Jasarat News:
2025-10-04@13:53:59 GMT

جنتی عورت کون؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

جنتی عورت کون؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: کیا میں تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتاؤں کہ وہ کون ہے؟ ہم نے کہا: ضرور اے الله کے رسول! آپؐ نے فرمایا: شوہر پر فریفتہ، زیادہ بچے جننے والی، جب یہ غصہ ہو جائے یا اسے کچھ بُرا بھلا کہہ دیا جائے یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہ سوؤں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاؤ“ (ترغیب)۔
اس حدیث پاک میں جنتی عورت کی صفت بیان کی گئی ہے کہ جنت میں جانے والی یہ عورت ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائیں:
وُدود: بہت زیادہ شوہر سے محبت کرنے والی، شوہر پر فریفتہ کہ ذرا سی ناراضی سے اس کا چین وسکون ختم ہو جائے۔ محبت وچین کا تعلق اس کا شوہر سے وابستہ ہو، اسے ناراض چھوڑ کر الگ بیٹھنے والی نہ ہو۔ فریفتگی اور محبت کا یہ فائدہ ہو گا کہ دوسرے کی جانب اس کا خیال اور دھیان نہ جائے گا اور غایت محبت کی وجہ سے شوہر کی جانب سے کوئی تکلیف دہ امور ہوں گے تو اسے برداشت کر لے گی۔ محبت کی وجہ سے کڑوی بات بھی میٹھی ہو جاتی ہے، محبوب کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف محبت کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتی، جس سے گھر کا نظام بہ احسن وجوہ چلتا ہے اور ہر ایک کو گھریلو سکون میسر ہوتا ہے، جس کا آج فقدان ہے کہ معمولی بات بھی آپس میں محبت نہ ہونے کی وجہ سے دل میں چبھ جاتی ہے۔ عورت جب عشق اور فریفتگی کا برتاؤ کرے گی تو سخت مزاج مرد بھی متاثر ہو کر دل میں اسے جگہ دے دے گا اور وہ بھی محبت کی بنیاد پر نامناسب امور کو برداشت کرتا رہے گا اور ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے محبت کی بنیاد پر صرف نظر کرتا رہے گا اور گھریلو نظام اچھی طرح چلتا رہے گا۔

وُلود: زیادہ بچے جننے والی عورت قابل تعریف اور الله و رسولؐ کے نزیک بہت پسندیدہ ہے۔ اسی لیے سرکار دو عالمؐ نے تاکید فرمائی ہے کہ زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو۔ شادی کا اہم ترین مقصد سلسلہ نسل کو باقی رکھنا ہے اور امت کے افراد کا زیادہ سے زیادہ ہونا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بچے نہیں چاہتے یا کم سے کم چاہتے ہیں، تاکہ عیش وآرام ملے اور پرورش کی مشقت سے بچے رہیں، یہ الله ورسولؐ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ہاں! مرض اور بیماری کے پیش نظر ہو تو دوسری بات ہے۔ عموماً اہل یورپ کا مزاج ہے کہ وہ بچے بالکل نہیں چاہتے یا ایک دو سے زیادہ نہیں چاہتے، تاکہ ان کے عیش وآرام میں خلل نہ ہو۔ سیر وسیاحت میں آزاد رہیں، الله کی پناہ! اولاد اور اس کی کثرت بڑی نعمت اور ثواب کی بات ہے۔ آپؐ نے فرمایا: زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اُمت کی کثرت آپؐ کے لیے قیامت میں فخر کی بات ہے۔ رہی یہ بات کہ بچوں کی کثرت غربت کا سبب ہے، سو یہ غلط ہے۔ بچے اچھے ہونگے، ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہوگی ، لائق اور سنجیدہ ہوں گے تو یہ خوش حالی اور مال داری کا باعث بنیں گے۔ پریشانی اور مصیبت تو غلط تعلیم وتربیت ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ بچے اور اولاد، والدین کے حق میں دین ودنیا کی بھلائی کا باعث، صدقہٴ جاریہ اور ہر اعتبار سے خیر کا باعث ہیں کہ حمل اور دودھ پلانے کا بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ آپؐ نے عورتوں سے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں کہ جب تم میں سے کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور شوہر اس سے راضی ہو تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ الله کے راستے میں روزہ رکھنے والے اور شب بیدار کو ثواب ملتا ہے اور جب اس کو درد زہ ہوتا ہے تو اس کے لیے (جنت میں) جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوتا ہے، اسے آسمان وزمین کے فرشتے بھی نہیں جانتے اور پیدائش کے بعد جب بچہ ایک گھونٹ بھی دودھ پیتا یا چوستا ہے اس پر ماں کو ایک نیکی ملتی ہے۔ اگر بچہ کے سبب سے رات میں جاگنا پڑ جائے تو راہ الہٰی میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے (کنز العمال)۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: عورت حمل سے لے کر بچہ جننے اور دودھ چھڑانے تک ایسی ہے جیسے اسلام کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرنے والا۔ اگر اسی درمیان انتقال ہوجائے تو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے (کنز العمال)۔
اس حدیث پاک میں جنتی عورت کا ایک نہایت ہی اہم وصف وعلامت بیان کی گئی ہے کہ وہ شوہر کی محبت، بلکہ عشق میں سرشار ہو کر شوہر کی ذرا سی بھی ناراضگی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر کسی بنیاد پر شوہر ناراض یا غصہ ہو جائے تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر غایت درجہ محبت وتعلق کا اظہار کرے کہ جب تک آپ راضی نہ ہوں گے، خوش نہ ہوں گے میں ایک پلک بھر نہ سوؤں گی۔ الله اکبر! کیا شان وآرام ہے محبت وعشق کا۔

کیا آج کل کی ماڈرن عورتیں ایسا کرسکتی ہیں؟ اگر شوہر ناراض ہو اور اس کا ناراض ہونا حق بجانب ہو تو بھی بیگم صاحبہ پوچھیں گی بھی نہیں، مزے سے بے خبر سو جائیں گی۔ اگر آج یہ وصف عورت میں پیدا ہو جائے تو گھر جنت کا نشان بن جائے۔
شوہر کیسا ہی بدمزاج اور سخت مزاج کیوں نہ ہو، بیوی کی غایت محبت سے اس کی محبت وقدر ذہن میں بیٹھ جائے گی۔
سیدنا ابن عباسؓ سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث مروی ہے، جسے امام نسائی نے بیان کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں تم کو جنتی عورت نہ بتادوں، جو خوب محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی، شوہر کے پاس کثرت سے آنے والی کہ اگر اسے تکلیف دے دی جائے یا شوہر ناراض ہو جائے تو شوہر کا ہاتھ پکڑ کر کہے، میں پلک بھر نہ سوؤں گی جب تک کہ آپ خوش نہ ہو جائیں (کتاب عشرۃ النساء)۔
گویا کہ اس بات کی تعلیم ہے کہ شوہر ناراض نہ رہے۔ اپنی جانب سے اسے ناراض رہنے یا رکھنے کی شکل نہ پیدا کی جائے، کیوں کہ شوہر کی رضا جنت ہے۔

مفتی محمد ارشاد القاسمی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: زیادہ بچے جننے والی ثواب ملتا ہے شوہر ناراض ہو جائے تو نے فرمایا جنتی عورت کی وجہ سے ناراض ہو ہے کہ ا پ نے والی محبت کی شوہر کی گا اور ہوں گے ہے اور

پڑھیں:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

سلطانہ کی عمر ستر سال ہے، شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں، یہ ایک ایسی خاتون ہیں جو ہر کسی کے کام آتی تھیں، کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ وہ بیمار ہے، یہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھیں۔

نہ پیسے کی لالچ نہ کسی اور چیز کی، میرا جب چار سال پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو اسپتال میں یہی میرے ساتھ تھیں، پھر دو سال پہلے میرا پتّے کا آپریشن ہوا تو بھی میرے ساتھ تھیں، اور انھوں نے میری بڑی خدمت کی، مجھے بستر سے نہیں اٹھنے دیا۔

اسی طرح ان کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا، شوہر جب ملازمت کرتے تھے تو ایک آدمی کے کمانے سے پورا نہیں پڑتا تھا، یہ بھی اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے گھر سے نکل پڑیں۔

پڑھی لکھی زیادہ تھیں نہیں، اس لیے کوئی اچھی ملازمت تو نہ کر سکیں، البتہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کھانا پکانے کی نوکری کر لی۔

طارق روڈ پر ایک گھر میں انھوں نے ملازمت کر لی۔ ہاتھ میں ذائقہ ہے، تعلق دہلی سے ہے، اس لیے جو ان کے ہاتھ کا کھانا کھاتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ طارق روڈ پر ہی تین گھروں میں یہ کھانا پکاتی تھیں۔

اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی، اسی نوکری میں انھوں نے بیٹیوں کی شادیاں کیں، خود غریب تھیں اس لیے بیٹیاں بھی غربت میں بیاہی گئیں۔ پھر شوہر کو شوگر ہو گئی اور زیادہ سگریٹ نوشی سے ان کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے تو انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔

اب سلطانہ پر زیادہ ذمے داری آن پڑی، غیرت مند تھیں اس لیے کسی سے کچھ کہتی نہ تھیں، البتہ خوشی اور غم دونوں میں یہ شریک ہو جاتی تھیں، شوہر کو غصہ بھی بہت آتا تھا، سلطانہ غریب گھر کی غریب بیٹی تھیں، اس لیے دکھ سہنے کا تجربہ تھا۔

شوہر گھر میں رہنے کی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے تھے، انھیں صبح صبح ناشتہ درکار ہوتا تھا، یہ فجر کے بعد اٹھ کر شوہر کو ناشتہ بنا کر دیتی تھیں، پھر اپنے کام پر چلی جاتی تھیں، شوہر بھی پنج وقتہ نمازی تھے، چونکہ بیوی نوکری کر رہی تھی، اس سے ان کی ایکو ہرٹ ہوتی تھی لہٰذا اکثر و بیشتر غصہ کیا کرتے تھے۔

ایک بیٹی قریب ہی رہتی تھی لہٰذا دوپہر کا کھانا وہ باپ کو نکال کر دے دیتی تھی۔ سلطانہ فجر کے بعد کھانا پکا کر جاتی تھیں اور شام کو آ کر شوہر کی ٹانگوں کی مالش کرتیں، انھیں چائے بنا کر دیتیں اور پھر رات کا کھانا تیار کرتیں، میاں بیوی دونوں نمازی تھے، سلطانہ تو تہجد گزار بھی تھیں، میں انھیں طویل عرصے سے جانتی ہوں۔

انھوں نے کچھ عرصہ میرے گھر بھی کھانا پکایا ہے، میرے شوہر تو ان کے ہاتھ کے کھانوں کے شیدائی تھے۔ انھوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں، اس لیے مجھے بھی ان کے ان حالات کا علم نہ ہو سکا جس کی شکار یہ شوہر کے انتقال کے بعد ہوئیں۔

میں ان کے شوہر کے انتقال پر ان کے گھر بھی گئی، انھوں نے عدت کے دن گھر پر گزارے جب کہ ان کی جو عمر تھی اس میں مولوی صاحب نے بتایا کہ ان پر عدت لازم نہیں ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عدت واجب تو نہیں ہے لیکن کر لیں تو شوہر کی روح کو ثواب ملے گا سو انھوں نے پوری مدت کی عدت کی اور گھر بیٹھی رہیں۔

جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی، ان کی ملازمت ختم ہو گئی، کون اتنے لمبے عرصے کی غیر حاضری برداشت کرتا، مجھ سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ میں کر دیتی تھی۔ چند دن پہلے ان کی بیٹی میرے پاس گھر آئی اور مجھے ساتھ لے کر سلطانہ کے پاس پہنچ گئی۔

یہ وہ سلطانہ نہیں لگ رہی تھیں جن سے میں واقف تھی، پتا چلا کہ شوہر کے انتقال کے بعد ایک صاحب حیثیت رشتے دار نے انھیں دس ہزار روپے دینا شروع کیا، لیکن کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا اور یہ مدد سے محروم ہو گئیں۔

یہ بہت بیمار رہنے لگی ہیں، دل کی تکلیف ہے، بڑی باہمت خاتون ہیں، یہ جناح اسپتال جاتی تھیں اور اپنی دوائیں لے کر آتی تھیں۔ اسپتال جانے کے لیے یہ رکشہ کرتی تھیں اور رات کو ہی وہاں جا کر دری بچھا کر لیٹ جاتی تھیں۔

پھر صبح فجر کے وقت ٹوکن ملتے تھے اور پھر صبح نو دس بجے ڈاکٹروں کے پاس جانا ہوتا تھا۔ یہ ہفتے بھر کی دوائیں لے آتی تھیں، پھر یوں ہوا کہ دو بار یہ سیڑھیوں سے گر گئیں، ان کے کولہے میں چوٹ لگی۔

اب علاج کرائیں تو کیسے؟ ان کی بیٹی بھی غریب ہے وہ بھی جاب کرتی ہے، اس کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ ماں کا علاج کرا سکے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا، لاچاری اور بے چارگی کی تصویر بنی سلطانہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

گزشتہ ایک سال سے ان کی دوائیں بند ہیں، ایک ہفتے کی دوائیں پانچ ہزار کی آتی ہیں، چوٹ لگ جانے کی وجہ سے اب اسپتال نہیں جا سکتیں، پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دایاں ہاتھ ان کا کام نہیں کرتا۔ بیٹی نے کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے فزیو تھراپی کا مشورہ دیا۔

اب پیسے تو ہیں نہیں فزیو تھراپسٹ کوئی بھی گھر آنے کے ایک دن کے دو ہزار سے کم نہیں لیتے۔ فی زمانہ لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی میں نے ایک اسپتال میں بات کی تو ایک صاحبہ پندرہ سو پہ راضی ہو گئیں، لیکن روزانہ کے پندرہ سو آئیں کہاں سے؟ آج ہر انسان ضرورت مند ہے، مہنگائی نے ناطقہ بند کیا ہوا ہے، مجھے بہت افسوس ہوا یہ سب دیکھ کر۔

ایک بے سہارا، لاچار اور مجبور عورت جسے بڑھاپے اور مہنگائی نے مار دیا ہے۔ میں نے جب بھی کسی ضرورت مند کے لیے کالم لکھا ہے تو قارئین نے بھرپور ساتھ دیا ہے، اس بار بھی آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ زکوٰۃ، خیرات یا کسی بھی مد میں جو بھی رقم آپ نکالیں وہ سلطانہ کو دے دیں۔

کیونکہ ایک ماہ کی فزیوتھراپی کے لیے جو رقم جائے گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ پھر ہارٹ کی دوائیوں کے اخراجات الگ ہیں۔ میں نے انھیں دیکھا تو ان کی حالت پہ رونا آگیا، دل کی تکلیف کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت آگئی ہے۔

ان سے بولا نہیں جاتا، مجھے دیکھ کر انھوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ان کی کسمپرسی پر میرا دل رو اٹھا، تب میں نے سوچا کہ ان کے لیے قارئین سے اپیل کروں، یہاں مخیر لوگوں کی کمی نہیں ہے، دو سال پہلے جب میں نے ’’سیما کی کہانی‘‘ والا کالم لکھا تھا تو لندن، کینیڈا اور پنجاب کے شہروں سے اتنی مدد آگئی تھی کہ سیما نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا تھا، لندن کی شاہدہ صدیقی مسلسل دس ہزار روپے ماہانہ بھیجتی رہیں۔

اب وہ بیمار ہیں لیکن ہم سب ان کی صحت کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ سلطانہ کی مدد کے لیے میں نے ان کے نواسے کا بینک اکاؤنٹ لکھوا دیا ہے۔ نواسے کا نام شہباز ہے، اس کا موبائل نمبر 0317-1092481 ہے، بینک اکاؤنٹ نمبر IBAN-PK37MEZN 0001520113080624 ہے۔ حالی نے کہا ہے:

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

سب کچھ یہیں رہ جائے گا، ساتھ جائے گا تو صرف اعمال نامہ جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہوگی حقوق العباد کی۔ سلطانہ کی مدد کیجیے، میں چاہتی ہوں کہ جب تک سلطانہ زندہ ہیں ان کا دایاں ہاتھ کام کرنے لگے اور ان کی ہارٹ کی دوائیاں انھیں مل جائیں۔

سلطانہ پر بہت برا وقت پڑا ہے، بیٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، پھر بھی اس نے ماں کو رکھا ہوا ہے۔ سلطانہ کو ابھی میں نے کچھ نہیں بتایا ہے، اگر کہیں سے کوئی مدد آئی تو انھیں بتا دیں گے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی ایسی بھی افتاد ان پر پڑے گی، وہ کہتی ہیں کہ ان کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو وہ طارق روڈ پر دوبارہ کھانا پکانے کا کام شروع کر دیں گی۔

لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ اب وہ دوبارہ نوکری کر سکیں گی۔ ان کے حالات اور صحت بالکل اچھے نہیں ہیں، بس آپ لوگ رحم کیجیے، ایک بار پھر آپ کی شکر گزار ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • رواں سال کا پہلا سپر مون 7 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیکھا جائے گا۔
  • باراک اوباما کی مشیل اوباما کو شادی کی 33ویں سالگرہ پر محبت بھری مبارکباد
  • پورٹ قاسم دنیا کی نویں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی بندرگاہ قرار
  • پیارے نبی (ص) انسانیت کے علمبردار اور اخوت و محبت کی مثال ہیں، الحاج عرفان احمد
  • ’بریانی ایک محبت کی کہانی، جس میں تمام صحیح اجزاء موجود ہیں‘
  • کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
  • 7 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں 2025 کے پہلے سپرمون کا نظارہ کیا جائے گا
  • پاکستان ریلوے کا مال گاڑیاں اور بوگیاں پرائیویٹ کرنے کا فیصلہ
  • دنیا میں سب سے زیادہ کروموسومز رکھنے والا جاندار