ججز ایک دوسرے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے‘عدالت عظمیٰ
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت)عدالت عظمیٰ نے سابق ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کمیٹی ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دے دی ہے اور اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ججز ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کارروائی نہیں کرسکتے، ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کے تحت کوئی بھی جج اپنے ہم منصب جج کے خلاف آرٹیکل 204 کے تحت کارروائی نہیں کر سکتا اور ایسے معاملات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے۔عدالت نے کہا کہ ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور اگر ان کے خلاف بدانتظامی یا مس کنڈکٹ کا الزام ہو تو اس کی انکوائری اور کارروائی صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے۔فیصلے کے مطابق کسی ریگولر بینچ کو ایسا اختیار حاصل نہیں، ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری 2025ء کے احکامات اب مؤثر نہیں رہے کیونکہ پارلیمنٹ کی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایسے مقدمات خود بخود آئینی بینچز کو منتقل ہو گئے تھے اور ریگولر بینچ ان کی سماعت کا اختیار کھو بیٹھا تھا۔واضح رہے کہ معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب کسٹمز ایکٹ 1969 کی شق 221-A(2) کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریگولر بینچ نے مقدمات کو جزوی زیر سماعت قرار دے کر دوبارہ اپنے سامنے لگانے کی ہدایت کی تاہم فائلوں کی فکسنگ نہ ہونے پر ریگولر بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کیا اور توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔نذر عباس نے اس نوٹس کے خلاف اپیل دائر کی جسے عدالت عظمیٰ نے سنتے ہوئے قرار دیا کہ ججز کے مابین اس طرح کی کارروائی انصاف کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ریگولر بینچ نے آئینی شقوں کے برعکس کارروائی جاری رکھی اور کمیٹی ممبران کے خلاف توہینِ عدالت کا عمل شروع کیا جو غیر پائیدار اور غیر مؤثر تھا۔عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایسے اقدامات سے عدلیہ کے ادارتی وقار کو نقصان پہنچتا ہے اور ججز کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے، اس لیے عدالتی فیصلے کے مطابق کمیٹی ممبران کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی غیر مؤثر اور کالعدم قرار پائی اور اس حوالے سے جاری ہونے والے تمام احکامات ختم ہوگئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدالت کی کارروائی کے خلاف توہین ریگولر بینچ عدالت عظمی
پڑھیں:
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعلیٰ کے پی کیخلاف انضباطی کارروائی سے روک دیا
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف کسی قسم کی انضباطی کارروائی سے روک دیا۔
وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی الیکشن کمیشن نوٹس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس محمد فہیم ولی نے سماعت کی۔
وکیل درخواست گزار بشیر خان وزیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے علی امین گنڈاپور کو 2 ستمبر میں یہ نوٹس جاری کیا، الیکشن کمیشن نے الیکشن اخراجات سے متعلق نوٹس کیا ہے لیکن الیکشن کمیشن انتخابات کے بعد 90 دن کے اندر یہ نوٹس دے سکتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 90 دن کے بعد الیکشن کمیشن کسی ممبر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا، البتہ الیکشن ٹریبونل بن جائے تو پھر وہاں جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیے ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی نے الیکشن کمیشن وکیل سے استفسار کیا کہ 90 دن کے بعد الیکشن کمیشن کیسے ان کے خلاف انکوائری کر سکتا ہے؟ ڈپٹی ڈائریکٹر لاء الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے کہ کرپٹ پریکٹسز پر کارروائی کرسکتے ہیں، اس میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن میں جواب طلب کرلیا۔