جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے کہا ہے کہ پاکستان کو ارلی وارننگ سسٹم کے لیے 2017 سے قرض ملنا شروع ہوا مگر حکومتوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے اسلام آباد میں منعقدہ " محفوظ مستقبل؛ آبی وسائل کا موثر انتظام اور ماحولیاتی تحفظ" کے عنوان سے سیمینار سے خطاب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستانی قوم کے سامنے مسائل کا حل بھی رکھتی ہے، حکومت کی جانب سے مسائل کا حل پیش نہ کرنے کی وجہ سے ملک مشکلات میں گھرتا جا رہا ہے، پانی کے مسئلے جماعت اسلامی کے "ری بلڈ پاکستان " منصوبے کا حصہ بنائیں گے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ منظم طریقے سے قوم کو ساتھ لے کر چلا جائے تو پاکستان بہت آگے جا سکتا ہے، ہم نے مشکل حالات میں اپنے ازلی دشمن کو شکست دی ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 2017 میں پاکستان کو ارلی وارننگ کے لیے قرض ملنا شروع ہوا مگر حکومتوں نے ارلی وارننگ کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے، ارلی وارننگ سسٹم نہ لگانے کے ذمہ داران کا تعین کیا جا نا چاہیے۔

ڈیمز بننے چاہییں!!بڑی حکومتیں ذمہ دار! بحران کا اصل سبب۔۔ حافظ نعیم کھل کر سامنے آگئے،بڑی باتیں کر دیں#HafizNaeem #Dams #WaterCrisis #BreakingNews #PakistanPolitics #Karachi #WaterIssue #PakistanUpdates pic.

twitter.com/mJsEGZc8nL

— Express News (@ExpressNewsPK) September 6, 2025

حافظ نعیم نے کہا کہ سیلاب سے قبل کے اقدامات حکومت کو کرنے ہیں، موسمیاتی وارننگ سے متعلق ہمارے پاس الات نہیں۔ سیلاب اور بارشوں کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کام نہیں کیا اگر کلاؤڈ بریسٹ کی بروقت اطلاعات دی جاتیں تو انسانی جانیں بچ سکتی تھیں۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اگر پہاڑوں پر درخت موجود ہوں تو دو ڈگری درجہ حرارت کم کر سکتے ہیں 
درجہ حرارت کم ہونے سے ہم کلاؤڈ بریسٹ سے بچا جاسکتا ہے، حکومت میں شامل لوگ درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ بونیر سمیت ملک بھر میں سیلابی صورتحال کے مجرم درخت کاٹنے والے لوگ ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی ارلی وارننگ حکومتوں نے حافظ نعیم نے کہا کہ

پڑھیں:

میئر کراچی کی گھن گرج!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-2

 

کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • گزشتہ 15 سال میں کراچی کی ترقی کے 3360 ارب روپے غبن کیے گئے، حافظ نعیم الرحمان
  • مسلم مالک غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں،حافظ نعیم الرحمن
  • اسلامی ملکوں کے حکمران وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑیں: حافظ نعیم 
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے ہی امت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے، حافظ نعیم
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر حافظ نصر اللہ چنا پاک کالونی میں جلسہ سیرت النبی صہ سے خطاب کر رہے ہیں
  • انسانیت کو جنگ و جدل سے بچانے کیلئے اللہ کی مرضی کا نظام قائم کرنا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن