اسمگلنگ میں سہولت کاری، قبضےاور بھتہ وصولی کے الزامات، آئی جی کا 4 ڈی ایس پیز کیخلاف انکوائری کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے 4 ڈی ایس پیز کے خلاف انکوائری کاحکم دے دیا۔ ڈی آئی جی تنویر عالم اوڈھو انکوائری افسر مقرر کردیے گئے۔
جن ڈی ایس پیز کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا ہے ان میں ڈی ایس پی سہراب گوٹھ اورنگزیب خٹک، ڈی ایس پی کلاکوٹ آصف منور، ڈی ایس پی کھارادر شبیر احمد اور ڈی ایس پی عیدگاہ ظفر اقبال شامل ہیں۔
چاروں ڈی ایس پیز پر زمینوں پر قبضے، اسمگلنگ میں سہولت کاری، پارکنگ مافیا، ٹھیلے اور چائے کےہوٹلوں سے بھتہ وصولی سمیت دیگر الزامات ہیں۔
ڈی ایس پی سہراب گوٹھ اورنگزیب خٹک پر زمینوں پرقبضے اور اسمگلنگ میں سہولت کاری کاالزام ہے جبکہ ڈی ایس پی کلاکوٹ آصف منور پر منشیات فروشوں اور پارکنگ مافیاسے بھتہ وصولی کاالزام ہے۔
ڈی ایس پی کھارادرشبیر احمد پرٹھیلے اور چائے کےہوٹلوں سےبھتہ وصولی کاالزام ہے جبکہ ڈی ایس پی عیدگاہ ظفر اقبال پر غیر قانونی پارکنگ سمیت ٹھیلوں اور چائے کے ہوٹلوں سے بھتہ وصولی کاالزام ہے۔
آئی جی سندھ نے انکوائری افسر ڈی آئی جی تنویر عالم اوڈھو کو 26 ستمبر تک انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈی ایس پیز ڈی ایس پی
پڑھیں:
افغانستان سے خیبر پختونخواہ میں منشیات کی بڑی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بے نقاب
پشاور: افغانستان سے خیبر پختونخواہ میں منشیات کی بڑی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بے نقاب ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق افغانستان سے بڑے پیمانے پر منشیات خیبر پختونخوا اور وادی تیراہ میں اسمگل کی جا رہی ہیں، جہاں ڈرگ مافیا اور دہشت گرد گروہ (خوارج) مل کر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وادی تیراہ اور خیبر کے مختلف علاقوں میں تقریباً 12 ہزار ایکڑ رقبے پر منشیات کی کاشت کی جا رہی ہے، جس سے 18 سے 25 لاکھ ڈالر تک کا غیر قانونی منافع حاصل کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق، اس منافع کا ایک بڑا حصہ خوارج کو دیا جاتا ہے، جو اسے دہشت گردی کی مالی معاونت اور غیر قانونی دھندوں کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ منشیات کی یہ کاشت سیاسی سرپرستی میں جاری ہے، اور "پولیٹیکل-ٹیرر کرائم نیکسس" کی وجہ سے وادی تیراہ میں آپریشنز کی مخالفت کی جاتی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ رواں سال خیبر ڈسٹرکٹ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 198 افراد شہید اور زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری مکمل طور پر سیاسی، جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروہوں کے گٹھ جوڑ پر عائد ہوتی ہے۔