WE News:
2025-11-18@18:45:41 GMT

مسلم لیگ ن کی سیاست ’نِل بٹا نِل‘ ہو گئی ہے، مفتاح اسماعیل

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

سابق وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے سیکریٹری جنرل مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست ’نِل بٹا نِل‘ ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے، مفتاح اسماعیل

وی نیوز ایکسکلوسیو میں سینیئر صحافی عمار مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کا کوئی لیڈر الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہا۔

مریم نواز کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات پر انہوں نے طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کرا کر دیکھ لیں۔‘

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ چینی برآمد کر کے 130 روپے سے 200 روپے کر دی گئی، 3 سال سے پاکستان کی اوسط انکم کم ہو رہی ہے اور ہر پاکستانی غریب ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کی سیاست کو لسانی تنازع نہیں سمجھنا چاہیے، اصل مسئلہ مراعات یافتہ طبقے کا ہے جو عوام کے خلاف کھڑا ہے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ جب تک اسٹرکچرل اصلاحات نہیں ہوں گی، ملک آگے نہیں بڑھے گا۔

مزید پڑھیے: شہباز شریف کی اپنی شوگر ملیں ہیں، بطور وزیراعظم چینی سے متعلق فیصلے مفادات کا ٹکراؤ ہیں، مفتاح اسماعیل

انہوں نے کہا کہ جب 20 فیصد سے زیادہ بے روزگاری ہو تو کہنا کہ ملک اچھا چل رہا ہے، شرم کی بات ہے۔

 انہوں ںے مزید کہا کہ سنہ 2014 سے سویلین اسپیس سکڑنی شروع ہوئی اور سنہ 2018 سے ہائبرڈ نظام قائم ہوا لیکن نئی قیادت کے آنے کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں صرف 2،3 خاندان ہی ملک چلا سکتے ہیں۔ ہم (ان سے زیادہ) بہتر (کام) کر سکتے ہیں۔‘

معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گندم کی خریداری سے ’مڈل مین‘ نے بڑے پیمانے پر منافع کمایا جبکہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی، گیس خطے میں سب سے مہنگی ہیں، ہم نے پالیسی چینج کر کے گیس میں نقصان کیا، آذربائیجان سے ایل این جی خریدنے کا معاہدہ بھی ختم کر دیا۔

مفتاح اسماعیل نے حکومت پر الزام لگایا کہ 3 سال میں نہ نجکاری کی گئی نہ رائٹ سائزنگ۔ انہوں نے کہا کہ ’آپ بات روز کرتے ہیں مگر عملی قدم نہیں اٹھاتے۔‘

انہوں نے دنیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے دفاعی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں فوج نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی فوجی قیادت کی تعریف کی ہے۔

مزید پڑھیں: سچ بولنے کی سزا مل رہی ہے، مفتاح اسماعیل، میں نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا، طارق فضل چوہدری کی وضاحت

مفتاح اسماعیل  کا کہنا تھا کہ حکومت کی کامیابیوں کو فوج کے کھاتے میں ڈال دینا اور ناکامیوں کا بوجھ صرف شہباز شریف پر ڈالنا ناانصافی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ن لیگ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ن لیگ وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف مفتاح اسماعیل نے مفتاح اسماعیل ن انہوں نے کہا کہ کرتے ہوئے

پڑھیں:

ترمیمی سیاست کے ماہر؛ ایم کیو ایم اور کراچی کا دائمی المیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251116-03-4

 

میر بابر مشتاق

کراچی… روشنیوں کا شہر، محنت کشوں کا مسکن، اور پاکستان کی معاشی شہ رگ، مگر افسوس! سیاسی مفادات کی بندر بانٹ نے اس شہر کو اندھیروں، خوف اور محرومیوں کے گڑھ میں بدل دیا ہے۔ اس شہر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ اسے وفاق نے نظر انداز کیا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے اپنے نمائندے بار بار اسے بیچ کر، اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ ایم کیو ایم؛ وہ جماعت جو کبھی مہاجروں کی شناخت اور امید کی علامت سمجھی جاتی تھی آج سیاسی موقع پرستی، وزارتوں کی بھوک اور خود غرضی کی علامت بن چکی ہے۔

ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ’’مہاجر حقوق‘‘ کے نام پر جو سیاست کی، وہ دراصل اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا شارٹ کٹ تھی۔ ہر دورِ حکومت میں اس جماعت نے وزارتوں، مشاورتوں، اور مراعات کے بدلے کراچی کے عوام کے مسائل کا سودا کیا۔ کبھی مشرف کے ساتھ، کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ، کبھی مسلم لیگ ن کے ساتھ، اور کبھی تحریک انصاف کے ساتھ۔ ہر اقتدار کے دسترخوان پر ان کا حصہ یقینی رہا۔ مگر جب عوام نے پوچھا کہ کراچی کو کیا ملا؟ تو جواب میں صرف نعروں اور بہانوں کا شور سنائی دیا۔ یہ جماعت ہمیشہ ’’اقتدار میں شمولیت‘‘ کو شہر کے مسائل کا حل سمجھتی رہی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے مزے لیتے ہوئے انہوں نے کراچی کی سڑکوں، نکاسی ِ آب، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی کا شہری بارش میں ڈوبتا ہے، دھوپ میں جلتا ہے، اور بلدیاتی ادارے محض نعرے بازی کا میدان بن چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما جلسوں میں پیپلزپارٹی پر برسنے کے ماہر ہیں۔ مگر جیسے ہی وزارت یا کمیٹی کا عہدہ سامنے آتا ہے، ان کی للکار فوراً معذرت میں بدل جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کے بلدیاتی اختیارات سلب کیے، شہری اداروں کو تباہ کیا، مگر ایم کیو ایم نے کبھی سنجیدہ مزاحمت نہیں کی۔ جب بھی کوئی آئینی یا انتظامی ترمیم سامنے آتی ہے، یہ پارٹی یا تو خاموش رہتی ہے یا پیپلزپارٹی کی زبان بولنے لگتی ہے۔ نتیجہ؟ سندھ کے شہری علاقے مسلسل پسماندگی، بدانتظامی اور ناانصافی کا شکار ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما ٹی وی پر صرف ’’بیانات‘‘ دے کر اپنی سیاسی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم نے ہر آئینی ترمیم، بل یا قرارداد کو اپنے مفاد کے مطابق تول کر فیصلہ کیا۔ کبھی اصولوں کی خاطر نہیں، بلکہ ’’فائدے‘‘ کی بنیاد پر۔ کبھی وہ ’’متحدہ‘‘ تھی، کبھی ’’پاکستان‘‘ بنی، کبھی ’’بحالی‘‘ ہوئی، کبھی ’’رابطہ کمیٹی‘‘ نئی بن گئی مگر عوامی مسائل وہیں کے وہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کا عام شہری خود سے سوال کرتا ہے: ’’آخر ایم کیو ایم نے ہمیں کیا دیا؟‘‘ جواب واضح ہے کچھ نہیں، سوائے تقسیم، انتشار، اور مایوسی کے۔

ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات نے اس جماعت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ کبھی ایک دھڑا لندن کا وفادار، کبھی ایک پاکستان کا محب وطن، کبھی کوئی پاک سرزمین پارٹی بناتا ہے، تو کبھی ’’اتحاد‘‘ کے نام پر نئی پریس کانفرنس ہوتی ہے۔ یہ وہ قیادت ہے جو مہاجر قوم کو متحد کرنے نکلی تھی، مگر خود ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اب ان کے جلسے خالی، نعرے مدھم، اور ووٹ بینک سکڑ چکا ہے۔ کراچی کا نوجوان اب ان چہروں پر اعتماد نہیں کرتا، جو ہر پانچ سال بعد نئے وعدے اور پرانے بہانے لے کر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، کراچی سب کے لیے ایک ’’کماؤ گائے‘‘ ہے، مگر کسی کے لیے ذمے داری نہیں۔ یہی حال ایم کیو ایم کا بھی ہے۔ جب اقتدار میں ہوں تو کراچی کے نام پر فنڈز لیتے ہیں، جب اقتدار سے باہر ہوں تو کراچی کی بدحالی پر آنسو بہاتے ہیں۔ ان کی سیاست نے شہر کو لسانیت، خوف اور مفاد پرستی کا اکھاڑا بنا دیا ہے۔ کراچی اب ایم کیو ایم جیسے سیاسی تاجر برداشت نہیں کر سکتا۔ اس شہر کو ایسی قیادت چاہیے جو اقتدار نہیں، خدمت کے لیے سیاست کرے۔ ایسی قیادت جو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی یا ن لیگ کے دروازے پر وزارت کی بھیک مانگنے نہ جائے، بلکہ عوام کے حق کے لیے لڑے۔ کراچی کے ووٹرز کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ تمہیں بار بار بیچتے رہے، وہ تمہارے خیرخواہ نہیں، تمہارے اصل دشمن ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اب آئینہ دیکھنا چاہیے۔ وہ ’’حقوق‘‘ کی بات کرتے ہیں، مگر ان کے اپنے دفاتر عوام کے خون پسینے سے تعمیر ہوئے۔ وہ ’’اختیارات‘‘ مانگتے ہیں، مگر جب ملتے ہیں تو عوامی خدمت کے بجائے ذاتی کاروبار چمکانے میں لگ جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کی شناخت کو ذاتی مفادات کا ہتھیار بنا دیا۔ وہ ایک نظریہ تھی، مگر اب ایک سیاسی دکان بن چکی ہے۔ کراچی کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اس کے نمائندے خود اس کی محرومی کے ذمے دار بن گئے۔ اب وقت ہے کہ کراچی کے عوام اٹھیں، ان سیاسی ترمیمی ماہرین کو مسترد کریں، اور ایک نئی سیاسی قوت کو جنم دیں جو کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا سکے، نہ کہ ترمیموں اور وزارتوں کا کھیل۔ یہی پیغام وقت کا تقاضا ہے: کراچی اب کسی ترمیم کا محتاج نہیں؛ اسے تحریک ِ خدمت کی ضرورت ہے، سیاست ِ تجارت کی نہیں۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم الزام تراشی اور نفرت کی سیاست بند کرے: شرجیل میمن
  • ڈیرہ اسماعیل خان اور شمالی وزیرستان میں 15 دہشت گرد ہلاک، کمانڈر عالم محسود بھی مارا گیا
  • جسٹس ثاقب نثار پی ٹی آئی اور عمران خان کے پیروکار تھے،شرجیل میمن
  • سندھ کی تقسیم مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، شرجیل میمن
  • افسوس ہوا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے استعفی دیا، شرجیل میمن
  • جنات، سیاست اور ریاست
  • کچھ عناصر نے نفرت، بغض اور انتشار کی سیاست کو فروغ دیا‘ رانا ثنا
  • ملکی استحکام کے لئے مزید ترامیم کرنا پڑیں تو بھی کریں گے، طلال چوہدری
  • پارلیمنٹ جب چاہے گی آئین میں ترمیم کرے گی، طلال چوہدری کا ججز کو واضح پیغام
  • ترمیمی سیاست کے ماہر؛ ایم کیو ایم اور کراچی کا دائمی المیہ