اسرائیل حماس جنگ: امریکی عوام کا اسرائیل سے فاصلہ، فلسطینی ریاست کی حمایت بڑھنے لگی
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
جیسے جیسے غزہ کی بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر عالمی سطح پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے، ویسے ویسے امریکا میں بھی عوامی رائے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔
ایک تازہ عوامی سروے کے مطابق اب نصف سے زیادہ امریکی شہریوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ جنگ فوری بند کرے: برطانیہ، فرانس اور 23 ممالک کا مطالبہ
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) اور نارک سینٹر برائے پبلک افیئرز ریسرچ کے تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ قریباً 50 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی ردعمل بہت زیادہ ہے، جبکہ نومبر 2023 میں یہی رائے 40 فیصد افراد کی تھی۔
سیاسی وابستگی کے باوجود اسرائیل پر تنقید میں اضافہیہ اضافہ نہ صرف ڈیموکریٹس بلکہ ریپبلکنز اور آزاد خیال افراد کے حلقے میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ڈیموکریٹس میں یہ شرح 58 فیصد سے بڑھ کر 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ آزاد خیال افراد میں 40 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 50 فیصد ہو گئی ہے۔
اسی طرح ریپبلکنز کی جانب سے بھی معمولی اضافہ دیکھا گیا، اور یہ شرح 18 فیصد سے 24 فیصد تک ہوگئی ہے۔
سیزفائر پر ترجیحات میں تبدیلیدلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید بڑھی ہے، وہیں سیزفائر مذاکرات کو امریکی ترجیحات میں شامل کرنے کی حمایت میں کمی آئی ہے، اب شہریوں کی بڑی تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی طویل مدتی حل فراہم نہیں کرے گی۔
غزہ کے شہریوں کے لیے امداد پر زورقریباً 45 فیصد امریکی شہری غزہ کے شہریوں کے لیے انسانی امداد کو انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارچ میں یہ شرح 41 فیصد تھی۔
ریپبلکن ووٹر میگوئل مارٹینز کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں اسرائیل کی حماس کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتا ہوں، لیکن سب وہاں دہشت گرد نہیں ہیں۔ بے گناہ لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔
فلسطینی ریاست کے قیام پر حمایت میں اضافہسروے کے مطابق قریباً 30 فیصد امریکی شہری ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ ڈیموکریٹس میں اس رائے کی حمایت 41 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو چکی ہے۔ جبکہ ریپبلکنز میں یہ شرح محض 14 فیصد ہے۔
لیری کیپن اسٹائن، جو کہ ایک ڈیموکریٹ ہیں، نے کہاکہ میں اسرائیل کے ساتھ ہوں، لیکن میرے خیال میں نیتن یاہو بہت دور نکل چکے ہیں، کوئی بہتر راستہ ہونا چاہیے۔
اسرائیل کو عسکری امداد کی حمایت میں کمیسروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ امریکیوں کی جانب سے اسرائیل کو فوجی امداد دینے کی حمایت میں واضح کمی آئی ہے۔
جنگ کے آغاز میں 36 فیصد افراد اس امداد کو اہم سمجھتے تھے، جو اب کم ہو کر صرف 20 فیصد رہ گئی ہے۔ ڈیموکریٹس میں یہ کمی سب سے زیادہ رہی، جو 30 فیصد سے محض 15 فیصد رہ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ جنگ کی کوریج میں دوہرا معیار، ظہران ممدانی بی بی سی پر برس پڑے
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب اسرائیل نے غزہ سٹی پر اپنے زمینی آپریشنز میں شدت پیدا کی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے تحت ماہرین کے ایک گروپ نے حال ہی میں الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہے۔
امریکی عوام کی بدلتی ہوئی رائے واضح اشارہ ہے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ امریکا کے اندر بھی اسرائیل کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر جب معصوم جانوں کا نقصان اور انسانی بحران روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل حماس جنگ اسرائیل کی حمایت میں کمی امریکی شہری دو ریاستی حل وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل حماس جنگ اسرائیل کی حمایت میں کمی امریکی شہری دو ریاستی حل وی نیوز ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں اسرائیل کی فیصد سے میں یہ یہ شرح
پڑھیں:
نیویارک کی چابیاں حماس کے حامی کے حوالے، اسرائیل میں کہرام مچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یروشلم، نیویارک:۔ اسرائیل کے ڈائسپورا اور انسدادِ یہود مخالف تعصب کے وزیر امیخائی چِکلی نے نیویارک کے نومنتخب میئر زوہران ممدانی کو “حماس کا حامی” قرار دیتے ہوئے شہر کے یہودیوں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل منتقل ہونے پر غور کریں۔
چکلی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ شہر جو کبھی آزادی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب اپنی چابیاں ایک حماس کے حامی کے حوالے کر چکا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ ممدانی کے خیالات “ان جہادی انتہاپسندوں سے زیادہ مختلف نہیں” جنہوں نے 11 ستمبر 2001ءکو نیویارک اور واشنگٹن میں حملے کر کے تین ہزار افراد کو ہلاک کیا۔
34 سالہ زوہران ممدانی، جو نیویارک کے پہلے مسلم میئر بننے جا رہے ہیں، نے شہر کو زیادہ سستا اور قابلِ رہائش بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہود دشمنی اور اسلاموفوبیا ونوں کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ ممدانی عرصہ دراز سے فلسطینی کاز کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو “نسلی امتیاز پر مبنی ریاست قرار دیا اور غزہ کی جنگ کو نسل کشی سے تعبیر کیا تھا” یہی مو ¿قف ان پر یہودی برادری کے بعض حلقوں کی تنقید کا باعث بنا۔
چکلی نے مزید کہا کہ نیویارک اب پہلے جیسا شہر نہیں رہے گا، خاص طور پر وہاں کی یہودی برادری کے لیے۔ یہ شہر آنکھیں بند کیے اسی گڑھے میں گر رہا ہے جس میں لندن پہلے ہی گر چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نیویارک کے یہودیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے اسرائیل کو اپنا نیا گھر بنانے پر غور کریں۔
زوہران ممدانی کی فیصلہ کن انتخابی فتح اس وقت ممکن ہوئی جب انہیں کاروباری طبقے، قدامت پسند میڈیا تبصرہ نگاروں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا تھا۔