لگتا ہے خالقِ کائنات کی اِس پر خاص نظر کرم ہے کہ جس کے باعث آج دنیا کی نظروں میں مقدّر کا سکندر بن چکا ہے ۔ اسلامی جمہوریہء پاکستان بھی اور اس کا سپہ سالار بھی۔صرف چند ماہ پہلے تک مایوسی کے پیغامبر ملک کے مستقبل ہی نہیں بقاء کے بارے میں بھی سوال اُٹھارہے تھے۔
صورتحال بلاشبہ بہت مایوس کن تھی، مگر دنیاؤں اور کائناتوں کے خالق کو اپنے نام پر بننے والے ملک کی ذلّت اور بے توقیری گوارہ نہ تھی اور پھر اُس نے اس بستی کو جس کا نام پاکستان ہے، ذلّت کی گہرائیوں سے اُٹھا کر عزّت کی رفعتوں تک پہنچادیا۔
کوئی ناممکن یا مشکل ترین کام کرنے کا اُس کا اپنا طریقہء کار ہے، جس کو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ بعض اوقات صرف کُن کہہ دیتا ہے اور بعض اوقات ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جو ہمارے اور آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے ناخوشگوار اور نامساعد معلوم ہوتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد انھیں میں سے خیر کے پہلو پھوٹتے ہیں اور برکات نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
بھارت کے عوام ہندو توا کی انتہاپسندانہ اور متشدّدانہ پالیسیوں سے بیزا ر تھے جب کہ وہاںصوبۂ بہار کے انتخابات قریب تھے، لہٰذا مودی کو پلوامہ کی طرح کا کوئی انتخابی اسٹنٹ درکار تھا جسے استعمال کرکے وہ الیکشن جیت جائے۔ لہٰذا سر جوڑے گئے، منصوبے بنائے گئے، سازش تیار ہوگئی اور پھر ایک روز اعلان کردیا گیا کہ کشمیر کے سیّاحتی علاقے پہلگام میں دہشت گری کا واقعہ ہوا ہے، جس میں بیس سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔
فائرنگ کے اس افسوسناک واقعے کے چند منٹ کے اندر قریبی پولیس اسٹیشن میں پہلے سے موجود ایک سرکاری اہلکار نے تحریری درخواست دی، جس میں پہلگام واقعے کی ذمّے داری پاکستان پر ڈال دی گئی، پولیس اسٹیشن کے انچارج نے دی گئی ہدایات اور تحریر کے عین مطابق ایف آئی آر کاٹ دی اور ساتھ ہی اسکرپٹ کے مطابق ہندو توا کے پیروکار میڈیا نے ڈھول بجانا شروع کردیاکہ اس میں پاکستان ملوّث ہے مگر کسی ثبوت یا شہادت کے بغیر اس ڈرامے کو کون مانتا۔ کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا، کسی کی تصویر نہیں دکھائی گئی، کسی کی گفتگو intercept کرکے نہیں سنائی گئی، کسی ملزم کی شناخت تک نہیں ہوئی اور کوئی ملزم آج تک پکڑا ہی نہیں گیا، مگر مودی اور اس کی حکومت اور میڈیا نے اپنی رَٹ جاری رکھّی کہ ’’یہ پاکستان نے کرایا ہے اور اب پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔‘‘
اب چونکہ دنیا کے بڑے ملکوں کے پاس حقائق جاننے کے اپنے ذرایع بھی ہیں، وہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سٹلائٹس کی مدد سے حقائق معلوم کرچکے تھے، لہٰذا کسی ملک نے بھی مودی کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر مودی کو اس سے غرض نہیں تھی، اس کے پیشِ نظر تو بہار کے انتخابات تھے، جن کے لیے اُس نے اپنے لیے ’’چھپّن انچ چھاتی والا بہادر وزیرِاعظم‘‘ کا امیج تراشنا تھا، جو پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام کرکے ہی قائم کرسکتا تھا۔ اُسے پاکستان کی کمزور معیشت اور سیاسی عدمِ استحکام سے بھی شہ ملی، لہٰذا اس نے 5/6 مئی کو ہماری جغرافیائی حدود کو پامال کیا اور ہماری حدود کے اندر آکر بہت سی جگہوں پر میزائلوں سے حملہ کیا، جس سے ہمارے شہریوں کا جانی اور مالی نقصان بھی ہوا، مگر ہم نے بھی بھارت کے پانچ طیّارے مارگرائے۔
اس موقع پر کئی بہت سے اہم لوگ چاہتے تھے کہ پاکستان ، بھارت کوجواب نہ دے، بات آگے نہ بڑھے اور وہیں ختم ہوجائے۔ مگر وہی تو تاریخی لمحہ تھا فیصلہ کرنے کا، اس طرح کے مواقع مختلف قوموں کے راہنماؤں اور افواج کے کمانڈروں کو ملتے ہیں ، جو بھی اُس وقت درست فیصلہ کرجائے یعنی اس لمحے کو مُٹھّی میں قابو (seize the moment) کرلے وہ مقدّر کا سکندر قرار پاتا ہے اور وقت کی اسکرین پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔
’جنگ کہیں بڑھ نہ جائے، اسک ے شعلے پورے خطّے میں پھیل جائیں گے، ہماری کمزور معیشت جنگ کا وزن بالکل برداشت نہیں کرسکے گی‘ جیسی آوازوں کو نظر اندار کرتے ہوئے جنرل سیّد عاصم منیر نے وہی فیصلہ کیا جو ایک ایٹمی ملک کے سپہ سالار کو کرنا چاہیے تھا کہ’’ہم حملہ آور بھارت کو جواب دیں گے اور ایسا جواب دیں گے جو وہ ہمیشہ یاد رکھّے گا‘‘ اور پھر ایسا جواب دیا گیا کہ چند گھنٹوں میں ہی حریف چاروں شانے چِت ہوگیا، بھارت کو بے بس کردیاگیا، چھ گنا بڑے دشمن چاروں شانے چت ہوگیا اور وہ بچاؤ بچاؤ کی صدائیں لگاتا ہوا، امریکی صدر ٹرمپ کے پاؤں جا پڑا۔
پاکستان، بھارت کو مکمّل طور پر جَیم کرچکا تھا، وہ اس وقت بھارت کو ناقابلِ تلافی تقصان پہنچا سکتا تھا مگر امریکا نے بیچ میں پڑکر جنگ بند کرادی۔ جنگ بند توہوگئی مگر چند گھنٹوں میں ہی اس کے ایسے اثرات مرتّب ہوگئے جو کئی دھائیوں پر محیط ہوں گے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑے عرصے کے بعد مسرّت و افتخار سے سرشار ہونے کا موقع ملا اور اسرائیلی جارحیّت کا نشانہ بننے والے عرب ملکوں کو پاکستان کی صورت میں ایک قابلِ اعتبار محافظ نظر آنے لگا۔ چار روزہ جنگ کی کوکھ سے برکات مسلسل نمودار ہورہی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔
سعودی عرب کا بھی ، قطر کا بھی اور کئی دوسرے عرب ملکوں کا امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدہ تھا جس کے مطابق حملے کی صورت میں امریکا اس ملک کا دفاع کرنے کا پابند تھا، مگر حالیہ سالوں اور مہینوں میں اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کے سات ممالک پر حملہ کیا اور انھیں نقصان پہنچایا مگر معاہدے کے باوجود امریکا ٹس سے مس نہ ہوا اور کسی ملک کا دفاع نہ کیا اور نہ ہی اسرائیل کو حملہ کرنے سے روکا۔ ان حالات و واقعات نے عرب حکمرانوں کی آنکھیں کھول دیں اور وہ سمجھ گئے کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں امریکا ان کی مدد نہیں کرے گا، اس لیے ہمیں اپنے ملک کی سالمیّت کے لیے کوئی اور دوست اور محافظ ڈھونڈنا ہوگا، جو ہماری حفاظت کی صلاحیّت بھی رکھتا ہواور قابلِ اعتبار بھی ہو۔
سعودی عرب کو، جہاں ہمارے مکّہ مدینہ ہیںجو ہماری عقیدتوں اور محبّتوں کے مرکز ہیں، جن پر قربان ہونا ہماری سب سے بڑی آرزو ہے، یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا ہوگا، کیونکہ سعودی حکمران مکّہ مدینہ کے ساتھ پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی سے بخوبی واقت ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مکّہ ، مدینہ والے ملک کی حفاظت اگر کوئی سعودی عرب سے بھی زیادہ خلوص، محبّت اور جذبے سے کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہے، پاکستان کی فوج ہے اور پاکستان کے عوام ہیں۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد راقم نے لکھّا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور سپہ سالار کو یہ اعلان کردینا چاہیے کہ ’ مکّہ اور مدینہ کا دفاع ہم کریں گے اور اس کے لیے پاکستان کے کمانڈوز اور پاکستان کی ائرفورس سعودی فورسز سے آگے ہو گی اور اس کے لیے کسی معاہدے کی بھی ضرورت نہیں ‘ معاہدہ ہوگیا ہے تو اچھی بات ہے، اس کے ثمرات دونوں ملکوں کو حاصل ہوں گے۔
پاکستان پچھلی ربع صدی سے ایک declared ایٹمی قوّت ہے۔ کچھ عرصے سے اسے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے مگر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ جب مئی میں اُس پر جنگ تھونپی گئی تو پاکستان نے اپنی تماتر معاشی کمزوریوں اور سیاسی مسائل کے باوجود یہ ثابت کردیا کہ وہ مالی طور پر کمزور سہی مگر ڈانگ سوٹے کا بہت تگڑا ہے اور جو بھی اس سے جنگ چھیڑے گا، شکست اس کا مقدّر ہو گی۔ عرب ملکوں کو پاکستان کی عسکری صلاحیّت کے بارے میں اگر کچھ تخفّظات تھے تو وہ بھی مئی کی جنگ میں دور ہوچکے ہیں۔ یہ سب اللہ کے فضل و کرم سے ہوا ہے۔کل تک غیر بھی اور اپنے بھی جس ملک کے مستقبل سے مایوس تھے، آج دنیا کے امیر ترین ملک اُس سے تخفّظ مانگ رہے ہیں۔
بیسیوں مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے کسی اور ملک کے باشندے کسی غیر ملک میں جا کر نہ اپنے ملک کی سیاست کرتے ہیں نہ ہی ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور جُوتم پیزار ہوکر دنیا کو تماشا دکھاتے یہ صرف پاکستانی ہیں جو اپنے گندے کپڑے لندن اور نیویارک کی سڑکوں پر دھوتے ہیں اور انھیں شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ انھوں نے لندن میں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر جو تماشا لگایا وہ پوری پاکستانی قوم کے لیے باعثِ شرم تھا۔
یہ صرف اللہ کی خاص رحمت سے ہوا ہے کہ آج مقدّر کا سکندر بن چکا ہے ۔پاکستان بھی، اس کا وزیرِاعظم بھی اور اس کا سپہ سالار بھی۔ اس وقت دل ے بے اختیار نکل رہا ہے ۔
تو نشانِ عزمِ عالیشان۔۔
ارضِ پاکستان
پرچم ِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقّی و کمال
سایۂ خدائے ذوالجلال
میرا ایمان ہے کہ وطنِ عزیز پر خدائے ذولجلال کا سایہ ہے اور یہ قیامت تک رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقد ر کا سکندر پاکستان کے پاکستان کی سپہ سالار بھارت کو ہیں اور بھی اور اور اس ہے اور ملک کے ملک کی کے لیے
پڑھیں:
ملت بیضا کی شیرازہ بندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-03-6
سید اقبال ہاشمی
قطر پر بلاجواز اور اشتعال انگیز اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامی او آئی سی اجلاس کی رسمی قرار داد سے مسلم امہ کو شدید مایوسی ہوئی تھی۔ عام مسلمان تو یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ قطر میں ہونے والے اجلاس کے بعد ناٹو طرز کا اتحاد وجود میں آئے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا حالانکہ پاکستان نے اس اجلاس میں دلیرانہ موقف اختیار کیا تھا اور مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی تجویز بھی پیش کی تھی۔
مسلمانوں کی چنگیز خان کے ہاتھوں ہونے والی ذلت آمیز شکست سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہزیمت کی ایک تاریخ ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ دشمن بدل جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی قسمت میں لکھی ہوئی الف لیلوی رسوائی نہیں بدلتی ہے۔ ایسے میں حالیہ دنوں میں پاکستان نے جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کو جو کرارا جواب دیا ہے اس نے دوست دشمن سب کو نہ صرف یکساں طور پر ششدر کردیا ہے بلکہ پاکستان کا معترف بھی کر دیا ہے اور ہندوستان تو ابھی تک سکتے کے عالم میں انگشت بدنداں بیٹھا ہے کہ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ دنیا فاتح کے ساتھ چلتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جہاں ہندوستان تنہائی کا شکار ہو گیا ہے وہیں پاکستان جسے ماضی قریب میں کوئی ملک منہ لگانا پسند نہیں کرتا تھا اس کی ساری دنیا میں آو بھگت شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل ایک طرف کبھی چائنا تو کبھی روس کے سربراہان مملکت سے مل رہے ہیں تو دوسری جانب عرب ممالک سرخ قالین بچھا کر توپوں کی سلامی اور ہوائی جہازوں کا حصار بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہیں۔
بے خودی بے سبب نہیں ہے غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
یہ سب ملاقاتیں اس بات کے غماز تھے کہ مسلمانوں کے حق میں کچھ نہ کچھ بہتر ہونے والا ہے۔ اور پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اچانک فوجی دفاعی تعاون کے معاہدے کا اعلان کر دیا اور وہ بھی اس طمطراق کے ساتھ کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا یعنی کہ بمصداق یک جان دو قالب۔ یہ معاہدہ تو مسلمانوں کے درمیان دین نے پہلے ہی طے کر دیا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو جسم میں کہیں تکلیف ہو تو دوسرا بھی اسے اسی طرح محسوس کرے۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے عوام میں بالخصوص اور مسلم امہ میں بالعموم خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندوستان میں البتہ صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کو درخور اعتناء سمجھتا ہی نہیں ہے اس لیے اسے ایسے کسی اتحاد کی کوئی پروا ہے بھی نہیں جسے وہ بلی کے خلاف چوہوں کی کانفرنس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی وقت آگیا ہے کہ نہ صرف ابراہیمی معاہدہ جو کہ روح شریعت کے خلاف ہے مغرب کے منہ پر مار دے بلکہ اسرائیل کا حقہ پانی بند والا بائیکاٹ کرے۔ 1928 تک خلافت رہی اور آخری دنوں تک خلیفہ کی ایک دھمکی سے یورپ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔
دنیا تو ملٹی پولر ہوتی جا رہی ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ وہ خود ہزار سال سے بائی پولر مسلم ورلڈ میں جی رہے ہیں۔ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد پاکستان نے ایران سے بھی پرخلوص مسلم بھائی چارے کا اظہار کیا تھا لیکن مشترکہ ملٹری معاہدہ پر بات چیت نشستند و گفتند و برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ظاہر ہے کہ ایران کو پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ نہ اچھا لگا ہے اور نہ وہ اس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ ایران کی سعودی عرب کے ساتھ پراکسی وار کے پیچھے ایک ہزار سال کی تاریخ ہے اور یہ خلیج فارس اتنی وسیع ہے کہ بحیرہ عرب اس میں نہیں سما سکتا ہے۔ حالانکہ مسلم امہ کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ تمام اسلامی ممالک مل کر دشمن کے خلاف صف آراء ہوں۔ ایران کا اتحاد میں شامل ہونا امت اور خود ایران کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ایران کی امریکی پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کا اس سے بہتر مداوا ممکن نہیں ہے۔ ایران نے ائسولیشن میں جو ٹیکنالوجی خود انحصاری کی بنیاد پر حاصل کی ہے وہ ہم سب کا قیمتی سرمایہ ہے جس کا فیض سب مسلمانوں تک پہنچنا چاہیے۔
مسلمانوں کو دشمنوں کی بہ نسبت آپس کے اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ منافقین و غداران وطن جو بک جاتے ہیں وہ بین المسلمین اتحاد کی چادر میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ خطرات ہیں جو ایک چیلنج کی صورت میں ہمیں درپیش تھا اور آج بھی ہمارے سامنے ایک مہیب اندھیرے کی صورت میں کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کو اس جانب بھرپور توجہ رکھنی چاہیے۔ اس معاہدے کی کامیابی کی صورت میں اس کا دائرہ کار خود بڑھتا چلا جائے گا۔
پاکستان کا یہ اتحاد مبارک بھی ہے کہ پاکستان کو حرمین شریفین کی حفاظت کی سعادت نصیب ہوگئی ہے لیکن ہمارے رہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بہت زیادہ بیرونی فوکس ہمیں معاشی، صنعتی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے اندرونی طور پر کمزور کر دیتی ہے جس کا ہم ماضی میں تجربہ کر کے ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جس توازن کی اس وقت ملکی مفاد میں ضرورت ہے اسے بھلانا یا پس پشت ڈالنا بھاری نقصان کا سبب ہوگا۔
مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی یہ کوئی پہلی کاوش نہیں ہے لیکن یہ اتحاد کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان سے جنگ کے بعد پاکستان فوجی طور پر ایک مضبوط اسلامی ملک کے طور پر ابھرا ہے جس کی پشت پر پاک چائنا دوستی اور ان کی کثیر الجہتی اتحاد کی سنہری تاریخ ہے۔ یونی پولر ورلڈ میں چائنا ایک معاشی لحاظ سے طاقتور ملک بن کر سامنے آیا ہے جس کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چائنا کا واضع موقف نظر آتا ہے کہ وہ جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتا ہے لیکن ہم خیال ممالک کو معاشی ترقی میں بھرپور تعاون فراہم کرنے کا خواہاں بھی ہے اور ایسا وہ عملی طور پر کر بھی رہا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں چائنا پاکستان کے تعاون سے سر انجام دینا چاہتا ہے جس میں سب سے اہم جنگی سازو سامان کی فروخت ہے۔
اب یہ بات مسلم ممالک پر واضح ہوچکی ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی پر انحصار قابل بھروسا حکمت عملی نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت اور موبائل کمیونیکیشن میں ہونے والی ترقیوں کی وجہ سے اب یہ ممکن ہے کہ کسی بھی مشینری کو کبھی بھی ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان نے مغربی سامان حرب پر انحصار کم کرکے چائنا کے تعاون سے لوکل اور جوائنٹ پروڈکشن پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اسرائیل کی بے رحمانہ جارحیت کے بعد اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اب یہ بھی ان پر واضح ہوگیا ہے کہ مغرب کے مہنگے حربی ساز و سامان پر انحصار حقیقت میں دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اس صورتحال میں چائنا اس یونی پولر ورلڈ کو بائی پولر بنا کر توازن پیدا کر سکتا ہے اور اس کی کم قیمت ٹیکنالوجی قابل بھروسا بھی ہے۔
یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاہدے کے پشت پر چائنا اور روس کھڑے ہیں۔ مغرب کی جانب سے معاہدے پر محتاط تبصرے اس بات کی عکاس ہیں۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ امریکا نے بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر اس معاہدے کو قبول کر لیا ہو۔ چائنا ایک طرف تو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مغرب کا ہم پلّہ ہو چکا ہے تو دوسری طرف اس کے سامان حرب کی قیمت ان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ چائنا بھی امریکا کا ڈسا ہوا ہے اور اس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ چائنا کی پشت پر روس اور جنوبی کوریا کی قوتیں بھی ہیں اور اس تثلیث سے مغرب مفاہمت تو کر سکتا ہے لیکن مسابقت نہیں۔ یہ نکتہ لیکن اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلمان جب تک سائنس تحقیقات اور جوائنٹ ملٹری پروڈکشن پر توجہ نہیں دیں گے ان کا چائنا پر انحصار آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ چائنا کا مہیا کیا ہوا سامان حرب کل اسی طرح اسکریپ نہ کرنا پڑ جائے جیسے عرب ممالک مغرب سے درآمد شدہ دفاعی ساز و سامان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ قوموں کی عزت کا دار و مدا انحصار پر نہیں بلکہ خود انحصاری پر ہے۔
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول