اسداللہ بھٹوکی زیرقیادت ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی افغان قونصل جنرل سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر )افغان قونصل جنرل سید عبدالجبار تخاری نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ہم نے بارہا کہا ہے کہ جنگ وجدل کے بجائے سیاسی رہنما اورعلما کرام مل بیٹھ کر اس کاحل نکالیں۔ٹرمپ سمجھتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح وہ طالبان کو بھی ڈرائے دھمکائے گا،ان کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ وگولہ بارود اور ہمارے پاس صرف اسلام و ایمان کی دولت ہے۔ اگر ان کی اتنی جرأت ہوتی تو نیٹو کے لائولشکرکے ساتھ اپنا سامان چھوڑ کر نہ بھاگتے۔امریکا ایک سازش کے تحت اپنا اسلحہ و گولہ بارود چھوڑ کر گیاتا کہ یہ لوگ آپس میں لڑیں مگر امیر المومنین کے عام معافی کے اعلان کے بعد سب نے اسلحہ جمع کرادیا اوران کی یہ سازش بھی ناکام ہوگئی۔امریکا 20سال یہاں رہا مگرفلاح وبہبود کا کچھ کام نہیں کیابلکہ ا س کا لیا گیاقرض ہم اتار رہے ہیں۔ آج افغانستان میں امن اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔بجلی ،نہر، روڈراستوں ریلوے سمیت دیگر ترقیاتی کام جاری ہیں ان کے ثمرات آئندہ چندسال میں مزیدنمایاں ہوں گے۔یہ بات انہوں نے افغان قونصلیٹ کراچی میں ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدراسداللہ بھٹو کی زیرقیادت ملاقات کرنے والے وفد سے بات چیت کے دوران کہی۔ وفدمیںکونسل کے دیگرعہدیداران علامہ قاضی احمدنورانی، مسلم پرویز،محمد حسین محنتی،علامہ عقیل انجم قادری،مولانا عبدالقدوس احمدانی اوررمجاہدچنا شامل تھے۔رہنمائوں نے حالیہ زلزلے میں قیمتی انسانی جانوں واملاک کے نقصان پراظہارافسوس اورمرحومین کی درجات بلندی کے لیے دعائے مغفرت بھی کی۔ملی یکجہتی کونسل کے وفدنے سرحدپاردہشت گردی کے الزامات پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے دونوں ممالک کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ بات چیت کیذریعے اپنے معاملات حل کریں۔پاک،افغان بہترتعلقات سے نہ صرف دونوں ملک خطے میں مزید طاقتوربلکہ ایک دوسرے کا دفاع کرنے والے بھی بن سکتے ہیں۔ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر و سابق ایم این اے سد اللہ بھٹو نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی ترقی اورامن ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے امریکی صدرٹرمپ کابگرام ائر بیس امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ اورایسا نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی قابل مذمت اور اس کے مذموم عزائم کا ایک اظہار ہے۔بگرام ائر بیس امریکا کو دینے سے انکار کرنے کے افغان حکومت کا جرائتمندانہ فیصلہ قابل قدرہے اس فیصلے سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں افغان حکومت کی نیک نامی ہورہی ہے ۔ثابت ہوا کہ مزاحمت میں ہی زندگی اورغلامی موت ہے۔افغان قونصل جنرل کا مزید کہنا تھا کہ امت مسلمہ کے پاس سب کچھ ہے مگرہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس قیادت کی کمی ہے۔ قرآن وسنت کو اپنا دستور عمل بنایا جائے تو کامیابی ان کے قدم چومی گے۔امارات اسلامی افغانستان نے خواتین کو جتنا حق دیا وہ دنیا میں کسی نے بھی نہیں دیا ۔ ہم عورت کو اشتہارات کی زینت نہیں بناتے کوئی بھی غیرتمند باپ بھائی شوہر یہ نہیں چاہے گا۔ پرائیویٹ و مدارس میں تعلیم کاسلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں حالیہ زلزلے کے نتیجے میںڈھائی ہزارلوگ شہید،ساڑھے4ہزارزخمی اورلاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔پاکستان سمیت امدادکرنے والے ممالک اوراداروںکے مشکور ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملی یکجہتی کونسل
پڑھیں:
پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق 6 نومبر سے شروع ہونے والے پاک افغان استنبول مذاکرات اُس وقت اختتام پذیر ہو گئے جب مذاکرات کے دوران افغان وفد کو کابل کی جانب سے نئی شرائط پر مشتمعل مذاکرات کا نیا ڈرافٹ موصول ہوا۔ جس پر پاکستانی مذاکرات کار اور دونوں ثالثی کرنے والے ممالک ششدر رہ گئے اور مذاکرات ناکامی سے دو چار ہوئے۔
Pakistan is thankful to brotherly countries of Turkiye and Qatar for mediation of talks; onus lies on Afghanistan to fulfill its long standing international/ regional and bilateral pledges, regarding control of terrorism in which so far they have failed.
Pakistan does not harbor…
— Attaullah Tarar (@TararAttaullah) November 7, 2025
لیکن گزشتہ مذاکرات کی طرح سے اِس بار آنے والے ڈیڈلاک کے بارے میں مذاکرات کی کسی نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی مذاکرات جاری رکھنے کے بارے میں بات کی گئی۔
پاکستان کا مؤقفگزشتہ روز وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ایک پیغام میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے لیے ہم برادر ممالک ترکئے اور قطر کے مشکور ہیں۔ اب یہ افغانستان کی ذمّے داری ہے کہ دہشتگردی پر قابو پانے کے ضِمن میں طویل عرصے سے التواء کا شکار اپنی علاقائی اور بین الاقوامی ذمّے داریاں پوری کرے جس میں وہ تاحال ناکام نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دل میں افغان عوام کے لیے کوئی بُری نیّت نہیں لیکن پاکستان افغان طالبان رجیم کے کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے مفاد کے خلاف ہو۔ پاکستان اپنی خودمختاری اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اُٹھاتا رہے گا۔
طالبان کا ردِعملدوسری طرف افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے مسلمان عوام افغان عوام کے بھائی ہیں، اسلامی امارت ان کے لیے خیر خواہی اور امن کی دعا کرتی ہے، اور اپنی ذمہ داریوں اور صلاحیتوں کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کرتی رہے گی‘۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
اِس بیان کا ایک مقصد تو افغان طالبان حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کی صورت میں نظر آتا ہے تو دوسری طرف یہ کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے حوالے اپنی عدم صلاحیت کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ بعض افغان وزرا کُھلے عام پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ایک اشتعال انگیز ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ممکنہ عسکری ردِعملپاکستان اور افغانستان کے درمیان بے نتیجہ مذاکرات کا منطقی نتیجہ ممکنہ طور یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی کے لیے افغانستان میں دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس کو نشانہ بنائے جو دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر سے جنگی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔
Clarification on the outcomes of the Istanbul meeting
The Islamic Emirate of Afghanistan once again thanks the Republic of Turkey and the State of Qatar — the two brotherly countries — for hosting and mediating the talks between Afghanistan and Pakistan in Istanbul.
8/1
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 8, 2025
6 نومبر کو مذاکرات سے کچھ پہلے ایسی صورتحال پیدا بھی جب دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جبکہ 11/12 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اُس وقت عروج پر پہنچی جب افغانستان کی جانب سے پاکستان سرحد کے حملے شروع ہوئے جس کے جواب میں پاکستان نے افغانستان میں دہشتگردی کے مخصوص مقامات کو نشانہ بنایا۔
مذاکرات کا جاری رکھنا بہتر حل ہے، آصف درّانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈلاک کو حل کرنے کے حوالے سے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ مذاکرات جاری رکھے جائیں چاہے مذاکرات کے 30 دور ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔
دوسری صورت میں دشمن اِس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھائے گا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ مذاکرات سے کبھی بھی اِنکار نہیں کرنا چاہیے۔
ڈیڈلاک کب ختم ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا، طاہر خانافغان اُمور کے حوالے سے معتبر تجزیہ نگار اور صحافی طاہر خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے جو ڈیڈلاک پیدا ہوا ہے یہ کب تک ختم ہو گا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا مسوّدہ دونوں ثالث ممالک نے تیار کیا تھا جس کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف
طاہر خان نے کہا پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروپس کی قیادت کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا جائے جس سے افغان سائیڈ نے اِنکار کیا۔ جبکہ افغان سائیڈ نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کو کہا جس پر پاکستان سائیڈ نے اِنکار کیا کیونکہ پاکستان اِس طرح کے مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتا جو کہ پاکستان کی بیان کردہ اور اعلانیہ پالیسی ہے۔
پاکستان کا بنیادی مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان راستے بھی بند ہیں تجارت بھی رُکی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے ثالثوں کو بھی مایوسی ہوئی ہو گی۔ لیکن دونوں طرفین نے ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات نہیں بتائیں۔
مذاکرات کا خاتمہ بدقسمتی ہے،حسن خانافغان اُمور کے حوالے سے معتبر صحافی حسن خان نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات کا ختم ہو جانا ایک بدقسمتی کی بات ہے جبکہ دوحہ میں یہ طے ہوا تھا کہ استنبول مذاکرات میں مانیٹرنگ میکنزم طے کیا جائے گا۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کاروائیوں کے لیے استعمال نہ ہو اور دہشتگردوں کو وہاں پر آزادانہ ماحول فراہم نہ کیا جائے۔
ان مذاکرات میں دونوں اطراف کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے لیکن اِن مذاکرات سے قبل ہی افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی ہدایات منظر عام پر آئیں تھیں کہ افغان طالبان کسی ایسے سیاسی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس کے ذریعے سے دہشتگرد گروہوں کی افغان سرزمین کے عدم استعمال کی یقین دہانی کروائی جا سکے۔ کچھ افغان وزرا اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کریں گے تو ایسی صورت میں پاکستان ویسا ہی جواب دے گا جیسا اِس سے پہلے دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف درانی استنبول افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ذبیح اللہ مجاہد صحافی حسن خان طالبان طاہر خان