امریکی منصوبے کا جائزہ(2)
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اور انکی حامی طاقتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نام نہاد امن منصوبہ دراصل امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے، جسکے پسِ پردہ بعض عرب ریاستوں کی خاموش حمایت بھی شامل ہے۔ انکے نزدیک اس منصوبے کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور فلسطینی عوام کو مزید کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس، جہادِ اسلامی اور انکے اتحادی اس منصوبے کو ایک خطرناک سازش اور اپنی مکمل تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مزاحمتی قوتوں نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
اسرائیل امریکہ کا غزہ خود ساختہ امن منصوبہ: "عرب و اسلامی ممالک اور مغرب کی جانب سے خوش آمدید۔" یہ نام نہاد امن منصوبہ ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل نے 66,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے۔ منصوبہ پیش کرنے کے بعد اسرائیل کے حملوں میں غزہ کی پٹی پر شدت آگئی ہے۔
غزہ کیلئے ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟
غزہ جنگ کے بعد عبوری کردار کے لیے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا نام کیوں لیا جا رہا ہے۔ یہ امن معاہدہ ہے یا فلسطینی مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کا منصوبہ، ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ وہ جنگ سے حاصل نہیں کرسکے، وہ اب اس منصوبہ امن کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس نئے منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (پی اے)، جو مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے، اس نے اس منصوبے کو قبول کیا ہے۔ کچھ عرب ممالک نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ حماس نے کہا کہ وہ "نیک نیتی سے اس امریکی تجویز کا جائزہ لے رہی ہے"، فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ) نے اسے "خطے کو تباہی کی طرف لے جانے کا نسخہ" قرار دیا۔ ایران نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو “بیگانہ”، “غیر منصفانہ”، اور “علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ” قرار دیا ہے۔ رہبرِ انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ یہ منصوبہ ناکام ہونے کے لیے بنایا گیا ہے اور مزاحمتی قوتیں زندہ رہیں گی۔ ایرانی وزارتِ امورِ خارجہ اور دیگر حکومتی اہلکار اس منصوبے کو "قبضہ پسندانہ طرزِ عمل" اور "فلسطینیوں کو منظر سے ہٹائے جانے کی سازش" کے مترادف سمجھتے ہیں۔
2۔ حماس کی پوزیشن
حماس نے ٹرمپ پلان کی متعدد شقوں کو رد کیا ہے، خاص طور پر وہ شقیں جن سے اس کی مسلح صلاحیت ختم ہو جائے یا وہ غزہ میں انتظامی اور سیاسی کنٹرول کھو دے۔ خاص طور پر “غزہ کی آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنے” کی تجویز کو وہ شدید مخالفت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حماس نے عالمی سطح پر مزاحمت اور قومی حقوق کی بنیاد پر ایک ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور زمین و سرحدی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔
3۔ فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ)
Islamic Jihad نے بھی ٹرمپ پلان کو “علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچانے والا” قرار دیا ہے۔ انہوں نے منصوبے کی مخالفت کی ہے، یہ باور کراتے ہوئے کہ ایسے منصوبے جارحیت اور فلسطینی حقوق کی پامالی پر مبنی ہیں۔
4۔ حزب اللہ کی پوزیشن
حزب اللہ نے بھی منصوبے کو “فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل برطرفی” کی کوشش سمجھا ہے اور اسے عرب حکومتوں کی ملی بھگت کے بغیر نامکمل اور خائن عنصر تصور کیا ہے۔ بالعموم تمام مزاحمتی طاقتوں نے اس امریکی اسرائیلی معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔
*اس منصوبے کے 20 نکات*
1۔ غزہ کو ایک ایسا غیر عسکری اور غیر انتہاء پسند زون بنایا جائے، جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
2۔ غزہ کی تعمیرِ نو کی جائے، تاکہ وہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں، جنہوں نے جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
3۔ اگر اسرائیل اور فلسطینی فریق اس منصوبے کو قبول کریں تو جنگ فوراً ختم ہوگی اور اسرائیلی افواج ایک طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی، تاکہ قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوسکے۔
4۔ معاہدے کے دوران تمام عسکری کارروائیاں، بشمول فضائی حملے اور توپخانے کی گولہ باری، روک دی جائیں گی اور محاذی خطوط پر سیز فائر ہو جائیگی۔
5۔ اگر اسرائیلی حکومت اس معاہدے کو باضابطہ قبول کرتی ہے تو 72 گھنٹوں کے اندر تمام قیدیوں کو زندہ یا مردہ حالت میں واپس کر دیا جائے گا۔
6۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل عمر قید کے 250 فلسطینیوں اور 1,700 دیگر افراد کو رہا کرے گا، جنہیں 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیا گیا، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں گے۔
7۔ ایسے حماس ارکان جو امن کے ساتھ رہنے اور ہتھیار ڈالنے کا عہد کریں گے، انہیں قانونی معافی دی جائے گی۔
8۔ جو حماس ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں گے، ان کو محفوظ راستہ اور ایسے ممالک تک رسائی دی جائے گی، جو انہیں قبول کریں۔
9۔ معاہدہ منظور ہوتے ہی فوری طور پر انسانی امداد اور بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، سڑکیں وغیرہ) کی بحالی شروع کر دی جائے گی۔
10۔ امدادی سامان اور بحالی کی تقسیم اقوامِ متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ذریعے ہوگی، کسی فریق کی مداخلت کے بغیر۔
11۔ رفح کراسنگ دونوں سمتوں میں دوبارہ کھولی جائے گی، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکے۔
12۔ غزہ کی عبوری حکومت غیر سیاسی فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل کمیٹی کو سونپی جائے گی۔
13۔ ایک بین الاقوامی عبوری ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ قائم ہوگا، جس کی نگرانی صدر ٹرمپ کریں گے اور جس میں دیگر عالمی رہنماء (جیسے ٹونی بلیئر) شامل ہوں گے۔
14۔ یہ بورڈ غزہ کی تعمیر نو، فنڈنگ اور مالی نگرانی کرے گا، جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی خود کنٹرول نہ سنبھال لے۔
15۔ حماس کو کسی صورت مستقبل کی حکومت میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار نہیں دیا جائے گا۔
16۔ غزہ کو اسرائیل میں ضم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی جبری بے دخلی ہوگی، البتہ جو جانا چاہے گا، اسے جانے کی اجازت ہوگی۔
17۔ حماس کے تمام عسکری ڈھانچے، سرنگیں اور ہتھیار غیر فعال یا تباہ کیے جائیں گے، تاکہ مستقبل میں خطرہ پیدا نہ ہو۔
18۔ غزہ کی معیشت اور روزگار کے مواقع ’’ٹرمپ اقتصادی ترقیاتی منصوبے‘‘ کے تحت بحال کیے جائیں گے۔
19۔ صحت، صفائی، پانی، بجلی جیسی شہری سہولیات عبوری حکومت فراہم کرے گی، جب تک فلسطینی اتھارٹی دوبارہ کنٹرول حاصل نہ کر لے۔
20۔ مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی امید ظاہر کی گئی ہے، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے اور علاقائی تعاون برقرار رہے۔
مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات نے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہاہے کہ "ہم صدر ٹرمپ کی مخلصانہ کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیرِ نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے، مغربی کنارے کے انضمام کو نہ ہونے دینے اور دو ریاستی حل کی طرف راستہ کھولنے کے لیے اہم ہے۔"
ترک صدر رجب طیب اردوان
اردوان نے کہا ہے کہ "میں صدر ٹرمپ کی قیادت اور کوششوں کو سراہتا ہوں، جو غزہ میں خونریزی روکنے اور جنگ بندی کے قیام کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ترکیہ اس عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔"
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف
شہباز شریف نے "ایکس" پر لکھا: "میں اس منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پائیدار امن خطے کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ مکمل طور پر تیار ہیں کہ اس معاہدے کو حقیقت میں بدل سکیں۔ میں ان کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔" انہوں نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کا نفاذ خطے میں امن کے لیے لازمی ہے۔
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنی گینتز
گینتز نے کہا: "صدر ٹرمپ کی کوششیں غیر معمولی ہیں۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی سلامتی یقینی بنانی چاہیئے۔"
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون
"میں توقع کرتا ہوں کہ اسرائیل اس منصوبے کو قبول کرے۔ حماس کو فوری طور پر اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ دو ریاستی حل کے تحت ایک پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔"
برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر
"ہم تمام فریقین سے کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو حقیقت میں بدلیں۔ حماس کو ہتھیار ڈالنے چاہییں۔"
سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر:
"یہ جرات مندانہ اور دانشمندانہ منصوبہ ہے، جو جنگ ختم کرسکتا ہے اور اسرائیل کی سلامتی یقینی بنا سکتا ہے۔"
اٹلی نے کہا:
"یہ منصوبہ دشمنی ختم کرنے، قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کے راستے کھولنے کا سنگ میل ہوسکتا ہے۔"
اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز:
"اب وقت ہے کہ تشدد ختم ہو۔ یہ منصوبہ فلسطین و اسرائیل کے لیے دو ریاستی حل کی طرف ایک موقع ہے۔"
اسرائیل کی پوزیشن
نیتن یاہو نے منصوبے کو قبول کیا کیونکہ: حماس کا خاتمہ اسرائیل کی دیرینہ پالیسی ہے۔ اسرائیل اپنی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے علاقائی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات بڑھا سکتا ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنی گینتز نے بھی اس منصوبے کو موقع قرار دیا۔
*امریکہ کے مقاصد*
ڈونلڈ ٹرمپ:
انتخابات کے لئے "امن ساز" کا کردار ادا کرنا۔
اسرائیل اور عرب دنیا کے بیچ "ڈیل میکر" بننا۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ بحال کرنا۔
تضادات اور چیلنجز
حماس کا غیر مسلح ہونا عملی طور پر ناممکن ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی عوامی مقبولیت کمزور ہے، اسے فلسطینی عوام کی نمائندہ نہیں سمجھا جاتا۔
عرب دنیا کی حمایت زیادہ تر رسمی ہے، زمینی حقیقت میں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
دو ریاستی حل کا بار بار ذکر ہو رہا ہے، مگر اسرائیل کی موجودہ حکومت اس پر سنجیدہ نہیں۔
مجموعی اثرات
یہ منصوبہ فلسطینی مزاحمتی بلاک (حماس، PIJ اور ایران کے اتحادیوں) کو الگ تھلگ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ عالمی سطح پر اسے امن کی طرف قدم کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ اسرائیل کے لیے سیاسی جیت ہے کیونکہ: اسرائیل جنگ سے تھک چکا تھا، مگر اس منصوبے کے ذریعے "سیاسی برتری" حاصل کر رہا ہے۔ عرب دنیا اور مغرب دونوں اسرائیل کو مزید قبولیت دے رہے ہیں۔
خلاصہ
یہ منصوبہ بظاہر "امن" اور "انسانی ہمدردی" کے نام پر ہے، مگر اس کا اصل مقصد:
1۔ حماس کو غیر مسلح یا کمزور کرنا۔
2۔ فلسطینی اتھارٹی کو آگے لانا۔
3۔ اسرائیل کو علاقائی سطح پر قبولیت دلوانا۔
4۔ امریکہ کو "امن ساز" کے طور پر پیش کرنا۔
یہ منصوبہ فلسطینی عوام کی حقیقی خود مختاری یا آزادی نہیں دیتا بلکہ اسرائیل کے بیانیے کو مضبوط کرتا ہے۔
1۔ اس پورے منصوبے میں خود فلسطینی کہاں کھڑے ہیں
مسلسل بمباری، محاصرے اور 66,000 سے زائد شہادتوں (29 ستمبر 2025ء تک کے اعداد و شمار) کے بعد غزہ کے عوام شدید انسانی بحران میں ہیں۔ ان کے لیے سب سے بنیادی مطالبہ جنگ بندی، امداد، اور بقاء ہے۔ زیادہ تر عوام حماس یا اسلامی جہاد کے نظریئے سے مکمل طور پر متفق نہ بھی ہوں، لیکن چونکہ وہ مزاحمت کو اپنی زندگی اور زمین بچانے کی آخری امید سمجھتے ہیں، اس لیے ان میں سے ایک بڑا حصہ مزاحمتی موقف کی حمایت کرتا ہے۔
2۔ مغربی کنارے (West Bank) کے عوام
یہ حصہ فلسطینی اتھارٹی (PA) کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں کے لوگ عمومی طور پر PA کے نسبتاً "نرم رویے" پر تنقید کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون نے عوام کو کچھ نہیں دیا، لیکن چونکہ اسرائیلی فوجی موجودگی اور PA کا سکیورٹی کنٹرول سخت ہے، اس لیے یہاں مزاحمت نسبتاً محدود اور منتشر شکل میں سامنے آتی ہے۔
3۔ مہاجر فلسطینی (Diaspora Palestinians)
اردن، لبنان، شام اور دیگر ممالک میں موجود مہاجر فلسطینی عام طور پر زیادہ انقلابی بیانیہ رکھتے ہیں۔یہ آبادی اکثر حماس، اسلامی جہاد اور حزب اللہ کے بیانیے کے قریب ہوتی ہے، کیونکہ ان کی واپسی کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی مظاہروں میں یہی ڈائسپورا کمیونٹی سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
4۔ فلسطینی قیادت پر عوام کا اعتماد
حماس کو ایک طرف "مزاحمت کی علامت" سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (PA) کو اکثر "کمزور اور غیر مؤثر" یا "اسرائیل نواز" کہا جاتا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کے درمیان۔
5۔ موجودہ رجحان
عام فلسطینیوں کی اکثریت یہ دیکھ رہی ہے کہ ٹرمپ پلان اور اسرائیل کے اقدامات ان کے قومی حقوق، زمین اور خود ارادیت کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس منصوبے پر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں، چاہے فلسطینی اتھارٹی نے اسے وقتی طور پر قبول بھی کیا ہو۔ فلسطینی عوام کے درمیان یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اگر عالمی برادری اور عرب ممالک واقعی ان کا ساتھ نہ دیں تو انہیں خود ہی مزاحمت یا قربانی کے راستے پر چلنا ہوگا۔
???? خلاصہ:
فلسطینی عوام تین بڑے بلاکس میں بٹے ہیں۔ غزہ کے عوام جو تباہی کے باوجود مزاحمت کے حامی ہیں، مغربی کنارے کے عوام جو مایوس اور دباؤ میں ہیں اور ڈائسپورا جو سب سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ آواز بلند کر رہا ہے۔ لیکن ایک بات پر سب تقریباً متفق ہیں کہ اسرائیلی قبضے اور یکطرفہ منصوبوں کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکیں اور ان کے حامی طاقتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نام نہاد امن منصوبہ دراصل امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے، جس کے پسِ پردہ بعض عرب ریاستوں کی خاموش حمایت بھی شامل ہے۔ ان کے نزدیک اس منصوبے کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ دینا اور فلسطینی عوام کو مزید کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس، جہادِ اسلامی اور ان کے اتحادی اس منصوبے کو ایک خطرناک سازش اور اپنی مکمل تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مزاحمتی قوتوں نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی فلسطینی مزاحمتی فلسطینی مزاحمت منصوبے کو قبول فلسطینی عوام اس منصوبے کو دو ریاستی حل اسلامی جہاد اور فلسطینی اور اسرائیل اسرائیل کے سمجھتے ہیں اسرائیل کی کہ اسرائیل منصوبے کا یہ منصوبہ معاہدے کو قیدیوں کی کر دیا ہے کی حمایت قرار دیا حماس کو کو مزید جائے گی کے عوام کے ساتھ اور ان کیا ہے ہیں کہ کو ایک غزہ کی کیا جا گی اور رہا ہے کی طرف کے بعد نے کہا نے بھی کے لیے
پڑھیں:
بیروزگاروں کی سنی گئی :ملک بھر میں ہزاروں سرکاری نوکریاں
ویب ڈیسک: وزارت منصوبہ بندی نے اعلان کیا ہے کہ اگلے پانچ سے سات سال کے دوران پاکستان بھر میں 95ہزار سے زائد روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
یہ ملازمتیں ملک بھر میں مختلف شعبوں میں جاری بڑے ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ سے پیدا ہوں گی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے صرف اکتوبر 2025میں 12ترقیاتی منصوبے منظور کیے۔
منصوبے توانائی، پانی، زراعت، حکومت، صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں سے متعلق ہیں اور قومی ترقی کی وسیع ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے تناسب سے رد و بدل ہو گیا
وزارت منصوبہ بندی نے مزید تصدیق کی کہ چھ بڑے ترقیاتی منصوبے حتمی منظوری کے لیے ایکنک کو بھیج دیے گئے ہیں۔
ان منصوبوں سے تخمینہ لگایا گیا ہے کہ فوری طور پر 2501نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے 1000ارب روپے کے بجٹ میں سے پہلے چار ماہ کے دوران 330ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔
اکتوبر تک وزارت منصوبہ بندی نے 33فیصد فنڈز جاری کر دیے تھے اور اس عرصے میں 134ارب روپے سے زائد مختلف شعبوں میں استعمال کیے گئے۔
گرین شرٹس آج روایتی حریف کو کرکٹ سکھانے کے لئے میدان میں آئیں گے
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ سے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کی تیز رفتار کوششیں جاری ہیں۔
مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے قومی معیشت کو تقویت مل رہی ہے۔