Islam Times:
2025-10-04@16:45:26 GMT

امریکی منصوبے کا جائزہ(2)

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

امریکی منصوبے کا جائزہ(2)

اسلام ٹائمز: فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اور انکی حامی طاقتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نام نہاد امن منصوبہ دراصل امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے، جسکے پسِ پردہ بعض عرب ریاستوں کی خاموش حمایت بھی شامل ہے۔ انکے نزدیک اس منصوبے کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور فلسطینی عوام کو مزید کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس، جہادِ اسلامی اور انکے اتحادی اس منصوبے کو ایک خطرناک سازش اور اپنی مکمل تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مزاحمتی قوتوں نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسرائیل امریکہ کا غزہ خود ساختہ امن منصوبہ: "عرب و اسلامی ممالک اور مغرب کی جانب سے خوش آمدید۔" یہ نام نہاد امن منصوبہ ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل نے 66,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے۔ منصوبہ پیش کرنے کے بعد اسرائیل کے حملوں میں غزہ کی پٹی پر شدت آگئی ہے۔

غزہ کیلئے ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟
غزہ جنگ کے بعد عبوری کردار کے لیے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا نام کیوں لیا جا رہا ہے۔ یہ امن معاہدہ ہے یا فلسطینی مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کا منصوبہ، ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ وہ جنگ سے حاصل نہیں کرسکے، وہ اب اس منصوبہ امن کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس نئے منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (پی اے)، جو مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے، اس نے اس منصوبے کو قبول کیا ہے۔ کچھ عرب ممالک نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ حماس نے کہا کہ وہ "نیک نیتی سے اس امریکی تجویز کا جائزہ لے رہی ہے"، فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ) نے اسے "خطے کو تباہی کی طرف لے جانے کا نسخہ" قرار دیا۔ ایران نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو “بیگانہ”، “غیر منصفانہ”، اور “علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ” قرار دیا ہے۔ رہبرِ انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ یہ منصوبہ ناکام ہونے کے لیے بنایا گیا ہے اور مزاحمتی قوتیں زندہ رہیں گی۔ ایرانی وزارتِ امورِ خارجہ اور دیگر حکومتی اہلکار اس منصوبے کو "قبضہ پسندانہ طرزِ عمل" اور "فلسطینیوں کو منظر سے ہٹائے جانے کی سازش" کے مترادف سمجھتے ہیں۔

2۔ حماس کی پوزیشن
حماس نے ٹرمپ پلان کی متعدد شقوں کو رد کیا ہے، خاص طور پر وہ شقیں جن سے اس کی مسلح صلاحیت ختم ہو جائے یا وہ غزہ میں انتظامی اور سیاسی کنٹرول کھو دے۔ خاص طور پر “غزہ کی آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنے” کی تجویز کو وہ شدید مخالفت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حماس نے عالمی سطح پر مزاحمت اور قومی حقوق کی بنیاد پر ایک ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور زمین و سرحدی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔

3۔ فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ)
Islamic Jihad نے بھی ٹرمپ پلان کو “علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچانے والا” قرار دیا ہے۔ انہوں نے منصوبے کی مخالفت کی ہے، یہ باور کراتے ہوئے کہ ایسے منصوبے جارحیت اور فلسطینی حقوق کی پامالی پر مبنی ہیں۔

4۔ حزب اللہ کی پوزیشن
حزب اللہ نے بھی منصوبے کو “فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل برطرفی” کی کوشش سمجھا ہے اور اسے عرب حکومتوں کی ملی بھگت کے بغیر نامکمل اور خائن عنصر تصور کیا ہے۔ بالعموم تمام مزاحمتی طاقتوں نے اس امریکی اسرائیلی معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔

*اس منصوبے کے 20 نکات*
1۔ غزہ کو ایک ایسا غیر عسکری اور غیر انتہاء پسند زون بنایا جائے، جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
2۔ غزہ کی تعمیرِ نو کی جائے، تاکہ وہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں، جنہوں نے جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
3۔ اگر اسرائیل اور فلسطینی فریق اس منصوبے کو قبول کریں تو جنگ فوراً ختم ہوگی اور اسرائیلی افواج ایک طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی، تاکہ قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوسکے۔
4۔ معاہدے کے دوران تمام عسکری کارروائیاں، بشمول فضائی حملے اور توپخانے کی گولہ باری، روک دی جائیں گی اور محاذی خطوط پر سیز فائر ہو جائیگی۔
5۔ اگر اسرائیلی حکومت اس معاہدے کو باضابطہ قبول کرتی ہے تو 72 گھنٹوں کے اندر تمام قیدیوں کو زندہ یا مردہ حالت میں واپس کر دیا جائے گا۔

6۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل عمر قید کے 250 فلسطینیوں اور 1,700 دیگر افراد کو رہا کرے گا، جنہیں 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیا گیا، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں گے۔
7۔ ایسے حماس ارکان جو امن کے ساتھ رہنے اور ہتھیار ڈالنے کا عہد کریں گے، انہیں قانونی معافی دی جائے گی۔
8۔ جو حماس ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں گے، ان کو محفوظ راستہ اور ایسے ممالک تک رسائی دی جائے گی، جو انہیں قبول کریں۔
9۔ معاہدہ منظور ہوتے ہی فوری طور پر انسانی امداد اور بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، سڑکیں وغیرہ) کی بحالی شروع کر دی جائے گی۔
10۔ امدادی سامان اور بحالی کی تقسیم اقوامِ متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ذریعے ہوگی، کسی فریق کی مداخلت کے بغیر۔

11۔ رفح کراسنگ دونوں سمتوں میں دوبارہ کھولی جائے گی، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکے۔
12۔ غزہ کی عبوری حکومت غیر سیاسی فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل کمیٹی کو سونپی جائے گی۔
13۔ ایک بین الاقوامی عبوری ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ قائم ہوگا، جس کی نگرانی صدر ٹرمپ کریں گے اور جس میں دیگر عالمی رہنماء (جیسے ٹونی بلیئر) شامل ہوں گے۔
14۔ یہ بورڈ غزہ کی تعمیر نو، فنڈنگ اور مالی نگرانی کرے گا، جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی خود کنٹرول نہ سنبھال لے۔
15۔ حماس کو کسی صورت مستقبل کی حکومت میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار نہیں دیا جائے گا۔

16۔ غزہ کو اسرائیل میں ضم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی جبری بے دخلی ہوگی، البتہ جو جانا چاہے گا، اسے جانے کی اجازت ہوگی۔
17۔ حماس کے تمام عسکری ڈھانچے، سرنگیں اور ہتھیار غیر فعال یا تباہ کیے جائیں گے، تاکہ مستقبل میں خطرہ پیدا نہ ہو۔
18۔ غزہ کی معیشت اور روزگار کے مواقع ’’ٹرمپ اقتصادی ترقیاتی منصوبے‘‘ کے تحت بحال کیے جائیں گے۔
19۔ صحت، صفائی، پانی، بجلی جیسی شہری سہولیات عبوری حکومت فراہم کرے گی، جب تک فلسطینی اتھارٹی دوبارہ کنٹرول حاصل نہ کر لے۔
20۔ مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی امید ظاہر کی گئی ہے، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے اور علاقائی تعاون برقرار رہے۔

مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات نے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہاہے کہ "ہم صدر ٹرمپ کی مخلصانہ کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیرِ نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے، مغربی کنارے کے انضمام کو نہ ہونے دینے اور دو ریاستی حل کی طرف راستہ کھولنے کے لیے اہم ہے۔"

ترک صدر رجب طیب اردوان
اردوان نے کہا ہے کہ "میں صدر ٹرمپ کی قیادت اور کوششوں کو سراہتا ہوں، جو غزہ میں خونریزی روکنے اور جنگ بندی کے قیام کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ترکیہ اس عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔"

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف
شہباز شریف نے "ایکس" پر لکھا: "میں اس منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پائیدار امن خطے کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ مکمل طور پر تیار ہیں کہ اس معاہدے کو حقیقت میں بدل سکیں۔ میں ان کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔" انہوں نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کا نفاذ خطے میں امن کے لیے لازمی ہے۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنی گینتز
گینتز نے کہا: "صدر ٹرمپ کی کوششیں غیر معمولی ہیں۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی سلامتی یقینی بنانی چاہیئے۔"

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون
"میں توقع کرتا ہوں کہ اسرائیل اس منصوبے کو قبول کرے۔ حماس کو فوری طور پر اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ دو ریاستی حل کے تحت ایک پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔"

برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر
"ہم تمام فریقین سے کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو حقیقت میں بدلیں۔ حماس کو ہتھیار ڈالنے چاہییں۔"

سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر:
"یہ جرات مندانہ اور دانشمندانہ منصوبہ ہے، جو جنگ ختم کرسکتا ہے اور اسرائیل کی سلامتی یقینی بنا سکتا ہے۔"

اٹلی نے کہا:
"یہ منصوبہ دشمنی ختم کرنے، قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کے راستے کھولنے کا سنگ میل ہوسکتا ہے۔"

اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز:
"اب وقت ہے کہ تشدد ختم ہو۔ یہ منصوبہ فلسطین و اسرائیل کے لیے دو ریاستی حل کی طرف ایک موقع ہے۔"

اسرائیل کی پوزیشن
نیتن یاہو نے منصوبے کو قبول کیا کیونکہ: حماس کا خاتمہ اسرائیل کی دیرینہ پالیسی ہے۔ اسرائیل اپنی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے علاقائی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات بڑھا سکتا ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنی گینتز نے بھی اس منصوبے کو موقع قرار دیا۔

*امریکہ کے مقاصد*
ڈونلڈ ٹرمپ:
انتخابات کے لئے "امن ساز" کا کردار ادا کرنا۔
اسرائیل اور عرب دنیا کے بیچ "ڈیل میکر" بننا۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ بحال کرنا۔

تضادات اور چیلنجز
حماس کا غیر مسلح ہونا عملی طور پر ناممکن ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی عوامی مقبولیت کمزور ہے، اسے فلسطینی عوام کی نمائندہ نہیں سمجھا جاتا۔
عرب دنیا کی حمایت زیادہ تر رسمی ہے، زمینی حقیقت میں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
دو ریاستی حل کا بار بار ذکر ہو رہا ہے، مگر اسرائیل کی موجودہ حکومت اس پر سنجیدہ نہیں۔

مجموعی اثرات
یہ منصوبہ فلسطینی مزاحمتی بلاک (حماس، PIJ اور ایران کے اتحادیوں) کو الگ تھلگ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ عالمی سطح پر اسے امن کی طرف قدم کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ اسرائیل کے لیے سیاسی جیت ہے کیونکہ: اسرائیل جنگ سے تھک چکا تھا، مگر اس منصوبے کے ذریعے "سیاسی برتری" حاصل کر رہا ہے۔ عرب دنیا اور مغرب دونوں اسرائیل کو مزید قبولیت دے رہے ہیں۔

خلاصہ
یہ منصوبہ بظاہر "امن" اور "انسانی ہمدردی" کے نام پر ہے، مگر اس کا اصل مقصد:
1۔ حماس کو غیر مسلح یا کمزور کرنا۔
2۔ فلسطینی اتھارٹی کو آگے لانا۔
3۔ اسرائیل کو علاقائی سطح پر قبولیت دلوانا۔
4۔ امریکہ کو "امن ساز" کے طور پر پیش کرنا۔
یہ منصوبہ فلسطینی عوام کی حقیقی خود مختاری یا آزادی نہیں دیتا بلکہ اسرائیل کے بیانیے کو مضبوط کرتا ہے۔

1۔ اس پورے منصوبے میں خود فلسطینی کہاں کھڑے ہیں
مسلسل بمباری، محاصرے اور 66,000 سے زائد شہادتوں (29 ستمبر 2025ء تک کے اعداد و شمار) کے بعد غزہ کے عوام شدید انسانی بحران میں ہیں۔ ان کے لیے سب سے بنیادی مطالبہ جنگ بندی، امداد، اور بقاء ہے۔ زیادہ تر عوام حماس یا اسلامی جہاد کے نظریئے سے مکمل طور پر متفق نہ بھی ہوں، لیکن چونکہ وہ مزاحمت کو اپنی زندگی اور زمین بچانے کی آخری امید سمجھتے ہیں، اس لیے ان میں سے ایک بڑا حصہ مزاحمتی موقف کی حمایت کرتا ہے۔

2۔ مغربی کنارے (West Bank) کے عوام
یہ حصہ فلسطینی اتھارٹی (PA) کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں کے لوگ عمومی طور پر PA کے نسبتاً "نرم رویے" پر تنقید کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون نے عوام کو کچھ نہیں دیا، لیکن چونکہ اسرائیلی فوجی موجودگی اور PA کا سکیورٹی کنٹرول سخت ہے، اس لیے یہاں مزاحمت نسبتاً محدود اور منتشر شکل میں سامنے آتی ہے۔

3۔ مہاجر فلسطینی (Diaspora Palestinians)
اردن، لبنان، شام اور دیگر ممالک میں موجود مہاجر فلسطینی عام طور پر زیادہ انقلابی بیانیہ رکھتے ہیں۔یہ آبادی اکثر حماس، اسلامی جہاد اور حزب اللہ کے بیانیے کے قریب ہوتی ہے، کیونکہ ان کی واپسی کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی مظاہروں میں یہی ڈائسپورا کمیونٹی سب سے زیادہ سرگرم ہے۔

4۔ فلسطینی قیادت پر عوام کا اعتماد
حماس کو ایک طرف "مزاحمت کی علامت" سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (PA) کو اکثر "کمزور اور غیر مؤثر" یا "اسرائیل نواز" کہا جاتا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کے درمیان۔

5۔ موجودہ رجحان
عام فلسطینیوں کی اکثریت یہ دیکھ رہی ہے کہ ٹرمپ پلان اور اسرائیل کے اقدامات ان کے قومی حقوق، زمین اور خود ارادیت کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس منصوبے پر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں، چاہے فلسطینی اتھارٹی نے اسے وقتی طور پر قبول بھی کیا ہو۔ فلسطینی عوام کے درمیان یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اگر عالمی برادری اور عرب ممالک واقعی ان کا ساتھ نہ دیں تو انہیں خود ہی مزاحمت یا قربانی کے راستے پر چلنا ہوگا۔

???? خلاصہ:
فلسطینی عوام تین بڑے بلاکس میں بٹے ہیں۔ غزہ کے عوام جو تباہی کے باوجود مزاحمت کے حامی ہیں، مغربی کنارے کے عوام جو مایوس اور دباؤ میں ہیں اور ڈائسپورا جو سب سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ آواز بلند کر رہا ہے۔ لیکن ایک بات پر سب تقریباً متفق ہیں کہ اسرائیلی قبضے اور یکطرفہ منصوبوں کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اور ان کے حامی طاقتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نام نہاد امن منصوبہ دراصل امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے، جس کے پسِ پردہ بعض عرب ریاستوں کی خاموش حمایت بھی شامل ہے۔ ان کے نزدیک اس منصوبے کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور فلسطینی عوام کو مزید کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس، جہادِ اسلامی اور ان کے اتحادی اس منصوبے کو ایک خطرناک سازش اور اپنی مکمل تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مزاحمتی قوتوں نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی فلسطینی مزاحمتی فلسطینی مزاحمت منصوبے کو قبول فلسطینی عوام اس منصوبے کو دو ریاستی حل اسلامی جہاد اور فلسطینی اور اسرائیل اسرائیل کے سمجھتے ہیں اسرائیل کی کہ اسرائیل منصوبے کا یہ منصوبہ معاہدے کو قیدیوں کی کر دیا ہے کی حمایت قرار دیا حماس کو کو مزید جائے گی کے عوام کے ساتھ اور ان کیا ہے ہیں کہ کو ایک غزہ کی کیا جا گی اور رہا ہے کی طرف کے بعد نے کہا نے بھی کے لیے

پڑھیں:

عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی

اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے 23 ماہ اور 23 دن اور 65 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد جنگ بندی کا ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو نے وائٹ ہاوس کے دباو پر قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی سے دوحا پر حملے کے دوران ایک قطری شہری کی ہلاکت پر معافی بھی مانگی۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ میں امن کی بحالی کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا جو اکثر عرب اور اسلامی ممالک کی توجہ کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کم از کم پانچ سالہ نگران انتظامیہ کے بعد متحدہ فلسطینی ریاست تشکیل پانے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
 
اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
 
ان حکومتوں نے مختلف قسم کے اقتصادی اور سیکورٹی بہانوں کے ذریعے فلسطینی قوم کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے اور غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ یہ انداز نہ صرف فلسطین کاز سے غداری ہے بلکہ ایسی رژیم سے واضح اظہار یکجہتی بھی ہے جو اپنی بقا کو بحران اور جارحیت جاری رکھنے میں دیکھتی ہے۔ صیہونی وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات ختم ہوتے ہی نیتن یاہو نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: "میں نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بالکل اجازت نہیں دی اور اس معاہدے میں بھی ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی سخت مخالفت کی ہے اور امریکی صدر اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔" صیہونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق امریکہ نے دونوں بنیادی ایشوز یعنی غزہ سے اسرائیل کا فوجی انخلاء اور حماس کے غیر مسلح ہونے کو کاغذ پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن جو نسخہ گذشتہ ہفتے شریک عرب اور اسلامی ممالک کو دیا گیا ہے اس میں ان ایشوز کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
 
البتہ پیر کے دن اس معاہدے کا نیا نسخہ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے: "اسرائیلی فوجیں طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی۔" نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں جو نقشہ جاری کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ جانے کے باوجود تمام یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی خاطر غزہ کے وسیع علاقے میں جہاں بھی چاہیں موجود رہ سکتی ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عرب اور اسلامی ممالک پر مشتمل "بین الاقوامی فوج" غزہ میں تعیینات ہونے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی اسرائیلی فوج جہاں ہے وہاں موجود رہے گی۔ اسی طرح تل ابیب کے مدنظر نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پوری پٹی کے اردگرد ایک سیکورٹی بفر زون قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی دراصل اسرائیل کا مطالبہ تھا جس کا مقصد طوفان الاقصی جیسا آپریشن دوبارہ دہرائے جانے سے روکنا ہے۔
 
اس معاہدے کا اہم حصہ جنگ بندی کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ پر نگران انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہونا ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر نے 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق کی لاحاصل جنگوں کے لیے فوج بھیجی تھی لہذا وہ غزہ میں امن منصوبے کے اجرا کے لیے مناسب شخص نہیں ہے۔ برطانوی اخبار گارجین اور صیہونی اخبار ہارٹز کی جانب سے 21 صفحات پر مشتمل اس معاہدے کی دستاویز شائع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام بین الاقوامی عہدیداروں کے سپرد کیا جائے گا اور فلسطینیوں کو بنیادی عہدے نہیں دیے جائیں گے۔ اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کی بھی ذمہ دار ہو گی اور اس کام کے لیے وہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
 
اخبار اکونومسٹ کے مطابق اس منصوبے میں اصل رکاوٹ حماس کا موقف ہے۔ حماس کے لیے ابتدائی طور پر یرغمالیوں کو آزاد کر دینا ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا واحد ہتھکنڈہ یہی یرغمالی ہیں۔ حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں جنگ شدت اختیار کر جانے کے باعث اس کا تمام یرغمالیوں سے رابطہ بھی برقرار نہیں ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملہ نہیں کرے گا۔ حماس اپنے ہتھیاروں کو "مزاحمت" پر مبنی اپنے تشخص کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے اور غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے۔ مزید برآں، اب تک کسی ملک نے غزہ کے لیے بین الاقوامی فوج کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لہذا اس منصوبے پر عملدرآمد فی الحال دور از امکان دکھائی دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فوج کا امریکی سرمایہ کاری سے ایک نئی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ؟
  • حماس کے ردعمل کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روک دیا
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی
  • غزہ جنگ بندی منصوبہ، امیر قطر شیخ تمیم کا امریکی صدر کو فون
  • ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا