مودی نواز اینکر ارنب گوسوامی کا مسلمانوں کے خلاف زہریلا بیان، کشمیری رہنماؤں پر نفرت انگیز الزامات
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
نئی دہلی: بھارت کے متنازع اور مودی نواز اینکر ارنب گوسوامی ایک بار پھر کشمیری مسلمانوں اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے پر تنقید کی زد میں آ گئے۔
ریپبلک ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران ارنب گوسوامی نے کشمیری رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کیے اور اسلام مخالف بیانیہ اپنایا۔
پروگرام میں ارنب گوسوامی نے کہا کہ “بھارت کے تعلیم یافتہ مسلمان ملک دشمن ہیں، ملک میں ایک ’وائٹ کالر جہاد‘ جاری ہے، جس میں مسلمان بھارت کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔”
انہوں نے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو “منافق” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ان پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔” مزید برآں انہوں نے محبوبہ مفتی اور دیگر کشمیری رہنماؤں کو “دھوکے باز” اور “فکری فراڈ” جیسے الفاظ سے نشانہ بنایا۔
ارنب نے ایک صحافی پر بھی طنز کیا اور کہا کہ “ایک خاص صحافی ہے جسے حافظ سعید کو صحافت کا آئیڈیل قرار دینے پر داد ملتی ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق، ارنب گوسوامی کے پروگرام میں بار بار “وائٹ کالر جہاد” جیسے الفاظ کا استعمال کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ایک منظم بیانیے کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رویہ نہ صرف صحافتی اقدار کی توہین ہے بلکہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی اسلاموفوبیا کو مزید تقویت دے رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ارنب گوسوامی کے خلاف
پڑھیں:
بھارت: زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے درجنوں بچوں کی ہلاکت، دواؤں کی حفاظت پر سنگین سوالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے درجنوں بچوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر ترقی پذیر ممالک میں ادویات کے معیار اور حفاظتی اقدامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارت کی ریاستوں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے کم از کم 24 بچے جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد ایک بار پھر ترقی پذیر ممالک میں دواؤں کے معیار اور حفاظتی اقدامات پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ نیا نہیں، 2022 میں گیمبیا، ازبکستان، انڈونیشیا اور کیمرون میں بھی آلودہ شربت پینے سے 300 سے زائد بچوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
رپورٹس کے مطابق متاثرہ بچوں میں بخار، قے، پیشاب کی بندش اور گردوں کے انفیکشن جیسی علامات ظاہر ہوئیں، لیبارٹری تجزیے سے معلوم ہوا کہ شربت میں ڈائیتھائلین گلائکول (Diethylene Glycol) نامی زہریلا کیمیکل شامل تھا، جو دراصل انڈسٹریل سالوینٹس اور اینٹی فریز میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً بچوں کے لیے۔
صحتِ عامہ کے ماہر دنیش ٹھاکر کے مطابق یہ کیمیکل ناقص گلیسرین کے ذریعے دواؤں میں شامل ہو جاتا ہے، جبکہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایسے واقعات عموماً ان فیکٹریوں میں ہوتے ہیں جہاں صفائی، تربیت اور کوالٹی کنٹرول کے اصولوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت نے واقعے کے بعد تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ دو سال سے کم عمر بچوں کو کھانسی یا نزلے کی کوئی دوا نہ دی جائے، جبکہ وزارتِ صحت نے 19 فیکٹریوں پر چھاپے مار کر ان کے حفاظتی نظام کا جائزہ لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سانحے کی ذمہ داری ادویہ ساز کمپنیوں اور حکومتی اداروں دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ پروفیسر ونسٹن مورگن کے مطابق فیکٹری مالکان پر لازم ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی جانچ یقینی بنائیں، اور حکومت کو سختی سے اپنے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔
تاریخی طور پر بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں — 1937 میں امریکہ میں آلودہ دوا سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بھارت میں 1972 سے اب تک نو مرتبہ ایسے سانحات پیش آ چکے ہیں جن میں 300 سے زیادہ بچے زندگی سے محروم ہو گئے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے کھانسی کے شربت طبی طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوئے، بلکہ ان میں شامل بعض اجزاء نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک دوا سازی کے عمل میں شفافیت، معیاری جانچ اور نگرانی کا سخت نظام قائم نہیں ہوتا، اس طرح کے المناک سانحات دوبارہ جنم لیتے رہیں گے — اور ان کی قیمت معصوم جانوں سے ادا کی جاتی رہے گی۔