’ خوشی بھی، تشویش بھی‘، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر عوامی ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
حالیہ دنوں میں کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور فرانس سمیت کئی بڑے ممالک نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب دنیا کے 150 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر مانتے ہیں۔
’ یہ اسرائیل کے لیے جھٹکا ہے‘، ادیل شادیدہیبرون کے قریب دورا کے محقق ادیل شادید کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا فیصلہ ایک تاریخی اصلاح ہے کیونکہ برطانیہ نے ہی ایک صدی قبل بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے مطابق یہ فیصلے اسرائیل کی سیاسی اور اخلاقی تنہائی میں اضافہ کرتے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ جب تک زمین اور عملی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، صرف کاغذ پر ریاست کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہوگا۔
’امریکا کا قدم سب سے اہم ہوگا‘، راعد السعیدہیبرون کی مرکزی مارکیٹ میں کافی بیچنے والے راعد السعید کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی کوششوں سے یہ پیشرفت ممکن ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب امریکا فلسطین کو ریاست تسلیم کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ عوام میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے: کچھ لوگ پرامید ہیں جبکہ کچھ کو خدشہ ہے کہ اسرائیل انتقامی کارروائیوں میں شدت لا سکتا ہے۔
’فائدے بھی ہیں، خطرات بھی‘، مرام نصربین الاقوامی قانون کی ماہر مرام نصر نے کہا کہ یہ فیصلے فلسطین کی سیاسی و سفارتی حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں، نئی ایمبیسیوں کے قیام اور عالمی سطح پر حمایت بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ معاشی میدان میں بھی فائدہ دے سکتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فلسطینی عوام کی براہِ راست مدد کے راستے کھل سکتے ہیں۔
تاہم وہ خدشہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل ان فیصلوں کے ردعمل میں مزید زمینیں ہتھیانے اور فلسطینی ریاست کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں تیز کر سکتا ہے۔
فلسطینی عوام ان فیصلوں کو ایک بڑی کامیابی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل اس کے جواب میں مزید سخت اقدامات کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطینی ریاست کا قیام ایک حق ہے، انعام نہیں، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی میں خطاب
ایک طرف یہ پیشرفت فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک روشن باب ہو سکتی ہے، مگر دوسری طرف اس کے نتائج مزید مشکلات بھی لا سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطین فلسطینی ریاست.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطین فلسطینی ریاست فلسطینی ریاست کہ اسرائیل ریاست کو
پڑھیں:
محبوبہ مفتی کا کشمیری نظربندوں کی حالت زار پر اظہار تشویش
ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2019ء کے بعد سے اب تک 3500 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر بھارت کی دور دراز جیلوں میں قید ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر کشمیری سیاسی نظربندوں کی حالت زار پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2019ء کے بعد سے اب تک 3500 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر بھارت کی دور دراز جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں نے قابض حکام پر کشمیری نظربندوں کی مقبوضہ کشمیر منتقلی پر زور دیا تاکہ ان کے اہلخانہ ان سے آسانی سے ملاقات اور عدالتوں میں ان کے خلاف دائر جھوٹے مقدمات میں پیروی کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہم کشمیری نظربندوں کی رہائی کا نہیں بلکہ انہیں بھارتی جیلوں سے مقبوضہ کشمیر منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ اہلخانہ کو ان سے ملاقات کیلئے طویل فاصلہ طے اور اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے کشمیری نظربندوں کے اہلخانہ نے ان کے خلاف درج مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل لٹا دیے ہیں، کچھ کے گھر اور زمینیں اور زیورات تک بک گئے ہیں لیکن ان کے پیارے جیلوں سے رہا نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے کشمیری اپنے پیاروں سے بھارت کی دور دراز جیلوں میں ملاقات کیلئے جانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ محبوبہ مفتی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ذاتی طور پر بھارتی حکام بشمول وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر کشمیری نظربندوں کے بارے میں تفصیلات طلب کی تھیں لیکن انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی جیلوں میں طویل نظربندی کی وجہ سے کشمیری قیدی مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ رواں ہفتے محبوبہ مفتی نے بھارتی جیلوں سے تمام کشمیری نظربندوں کی مقبوضہ کشمیر منتقلی کیلئے ایک درخواست دائر کی ہے۔