پاکستان اور سعودیہ کے درمیان جو لینڈ مارک دفاعی معاہدہ ہوا ہے، اس پر اندرون ملک ہی نہیں، عالمی سطح پر بحث مباحثے جاری ہیں، اس حوالے سے مختلف قسم کی آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے، آج کی دنیا میں جو صف بندیاں ہو رہی ہیں، پاک سعودیہ اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور بحرہند کے وسیع وعریض خطے کے سارے ممالک اس تاریخی معاہدے کو اپنے اپنے انداز اور مفادات کے تناظر میں دیکھیں گے اور آنے والے دنوں میں کئی نئی پیش بندیاں دیکھنے میں آ سکتی ہیں۔
گزشتہ روز پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاک سعودیہ معاہدے کے حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے کئی باتیں کی ہیں۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ راتوں رات طے نہیں پایا، اس میںکئی ماہ لگے ہیں، دیگرممالک بھی اس طرح کے معاہدے کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ تو ہمیشہ سے موجود تھا کیونکہ سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، جب آئی ایم ایف کے پروگرام کے لیے بھی ہمیں حمایت کی ضرورت پڑی تو سعودی عرب نے بھرپور ساتھ دیا۔
نائب وزیراعظم کی اس بات میں خاصا وزن ہے کہ کئی دیگر ممالک بھی ایسے معاہدے کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ معاہدہ کوئی راتوں رات طے نہیں پایا بلکہ یہاں تک پہنچنے میں خاصا ٹائم لگا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے معاہدے بیٹھے بٹھائے یا اچانک نہیں ہوتے، یقینی طور پر اس کے لیے پہلے سے کوئی نہ کوئی عمل جاری ہوتا ہے اور آخرکار اس کا نتیجہ کسی معاہدے کی صورت میں نکلتا ہے۔ دونوں ممالک کی ضروریات اور مفادات میں اتنی ہم آہنگی پیدا ہوئی کہ دونوں ملکوں کی قیادت نے اس قسم کا معاہدہ کرنا لازم سمجھا ہے۔
پاکستان کا محل وقوع بھی اہم ہے اور پاکستان کی عسکری قوت بھی تسلیم شدہ ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا جغرافیہ بھی انتہائی اہم ہے اور سعودی عرب تیل کی دولت سے بھی مالامال ملک ہے اور اقتصادی طور پر دنیا کی اہم قوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان نزدیکیاں اور ہم آہنگی کا پیدا ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ اتحاد کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہر ملک کا بنیادی حق ہے۔
اس حق کو پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت نے استعمال کیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی جمعے کو ہفتہ واربریفنگ کے دوران دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں،معاہدہ خطے میں امن، سلامتی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا،1960 کی دہائی سے دفاعی تعاون پاکستان سعودی تعلقات کا بنیادی ستون رہا ہے، دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کی خطے میں سلامتی، امن اور مضبوط دفاعی تعاون کے مشترکہ عزم کا عکاس ہے، اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر بھی کی جانے والی جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات کی تاریخ نئی نہیں ہے تاہم حالیہ معاہدہ سے دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتماد اور مشترکہ دفاع کے عزم کی وسعت واضح ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ورلڈ آرڈر میں نئی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ امریکا کے صدر ٹرمپ کی پالیسی اور ڈاکٹرائن واضح اشارہ ہے کہ آنے والے برسوں میں نئی عالمی صف بندیاں واضح طور پر طے پا جائیں گی۔
چین، روس اور بھارت بھی نئی تبدیلیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھارت کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں سردمہری سب کے سامنے ہے۔ بھارتی قیادت اس وقت خاصی مشکل صورت حال سے دوچار ہے، کیونکہ وہ تاحال امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حق میں قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جب کہ چین کی پالیسی ایسی نہیں ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے دفاعی معاہدے میں بندھ جائے۔ روس کی اپنی مشکلات ہیں اور اسے بھی طاقتور اتحادی میسر نہیں آ رہے۔ روس اور چین کے درمیان اچھے تعلقات ہیں لیکن چین روس کے لیے امریکا سے اپنے تعلقات خراب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جب کہ بھارت بھی روس کے ساتھ ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یوں دیکھا جائے تو امریکا بھی خاصی مشکل میں ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے ساتھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشرق وسطیٰ میں خاصی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام تر کوششوں کے باوجود غزہ میں جنگ بند نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی وہ اسرائیل کو دوسرے ملکوں پر جارحیت سے روک سکے ہیں۔ حال ہی میں قطر پر حملہ اس کا ثبوت ہے۔ قطر مشرق وسطیٰ کا ایک خوشحال ملک ہے اور امریکا کا اہم ترین اتحادی بھی ہے۔ اس ملک پر اسرائیل نے حملہ کر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خاصی مشکل میں ڈالا ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں قطر ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت بھی امریکا کے ساتھ اچھے ریلیشن میں ہیں۔
تنازع فلسطین کے حل میں ان ممالک کا تعاون ہونا انتہائی ضروری ہے تاہم یہ ممالک بھی امریکا کی پالیسی کے حق میں نہیں ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو نئی عالمی صف بندی میں امریکا کے پاس بھی محدود پتے ہیں جب کہ یہی حال یورپی یونین کا بھی ہے۔ یورپی یونین میں فرانس اور جرمنی ڈونلڈ ٹرمپ کی کئی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اس وقت عالمی صورت حال غیریقینی ہے اور اس صورت حال میں پاک سعودی عرب دفاعی معاہدہ ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے کے بعد ممکنہ طور پر دوسرے خلیجی ممالک بھی ایسا معاہدہ کرنا چاہیں گے، اس معاہدے میں کوئی خفیہ شرائط نہیں بلکہ ایک شفاف اور اسٹرٹیجک شراکت داری ہے، معاہدے کے فریم ورک میں مشترکہ سیکیورٹی کی ضمانت دی گئی ہے کہ جب کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت ہوگی تو دوسرے ملک کے خلاف بھی جارحیت تصور کی جائے گی۔
آج کی کشیدہ عالمی صورت حال کے پیش نظر اس طرح کے معاہدے ضروری ہیں۔الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا اس معاہدے کے بعد خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے فطری طور پر اس کا دائرہ کار دوسرے ممالک تک بھی بڑھے گا کیونکہ مشرق وسطیٰ کی خلیجی ریاستیں اپنے دفاع کے لیے صرف بیرونی طاقتوں پر انحصار نہیں کرسکتیں جو میلوں دور ہیں۔ معاہدے میں شامل ہوکر وہ ایک خود مختار ملک بنیں گی جن کے پاس اپنے دفاع کی صلاحیت اور قابلیت ہوگی۔لہٰذا اس معاہدے کو دو طرفہ تعاون سے بالاتر ہو کر توسیع دی جائے گی۔انھوں نے کہا اگر خلیج تعاون کونسل میں شامل کوئی بھی ملک ایسا کوئی اشارہ دیتا ہے کہ جیسا معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے ہم باقی ممالک کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
نئی عالمی صف بندیوں کے خاکے واضح ہو رہے ہیں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ پاک سعودی عرب معاہدے میں مزید وسعت ہو سکتی ہے اور اس میں مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یوں آیندہ چند برسوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی اور بحرہند میں ایک نیا دفاعی اتحاد ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے جس کے خاصے وسیع مقاصد اور اہداف ہو سکتے ہیں۔ یہ اتحاد اپنے اندر کئی مثبت پہلو بھی لے کر آ سکتا ہے۔ اسرائیل تنازع فلسطین پر کسی کمپرومائز پر پہنچ سکتا ہے۔
یوں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے حوالے سے ایک دوررس تبدیلی آنے کا امکان ہے جب کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو بھی اپنے طرزعمل اور پالیسی میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو دہشت گردی کو پروموٹ کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنا ہو گا ورنہ افغانستان کی حکومت بہت سی مشکلات میں گرفتار ہو سکتی ہے اور طالبان کو مسلم ممالک کی کسی قسم کی بھی ہمدردی یا مدد ملنے کا امکانات ختم ہو چکے ہیں جب کہ امریکا اور یورپ پہلے ہی اس کے حق میں نہیں ہیں۔
بھارت کو بھی بالآخر اپنے رویے اور پالیسی میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ یہ بات طے ہے کہ بھارت اب اپنی روایتی پالیسی زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ پائے گا۔ بی جے پی کے سیاسی دماغ اگر اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانے پر تیار نہیں ہوں گے تو بھارت کے مفادات کو خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ نئی عالمی صف سعودی عرب کے دونوں ممالک ملک کے خلاف معاہدے میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے امریکا کے خاصی مشکل ممالک بھی کے درمیان پاک سعودی معاہدے کے ہے کہ پاک صورت حال انھوں نے ہے اور ا کے ساتھ نہیں ہے نہیں ہو کے لیے نے کہا رہا ہے کو بھی اور اس یہ بھی
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب کا تاریخی دفاعی معاہدہ: دو برادر ملک دشمن کے خلاف شانہ بشانہ ہیں، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کو دونوں برادر ممالک کی تاریخ میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ دشمن کے خلاف متحد اور شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ردعمل میں کہا کہ رب العزت کے سائے میں، ان شاء اللہ، پوری امت مسلمہ دشمن کے مقابل ایک صف میں کھڑی ہوگی۔ پاکستان زندہ باد، مسلم امہ پائندہ باد!”
وزیراعظم کا سعودی عرب کا سرکاری دورہ
یہ تاریخی معاہدہ اس وقت منظر عام پر آیا جب وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے سعودی F-15 لڑاکا طیاروں نے فضائی سلامی پیش کی — جو دونوں ممالک کے تعلقات کی گہرائی کا مظہر تھا۔
دفاعی معاہدے کی تفصیلات
وزیراعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ اور سعودی عرب کی دفاعی سلامتی میں ایک اسٹریٹیجک پارٹنر کا کردار ادا کرے گا۔
آرمی چیف کا اہم کردار
اس اہم معاہدے کی تشکیل اور حتمی منظوری میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار کلیدی رہا، جن کی قیادت میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری روابط کو باقاعدہ اسٹریٹیجک دفاعی شراکت داری میں تبدیل کیا گیا۔
خطے میں امن اور ترقی کی نئی راہیں
یہ معاہدہ صرف دفاعی تعاون تک محدود نہیں، بلکہ اس سے خطے میں امن، استحکام اور عالمی سلامتی کو فروغ ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی، سفارتی اور عسکری تعاون کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔