ہے، مفہوم: ’’کیا اس نے تمھیں یتیم پا کر ٹھکانا نہیں دیا اور تمھیں بھٹکتا ہُوا پایا تو ہدایت دی۔‘‘ (الضحی)
حضور ﷺ کی آمد سے معاشرتی اصلاح کی بنیاد
آپ ﷺ کی آمد نے عرب معاشرت میں اصلاح کی بنیاد رکھ دی۔ آپؐ نے جھوٹ اور دھوکے کو ختم کیا۔ انصاف اور امانت داری کو رواج دیا۔ ظلم و جبر کے بہ جائے رحمت اور نرمی کو پھیلایا۔ معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا۔ قرآن نے آپؐ کی بعثت کا مقصد یہی بتایا، مفہوم: ’’وہ ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔‘‘ (الجمعہ) اس طرح آپؐ کی ولادت اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد ثابت ہوئی۔
ظلم و جبر کے نظام کا خاتمہ
آپ ﷺ کی آمد سے پہلے عرب میں طاقت ور کم زوروں پر ظلم کرتے تھے۔ غریب اور غلام ہمیشہ دبے رہتے تھے۔ لیکن حضور ﷺ نے سب کے حقوق برابر قرار دیے۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) اس تعلیم نے ظلم کے نظام کی جڑ کاٹ دی۔ اب طاقت ور کو بھی انصاف کے آگے جھکنا پڑا۔
خواتین اور بچوں کے حقوق میں انقلاب
عورت کو زمانہ جاہلیت میں بے حیثیت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے عورت کو عزت اور وقار عطا کیا۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہے۔‘‘ (سنن ترمذی) بچوں کے ساتھ شفقت آپؐ کی سنت تھی۔ قرآن نے بچیوں کے قتل کو سخت گناہ قرار دیا، مفہوم: ’’جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گی کہ کس جرم پر قتل کی گئی۔‘‘ (التکویر) آپ ﷺ کی آمد نے عورتوں اور بچوں کے حقوق کو محفوظ کیا۔
غلاموں اور کم زوروں کے لیے رحمت
غلامی کا رواج اس دور میں عام تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’یہ تمہارے بھائی ہیں، انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) آپؐ کی تعلیمات نے غلاموں کو انسانی وقار دیا۔ کم زور طبقہ آپ ﷺ کی آمد کو اپنی سب سے بڑی نجات سمجھنے لگا۔
دینِ ابراہیمی کی تجدید اور تکمیل
آپ ﷺ کی آمد دراصل دینِ ابراہیمی کی تجدید اور تکمیل تھی۔ قریش کے بزرگ حضرت ابراہیم ؑ کے دین سے تعلق کا دعویٰ کرتے تھے مگر حقیقت میں شرک عام ہوگیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے توحیدِ خالص کو دوبارہ زندہ کیا۔ آپؐ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ قرآن میں ہماری راہ نمائی کی گئی مفہوم: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے۔‘‘ (التوبہ) آپؐ کی آمد نے دینِ ابراہیمی کو اپنی اصل صورت میں بحال کر دیا۔
ولادتِ نبوی ﷺ، تاقیامت سرچشمہ ہدایت
آپ ﷺ کی ولادت صرف اس وقت کے لوگوں کے لیے نہیں بل کہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ آپؐ کی تعلیمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ قرآن قیامت تک کے لیے مکمل ہدایت نامہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان عظیم کا مفہوم ہے: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔‘‘ (المائدہ) اس نعمت کا آغاز دراصل حضور ﷺ کی ولادت سے ہُوا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی آمد کو تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ کہا جاتا ہے۔