data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: ایشین چیمپئن بننے کے باوجود ٹرافی نہ ملنے پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) شدید برہمی کا شکار ہوگیا ہے اور اس معاملے پر ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے اندرونی اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بی سی سی آئی کی جانب سے اے سی سی کے صدر اور چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں سے گلا دیش پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، جبکہ سری لنکا بھارت کی حمایت کر رہا ہے۔ افغانستان کی پوزیشن غیر یقینی ہے جو کبھی پاکستان کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور کبھی بھارت کی طرف جھکاؤ اختیار کرلیتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی نے بھارتی میڈیا کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر بھارتی کپتان کو دفتر آکر ایشیا کپ کی ٹرافی وصول کرنے کی دعوت دی تھی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں محسن نقوی نے کہا کہ میں نے نہ کوئی غلط کام کیا، نہ ہی بھارتی کرکٹ بورڈ سے معافی مانگی ہے اور نہ ہی کبھی بی سی سی آئی سے معافی مانگوں گا۔ یہ سب بھارتی میڈیا کی من گھڑت اور جھوٹی خبریں ہیں۔

محس نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر کی حیثیت سے وہ ابتدا ہی سے چاہتے تھے کہ ٹرافی بھارتی ٹیم کو دے دی جائے، لیکن اب بھی اگر بھارتی کپتان چاہیں تو وہ ان کے دفتر آکر ٹرافی وصول کر سکتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ میں آج بھی اسی عزت اور وقار کے ساتھ ٹرافی دینے کے لیے تیار ہوں، شرط صرف یہ ہے کہ بھارتی کپتان خود اے سی سی کےدفتر آئیں اور اسے لیں، میں انھیں خوش آمدید کہوں گا۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایشین کرکٹ کونسل کرکٹ بورڈ محسن نقوی اے سی سی

پڑھیں:

کرکٹ کو سیاسی میدان کی جنگ نہ بنایا جائے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بھارت اس وقت پاکستان کے تناظر میں سیاسی، دفاعی اور ابلاغ سمیت عالمی سفارت کاری کے محاذ پر پسپائی کا شکار ہے اور بھارت کو غصہ ہے کہ عالمی اور بالخصوص علاقائی سیاست میں اس کے پاس پاکستان کے خلاف برتری کا پہلو کمزور ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت کا مجموعی مزاج پاکستان مخالفت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کی ایک جھلک ہمیں حالیہ ایشیا کپ کے مقابلوں میں ملی جہاں بھارت نے یقینی طور پر کرکٹ کے میدان میں پاکستان پر اپنی برتری کو قائم کیا اور لگاتار تین میچوں میں پاکستان کو شکست دی۔ لیکن کھیل کے اس منظر نامے میں بھارت کی برتری کے باوجود اس کی سفارتی برتری یا کھیل کے میدان میں بھارت کے کرکٹ بورڈ، ٹیم اور مینجمنٹ سمیت ان کے میڈیا نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بھارت کا مجموعی رویہ پاکستان دشمنی پر مبنی تھا اور پہلے ہی میچ سے بھارت نے اپنے ہر عمل سے کرکٹ کے شائقین کو مایوس کیا اور ظاہر کیا کہ وہ کرکٹ کھیلنے سے زیادہ پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے تینوں میچوں میں کیا۔ میچ سے قبل دونوں کپتانوں کا ٹاس کے بعد ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا اور میچ کے بعد نتیجہ کچھ بھی ہو ٹیم کا ایک دوسرے کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانا کرکٹ کے کھیل کی روایت ہے اور کسی بھی ٹیم نے کبھی بھی اس روایت سے انحراف نہیں کیا، مگر بھارت کی کرکٹ ٹیم اور ان کی مینجمنٹ نے جیت کے باوجود یہ سب کچھ کیا جس کوکرکٹ کی تاریخ میں کوئی اچھی مثال نہیں کہا جاسکتا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بھارت کے کپتان نے میچ جیت کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاوجہ پاک بھارت کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے سیاست کو موضوع بحث بنایا، اس کی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ ایشیا کپ کے فائنل میں تو بھارت کی ٹیم نے حد ہی کردی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ محسن نقوی سے ٹرافی لینے ہی سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اگر ٹرافی کو وصول کریں گے تو کسی اور مہمان سے لی جائے گی۔ بھارت کی ٹیم کے اس مایوس کن طرز عمل کی وجہ سے ٹرافی کی تقریب منعقد نہ ہوسکی اور عملی طور پر ایشیا کپ کے منتظمین کو ٹرافی فاتح ٹیم کو دیے بغیر واپس لے جانا پڑی۔ یقینی طور پر بھارت کے کپتان، کھلاڑیوں، مینجمنٹ نے جو کچھ ایشیا کپ کے دوران منفی طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ بھارت کی حکومت کی سرپرستی یا ان کے حکم کے بغیر نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ سے جڑے تمام ماہرین جن میں بھارت کے سابق کھلاڑی اور کمنٹیٹر بھی شامل تھے سب نے مل کر بھارت کے اس طرز عمل پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ اسے کرکٹ کے کھیل کو سیاست کی نذر کرنے اور کھیل کے خلاف ایک بڑی سازش کے طور پر پیش کیا ہے۔ بھارت کے کرکٹ ماہرین کے بقول اگر یہ سب کچھ بھارت کی ٹیم کو کرکٹ کے میدان میں کرنا تھا تو بہتر تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اس ٹورنامنٹ میں کھیلنے ہی سے انکار کردیتی تاکہ بھارت کو عالمی سطح پر ایک بڑی سیاسی سبکی یا شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ آئی سی سی کو بھارت کے ایشیا کپ کے مجموعی طرز عمل پر سخت ایکشن لینا چاہیے تاکہ مستقبل میںکوئی بھی حکومت اپنی سیاست کو کرکٹ کی نذر نہ کرے اور نہ ہی عملاً کرکٹ کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ ایک زمانے میں دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں کرکٹ کو بطور ڈپلومیسی استعمال کیا جاتا تھا اور جنرل ضیا الحق مرحوم کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی تھی۔ لیکن اب بدقسمتی سے بھارت نے کرکٹ ڈپلومیسی میں تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے اسے سیاسی دشمنی کے کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے اور اگر آئی سی سی نے بھارت کے اس طرز عمل پر کوئی ایکشن نہ لیا تو مستقبل کی کرکٹ میں اسی طرح کے واقعات کی جھلک دیکھنے کو ملے گی اور اس کی ساری ذمے داری آئی سی سی پر ہوگی، کہا جاتا ہے کہ آئی سی سی پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہے اور آئی سی سی بھارت کے خلاف کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کھلاڑیوں کو سیاست کی نذر کرنا اور ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ان کو پاکستان کے خلاف وہی کچھ کرنا ہے جو بھارت کی حکومت کہے گی، یہ صورت حال شرمناک ہے۔ آئی سی سی پر دنیا کے مختلف کرکٹ بورڈ کو بھی دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ بھارت کے اس طرز عمل پر کوئی نہ کوئی ایسا ایکشن لے جو مستقبل میں اس طرز کے واقعات کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکے۔ ایشیا کپ جیتنے کے بعد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جس لب ولہجے میںگفتگو کی اور اس جیت کو آپریشن سیندور سے جوڑا اس کی بھی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اصولی طور پر بھارت کے مجموعی رویے نے جہاں کرکٹ کے شائقین کو مایوس کیا وہیں اس کھیل کی حقیقی روح کو بھی مجروع کیا ہے۔ بھارت نے اس کھیل کو جس طرح پاکستان کے خلاف ایک جنگی بیانیہ کے طور پر پیش کیا وہ یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کس حد تک آگے جاسکتا ہے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی میں کرکٹ جیسے کھیل کو بھی خراب کیا اور بھارت کی کرکٹ ٹیم کو بطور کھیلوں کے سفیر دنیا میں بدنام کیا ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے بھارت نے عملاً کرکٹ کے ان اصولوں اور روایات کو بھی پامال کیا ہے جو اپنی پہچان رکھتے تھے۔ کرکٹ ٹیموں میں مخالف ٹیم کے بارے میں جتنی بھی شدت یا غصہ ہو مگر انہوں نے کبھی بھی کرکٹ کے کھیل کے اصول اور روایات کو پامال نہیں کیا۔ لیکن بھارت کی حکومت نے یہ سب کچھ منفی بنیادوں پر کرکے کرکٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ابھی تو بھارت نے ایشیا کپ پاکستان سے جیتا ہے اور اگر وہ یہ کپ پاکستان سے ہار جاتے تو نہ معلوم بھارت کی اپنی ٹیم سے وہ کیا منفی سلوک کرتے۔ بھارت کے کپتان نے کپ جیتنے کے بعد اپنے میچوں کی تمام آمدنی بھارت کی فوج کو دینے کا اعلان کرکے بھی وہی کچھ کیا جو بھارت کی حکومت کا ان پر حکم تھا۔ یہ سب کچھ جو بھارت اور ان کی ٹیم نے کیا وہ یقینی طور پر کرکٹ کو نقصان پہنچانے اور اس میں سیاست کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بنے گا جس سے کرکٹ سیاست کا رنگ اختیار کرلے گی اور کھیل کے مثبت پہلوئوں کو نظر انداز کرکے کرکٹ میں سیاسی دشمنی کے رنگ کو نمایاں کیا جائے گا جو کرکٹ کے لیے ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طرح بھارت کا میڈیا بھی پاکستان دشمنی میں نمایاں تھا اور جس طرح سے وہ پاکستان کی ٹیم اور کھیل کی تضحیک اور بھارت کا جشن منارہے تھے وہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کھیل نہیں بلکہ ایک ملک کے خلاف دشمنی کے ساتھ اس میدان میں موجود ہیں۔ اب گیند بنیادی طور پر آئی سی سی کی کورٹ میں ہے اور اگر انہوں نے بھارت کے طرز عمل پر کوئی بڑا ایکشن نہ لیا تو اس سے کرکٹ اور خود آئی سی سی کی ساکھ بھی عالمی سطح پر بری طرح متاثر ہوگی۔

اداریہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ایشیا کپ ٹرافی تنازع: بھارت کی اے سی سی صدر کو ہٹانے کی دھمکی
  • بھارت کی حرکتیں تیسرے درجے کی ٹیم جیسی ہیں، باسط علی
  • ایشیا کپ؛ ٹرافی نہ ملنے پر بھارت آگ بگولہ، محسن نقوی کیخلاف سازش شروع
  • ٹرافی تنازعہ، بھارتی کرکٹ بورڈ محسن نقوی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے تیار؟
  • بھارت نے کھیل کی ساکھ متاثر اور گودی میڈیا نے لوگوں کو بیوقوف بنایا: محسن نقوی
  • بھارتی میڈیا جھوٹا، معافی مانگی نہ مانگوں گا، محسن نقوی: کوئی گارنٹی نہیں خواتین کھلاڑی ہاتھ ملائیں، سیکرٹری بھارتی بورڈ
  • کرکٹ کو سیاسی میدان کی جنگ نہ بنایا جائے
  • بھارتی ٹیم کو ٹرافی چاہیے تو دفتر میں آئیں اور مجھ سے لے جائیں، محسن نقوی
  • بھارت نے کھیل کی ساکھ متاثر اور گودی میڈیا نے لوگوں کو بیوقوف بنایا، محسن نقوی