غزہ میں خونریزی بند کریں، ورنہ نوبیل بھول جائیں: فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کو دو ٹوک پیغام
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
نیویارک: فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف اسی صورت میں نوبیل امن انعام حاصل کرسکتے ہیں جب وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرائیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ سب سمجھتے ہیں کہ مجھے نوبیل انعام ملنا چاہیے۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے میکرون نے فرانسیسی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ "نوبیل انعام صرف تب ممکن ہے جب آپ اس تنازع کو ختم کریں۔ اس کے لیے امریکا کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ غزہ میں جنگ بند ہو سکے۔"
میکرون نے واضح کیا کہ اگر اسرائیل نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر فرانس پر پابندیاں لگائیں تو فرانس اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج اگر شہریوں کا قتل جاری رکھتی ہے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
فرانسیسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے، اور اگر اس کا مقصد صرف ہمسایہ ملک کو تباہ کرنا ہے تو یہ اس کے اپنے عوام کو بھی مسلسل جنگ میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فرانسیسی صدر اپنی اہلیہ کو خاتون ثابت کرنے کے شواہد عدالت میں پیش کرینگے
میکرون فیملی کے وکیل نے بتایا ہے کہ عدالت میں تصویری شواہد، سائنسی رپورٹس اور ماہرین کی گواہیاں جمع کرائی جائیں گی، تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔ اسلام ٹائمز۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اپنی اہلیہ بریجیت میکرون کے حوالے سے پھیلائی جانے والی متنازع اور شرمناک افواہوں پر قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فرانسیسی صدر امریکی عدالت میں یہ ثابت کرنے کے لیے شواہد پیش کریں گے کہ ان کی اہلیہ خاتون ہیں، نہ کہ مرد، جیسا کہ بعض حلقوں کی جانب سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ میکرون فیملی کے وکیل نے بتایا ہے کہ عدالت میں تصویری شواہد، سائنسی رپورٹس اور ماہرین کی گواہیاں جمع کرائی جائیں گی، تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔
دوسری جانب امریکی تجزیہ کار کینڈیس اوونز، جنہوں نے فرانسیسی خاتون اول کو مرد قرار دیا تھا، اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ اوونز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے پر پورے کیریئر کی ساکھ بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ ان کے وکلا نے عدالت سے میکرون فیملی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ یہ مقدمہ بین الاقوامی میڈیا میں غیر معمولی توجہ حاصل کر رہا ہے اور سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ آیا عدالت اس معاملے کو کس طرح نمٹاتی ہے۔