Express News:
2025-09-17@23:50:38 GMT

’’مرد وعورت‘‘ جنس مخالف نہیں بلکہ جنس مختلف ہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

بے شک قرآن کریم بیک وقت مرد و عورت دونوں سے یکساں طور پر مخاطب ہے۔ شریعت میں ایمانیات (اللہ کی وحدانیت پر ایمان، رسولوں پر، الہامی کتابوں پر، فرشتوں پر ایمان، آخرت پر ایمان) کا موضوع ہو یا عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کا یا اخلاقیات (المعروف و المنکر) کا مرد و عورت دونوں ہی یکساں طور پر اس کے مخاطبین ہیں اور دونوں صنف سے یکساں مطالبہ ہے کہ ان احکامات کو پورا کریں۔ احکامات کی تعمیل اور اس سے روگردانی کی صورت میں دونوں ہی جزا و سزا کے مساوی حقدار قرار دیے جائیں گے۔

’’مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے‘‘ (سورۂ نساء: 32)۔

لیکن مردو عورت کو چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ دو الگ اصناف میں وجود میں لایا ہے لہٰذا ان کی جسمانی ہیئت سے لے کر ان کی نفسیات اور اس کے ردعمل میں ان کے عوامل تمام یکسر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔  اسی لحاظ سے دونوں اصناف کا دائرہ عمل بھی الگ الگ ہے۔ یہ کوئی اتنی معمولی بات نہیں ہے، جسمانی ہیئت کی تبدیلی اور نفسیات یعنی سوچ کا انداز احساسات و نظریات، اگر مختلف ہیں تو یہ طے ہے کہ ایک ہی واقعہ کے رونما ہونے پر دونوں اصناف کے ردعمل بھی مختلف ہوں گے۔

معاشرے میں عموماً جب بھی مرد و زن کی بات کی جاتی ہے تو ان کے لیے opposite sex یعنی جنس مخالف کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے مراد یکسر متضاد، ایک دوسرے کے مدمقابل جنس۔ لیکن اگر شریعت کو سمجھا جائے تو متضاد کے بجائے Different یعنی یکسر مختلف جنس کا لفظ استعمال گیا ہے۔ یعنی عورت کو مرد کے مخالف نہیں بلکہ مرد سے الگ اپنی ایک اہم شناخت رکھنے والی جنس کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ متضاد کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ہم ان دونوں اصناف کو ایک دوسرے کے مدمقابل لے آتے ہیں اور ایک مقابلہ اور امتحان کے دائرہ میں لاتے ہوئے تمام مثبت باتوں کو منفی سوچ میں لے جاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت کی تعلیمات تو اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام میں کہیں بھی عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ دونوں کو مختلف جنس بنا کر ایک دوسرے کو بعد از نکاح ساتھی قرار دیا گیا ہے۔

’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے‘‘ (سورۂ بقره: 228)

تاکہ دونوں اپنی اپنی ودیعت کی گئی صلاحیتوں کو اکٹھا کرکے بہترین زندگی گزاریں اور ایک مضبوط خاندان اور صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھیں۔

اس لیے ان دونوں کو مدمقابل لاکر ایک نفرت اور بدلے کی فضا قائم کرکے ان کو دی گئی صلاحیتوں کو منفیت میں بدل کر ہم بالکل ہی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہیں۔

حقوق و فرائض کی جوابدہی میں بھی دونوں ہی قابل گرفت ہیں۔

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو‘‘ (سورہ النساء۔1)

 دیکھا جائے تو صرف ایک لفظ ’’الگ‘‘ سے ’’متضاد‘‘ میں لانے سے پوری تعلیمات کا ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے وہ شریعت جو ہمیں تعلیم دے رہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور دونوں مل کر اس نظام ہستی کو چلائیں گے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھتے ہوئے کیسے اس نظام کو چلایا جاسکے گا؟

عورت مرد کی طرح ہی قابل عزت اور قابل احترام ہے۔ چونکہ اس کی تخلیق یکسر مختلف ہے لہٰذا اس کا سوچنے کا انداز، اس کا ردعمل سب مختلف ہے۔ اور یہ کوئی قابل شرم بات نہیں ہے اور نہ ہی نکتہ چینی کرنے والی۔ اس طرح تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی تخلیق پر انگلی اٹھا رہے ہیں، کیونکہ تخلیق کار تو وہی ہی ہے۔ اس نے جس حساب سے تخلیق کیا ہے مخلوق اسی کے مطابق ہی تو عمل کرے گی اور یہی اس کی تخلیق کا مقصد بھی ہے۔

لہٰذا ’’مختلف‘‘ کے بجائے ’’الگ‘‘ کا لفظ اس ذات کی تخلیق کا مقصد واضح کرتا ہے۔

شریعت کی صحیح تعلیمات کو جاننے کےلیے لازم ہے کہ اسے صحیح معنوں میں سمجھا جائے، جس مقصد کےلیے یہ تعلیمات اتری ہیں، نہ کہ اپنی من مانی تشریحات کی جائیں۔ اس طرح اپنی جہالت میں ہم اپنے مقاصد سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک دوسرے کے مختلف ہیں کی تخلیق اور اس

پڑھیں:

بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • مخالف اور دشمن عناصر پاک چین دوستی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے: صدر مملکت
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان
  • انقلاب – مشن نور
  • ایمان مزاری کی غیر حاضری، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا مسترد
  • پنجاب حکومت نے ہڑپہ میوزیم میں چار نئی گیلریوں کا افتتاح کر دیا
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی