میں نےاپنا خواب ’والد کے خواب‘ پر قربان کر دیا، نوجوت سنگھ سدھو
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
سابق بھارتی کرکٹر، سیاستدان، کمنٹیٹر اور ریئلٹی شو جج نوجوت سنگھ سدھو نے انکشاف کیا کہ کرکٹ ان کا پہلا خواب نہیں تھا بلکہ وہ فوج میں جانا چاہتے تھے۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق کرکٹرسدھو نے بتایا کہ وہ بچپن سے فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے اور انہوں نے پہلی ہی کوشش میں انڈین ملٹری اکیڈمی(آئی ایم اے) کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ لیکن جب وہ جانے ہی والے تھے تو والد نے انہیں روک دیا۔
سدھو کے بقول،’میرے والد نے کہا، ’نہ جا… میں تیرے بغیر جی نہیں پاؤں گا۔ اس دن میں نے اپنا خواب قربان کیا اور والد کا خواب پورا کرنے کے لیے کرکٹ کو اپنا لیا۔‘
لیکن کرکٹ کا سفر بھی سدھو کے لیے آسان نہیں تھا۔ پہلی بار ٹیم انڈیا میں منتخب ہونے کے بعد جب وہ اچانک ڈراپ ہوئے تو ایک مشہور اخبار نے ان پر مضمون لکھا، ”نوجوت سنگھ سدھو: دی اسٹروکلَیس ونڈر“۔ یہ لقب ان کے لیے اور خاص طور پر ان کے والد کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔
سدھو نے بتایا، ’وہ پہلا موقع تھا جب میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا۔ میں دم بخود رہ گیا تھا۔‘
اس مایوسی کو سدھو نے اپنی ہار نہیں بننے دیا بلکہ محنت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ انہوں نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے والد کا فخربنیں گے۔
انہوں نے مزید کہا ، ’میں نے چار سال تک ایک فوجی طرز کی ڈسپلنڈ روٹین اختیار کی۔ صبح 3 بجے اٹھنا، پچ کی تیاری خود کرنا، روزانہ گھنٹوں پریکٹس کرنا اور 125 چھکے مارنا، چاہے ہاتھوں سے خون ہی کیوں نہ نکلے۔‘
سدھو نے خاص دستانے بھی بنائے جو خون کو جذب کر لیتے تھے۔ آخرکار 1987 میں وہ ورلڈ کپ اسکواڈ کے لیے منتخب ہوئے اور آسٹریلیا کے خلاف ڈیبیو میچ میں پانچ چھکے جڑ کر سب کو حیران کر دیا۔
اگلے میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف چھ چھکے لگا کر صرف دو میچوں میں 11 چھکوں کا ریکارڈ بنایا۔ انہوں نے لگاتار پانچ نصف سنچریاں بھی سکور کیں، جو کئی برسوں تک ورلڈ ریکارڈ رہا۔
سدھو کا کہنا ہے، ’زندگی میں کچھ بھی آسان نہیں ہوتا۔ سب کچھ خون، پسینہ اور آنسو مانگتا ہے۔‘
اب وہ اپنی انہی قربانیوں اور تجربات کو دوسروں کے لیے ایک سبق کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انڈیا’ز گاٹ ٹیلنٹ سیزن 11 میں جج کے طور پر وہ نوجوان ٹیلنٹ کو نہ صرف پرکھیں گے بلکہ انہیں حوصلہ بھی دیں گے۔
سیاست اور کرکٹ سے ریئلٹی ٹی وی تک کے سفر پر بات کرتے ہوئے سدھو نے کہا، ’اصل زندگی وہی ہے جو تب شروع ہوتی ہے جب آپ کچھ اور منصوبے بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ سیاست کبھی میرا پروفیشن نہیں تھا، یہ ایک مشن تھا۔ اب یہ نیا سفر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘
یاد رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے کیریئر میں کئی روپ اپنائے اور ہر میدان میں اپنی موجودگی درج کرائی۔ اب وہ ایک بار پھر ناظرین کو اپنی شخصیت اور تجربے سے متاثر کرنے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ وہ ملائکہ اروڑا اور شان کے ساتھ انڈیا’ز گاٹ ٹیلنٹ کے جیوری پینل میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ نیا سفر ان کے کثیر الجہتی کیریئر میں ایک اور نمایاں باب ثابت ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے سدھو نے کے لیے
پڑھیں:
ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں, سعد رفیق
لیگی رہنما نے کہا کہ جناب اطہر من اللہ ججز بحالی تحریک کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی سامنا، میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گنے چنے دیانتدار اور کھرے لوگوں میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، ایک زمانہ ان کی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ججز کے استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ سے مستعفی ہوگئے، اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی استعفیٰ دے کر اس صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب اطہر من اللہ ججز بحالی تحریک کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی سامنا، میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گنے چنے دیانتدار اور کھرے لوگوں میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، ایک زمانہ ان کی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے۔ اسی طرح جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار لاہور ہائیکورٹ میں اچھی ساکھ کے حامل ججز میں کیا جاتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ مستعفی ہونیوالے ججز کے عدالتی فیصلوں سے اختلاف اور ہمارے گلے شکوؤں سے قطع نظر ان جج صاحبان کی قابلیت اور عمومی انصاف پسندی کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شمس محمود مرزا پر سلمان اکرم راجہ سے رشتہ داری کا الزام عائد کرنا بھی طفلانہ حرکت ہے، ہمارے علم کے مطابق رشتہ داری کبھی ان کے کام میں خلل انداز نہیں ہوئی، صورتحال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر بھی سپریم کورٹ کے دو تین ججز استعفے دے چکے ہیں لیکن اب مستعفی ہونیوالے ججز کے استعفوں کو پہلے استعفوں کے ساتھ ملانا یا جوڑنا ناانصافی ہوگا، ہمارے نزدیک عدالتی توازن کیلئے ان حضرات کا دم غنیمت تھا۔ سابق وفاقی وزیر نے مزید لکھا کہ بطور ایک سیاسی کامریڈ مجھے ان جج صاحبان کے استعفوں پر دلی افسوس ہوا ہے، ججز کے تازہ ترین استعفوں کو دھڑے بندی کی سیاست کی عینک سے دیکھا جائے تو منظر سہانا دکھائی دیتا ہے لیکن غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔