مقررین نے پیغمبر اسلام (ص) کی نورانی تعلیمات اور سیرت کامل کو انساف و انسانیت سازی کا نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضور (ص) نے اپنے اخلاق اور سیرت و کردار سے دنیائے انسانیت کو ظلم و ظلمت کے دلدل سے نکال باہر کرکے انسانیت کو اسکی حقیقی مقام و منزلت سے ہمکنار کیا۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد

اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے انجمن کے صدر دفتر دارالمصطفی شریعت آباد بڈگام میں رحمۃً للعالمین (ص) کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں وادی کشمیر کی معتدد دینی شخضیات اور معززین نے شرکت کی انجمن شرعی شیعیان کے صدر مولانا آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے کانفرنس کی صدارت کی جبکہ نظامت کے فرائض مولانا نثار حسین والو نے انجام دئے، جن معززین نے کانفرنس میں شرکت کی اور اظہار خیال کیا ان میں میر واعظ کشمیر ڈاکٹر محمد عمر فاروق، مفتی اعظم جموں و کشمیر مفتی ناصر الاسلام،  آیت اللہ سید محمد عقیل الغروی، مولانا سید یوسف موسوی وغیرہ شامل ہیں جبکہ کانفرنس میں مولانا سید محمد حسین الموسوی، مولانا سید محمد صفوی، مولانا سید ارشد حسین موسوی، مولانا غلام محمد گلزار، ائمہ جمعہ ائمہ جماعت قصبہ بڈگام اور معزز شخصیات کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ایڈووکیٹ آغا سید منتظر مہدی الموسوی نے خطبہ استقبالیہ دیا۔ مقررین نے پیغمبر اسلام (ص) کی نورانی تعلیمات اور سیرت کامل کو انساف و انسانیت سازی کا نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضور (ص) نے اپنے اخلاق اور سیرت و کردار سے دنیائے انسانیت کو ظلم و ظلمت کے دلدل سے نکال باہر کرکے انسانیت کو اسکی حقیقی مقام و منزلت سے ہمکنار کیا، آپ کی ولادت باسعادت کے وقت کرہ ارض بالخصوص عالم عرب میں انسانیت سوی اور ظلم و جہالت کا دور دورہ تھا، صنف نازک کا وجود داو پر لگ چکا تھا اور جنگ و جدل عربوں کا معمول بن چکا تھا، آپ (ص) نے اپنے رحمت افشان کردار و عمل سے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا اور ان انسانیت سوز حالات کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ احترام انسانیت، حقوق البشر اور عدل و انصاف کو پیغمبر اسلام (ص) کی تعلیمات اور سیرت طیبہ کا نمایا پہلو قرار دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ آپ (ص) نے نہ صرف انسانوں بلکہ تمام حشرات ارض حتیٰ کہ جمادات کے حقوق تک مختض فرما کر رحمۃً للعالمین کا مظاہرہ کیا۔.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کانفرنس منعقد مولانا سید انسانیت کو اور سیرت

پڑھیں:

صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر قطر دوبارہ کسی بیرونی حملے کا نشانہ بنا تو امریکا نہ صرف اس کا دفاع کرے گا بلکہ جوابی فوجی کارروائی بھی کرے گا، جب کہ دوسری جانب اسرائیل نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کرتے ہوئے 200 سے زائد انسانی حقوق کے کارکن گرفتار کر لیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قطر کے دفاع سے متعلق جاری کردہ حالیہ ایگزیکٹیو آرڈر اور اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے عالمی قافلے ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر حملہ، دونوں واقعات ہمیں ایک بڑے اور گہرے سوال کی طرف لے جاتے ہیں اور وہ سوال ہے انسانی حقوق کا۔

عالمی انسانی حقوق کا تصور صرف کسی معاہدے یا قانون کی کتابوں میں درج نہیں بلکہ یہ انسان کی بنیادی عزت، بقا اور آزادی کا ضامن ہے۔ جب کسی ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے طاقت کا استعمال ہوتا ہے، تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس طاقت کے استعمال میں انسانی وقار اور بنیادی انسانی اصولوں کی پامالی نہ ہو۔

قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکا دونوں کے رویے پرکھل کر تنقید کرتے ہوئے جس جرأت اور اصولی مؤقف کا اظہار کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قطر نہ صرف سفارتی لحاظ سے ایک اہم طاقت بن چکا ہے بلکہ وہ اپنی خود مختاری اور قومی وقار پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔

نو ستمبر کو اسرائیل کی جانب سے قطر کی سرزمین پر کیا گیا فضائی حملہ، جس میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ایک قطری سیکیورٹی گارڈ شہید ہوا، محض ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ قطر کی خود مختاری پر براہِ راست حملہ تھا۔ قطر نے فوری ردعمل میں غزہ امن مذاکرات سے دستبرداری کا اعلان کیا اور ایک واضح پیغام دیا کہ وہ اپنی سلامتی کے خلاف کسی بھی اقدام کو برداشت نہیں کرے گا۔

اس ردعمل نے عالمی برادری کو چونکا دیا، جس کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے وزیر خارجہ کو قطر اور اسرائیل کے دورے پر بھیجنا پڑا تاکہ حالات کو سنبھالا جا سکے۔ بعد ازاں امریکی دباؤ پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، حملے پر افسوس کا اظہار کیا اور آیندہ اس قسم کی خلاف ورزی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

قطری وزیراعظم نے اس معذرت کو کوئی احسان نہیں بلکہ ایک فطری اور ناگزیر تسلیم قرار دیا اور کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں، مگر ایسا امن جو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور خود مختاری کو یقینی بنائے۔ ان کا یہ مؤقف اصولوں پر مبنی سفارت کاری کا عکاس ہے جو موجودہ دور میں کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔

اسی تناظر میں غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیلی حملہ ایک اور سنگین مثال ہے کہ کس طرح طاقت کا استعمال، اگر انسانی بنیادوں پر نہ ہو، تو وہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی بن جاتا ہے۔

اس قافلے میں شامل لوگ، جن میں وکلاء، صحافی، پارلیمنٹیرینز اور انسانی حقوق کے کارکنان شامل تھے،کسی عسکری مقصد کے تحت نہیں، بلکہ محصور عوام تک دوا اور خوراک پہنچانے کے مشن پر تھے۔ ان میں سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی موجودگی یہ واضح کرتی ہے کہ اس قافلے کا مقصد محض سیاسی یا علامتی نہیں، بلکہ خالص انسانی ہمدردی پر مبنی تھا، مگر جس طرح اسرائیلی بحریہ نے اس قافلے کو روکا، ان کشتیوں کو تحویل میں لیا اورکارکنوں کو گرفتارکیا، اس پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، عالمی انسانی حقوق کے اصولوں سے میل کھاتا ہے؟

اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز اور دیگر بین الاقوامی معاہدے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انسانی امداد کو سیاسی یا سلامتی کے نام پر روکا جائے۔انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ نہ صرف جنگ کے دوران بلکہ امن کے ادوار میں بھی عام شہریوں، بچوں، خواتین، مریضوں اورکمزور طبقات کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو، اگر کوئی ریاست اپنی سیکیورٹی کو بہانہ بنا کر انسانی امداد کو روکتی ہے تو یہ نہ صرف غیر انسانی رویہ ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

غزہ ایک عرصے سے ناکہ بندی کا شکار ہے، وہاں کے عوام بجلی، پانی، دوا اور خوراک جیسے بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ اس قافلے کا مقصد یہی کمی پوری کرنا تھا اور اس پر حملہ ایک ایسے عمل کی نمائندگی کرتا ہے جو انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔

دوسری جانب عالمی طاقتوں کا طرز عمل بھی مایوس کن ہے، وہ ممالک جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردارکہلاتے ہیں، ان کا رد عمل اکثر مفادات کے تابع ہوتا ہے، اگر کوئی حلیف ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر خاموشی اختیارکی جاتی ہے، جب کہ مخالف ریاست کے خلاف سخت بیانات اور پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔

یہی دہرا معیار انسانی حقوق کے تصور کو کمزورکرتا ہے۔ جب امریکا قطر کے دفاع کا وعدہ کرتا ہے، تو یہ سوال بھی لازم ہے کہ کیا یہی امریکا غزہ میں انسانی بحران کو ختم کرنے کے لیے بھی ویسی ہی سنجیدگی اختیار کرے گا؟ کیا انسانی حقوق صرف اس وقت اہم ہوتے ہیں جب وہ ہماری پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوں؟

انسانی حقوق کی اصل روح یہی ہے کہ وہ ہر انسان کے لیے برابر ہوں، چاہے وہ قطر میں ہو یا فلسطین میں، چاہے وہ طاقتور ہو یا بے بس۔ کوئی بھی اقدام، خواہ وہ فوجی ہو یا سفارتی، اگر انسانی حقوق کو نظر انداز کرتا ہے، تو وہ دیرپا امن، استحکام اور انصاف کو ممکن نہیں بنا سکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی صرف ظلم نہیں بلکہ عالمی ضمیر کی شکست ہے۔

دنیا بھر کے عوام، تنظیمیں اور ادارے اب اس بات کا ادراک کر رہے ہیں کہ طاقت کے اندھے استعمال سے نہ تو امن قائم کیا جا سکتا ہے، نہ عزت محفوظ رہتی ہے، اور نہ ہی انصاف ممکن ہے۔دنیا کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر کوئی قافلہ صرف خوراک اور دوا لے کر جا رہا ہو، اور اسے فوجی طاقت سے روکا جائے، تو یہ کس قسم کی دنیا ہے؟ ایسی دنیا جہاں انسانیت سے زیادہ اہمیت تزویراتی مفادات کو حاصل ہو، وہ نہ پائیدار ہو سکتی ہے اور نہ قابلِ رشک۔

دوسری جانب امریکی صدر کی جانب سے پیش کیا جانے والا امن منصوبہ، جسے خود قطر نے محض اصولوں کی ایک فہرست قرار دیا ہے، دراصل ایک ایسا خاکہ ہے جس میں فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات، خاص طور پر مشرقی یروشلم کی حیثیت، فلسطینی ریاست کی حدود، پناہ گزینوں کے حق واپسی، اور اسرائیلی بستیوں کے پھیلاؤ جیسے بنیادی مسائل کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ زمینی حقائق اور فلسطینیوں کے اجتماعی جذبات کے برعکس ہے۔ قطر کی طرف سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار ایک حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ اقدام ہے جو دنیا کے ان تمام حلقوں کو جھنجھوڑتا ہے جو اسرائیل کو ایک معمول کی ریاست تصور کرنے لگے ہیں۔ فلسطین ایک ایسا خواب ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید زخمی ہوتا جا رہا ہے۔

غزہ کی گلیوں میں کھیلتے بچے، جن کے ہاتھوں میں کھلونے کے بجائے ملبے سے نکالی گئی اشیاء ہوتی ہیں، ہر عالمی فورم سے ایک ہی سوال کرتے ہیں۔ ہمیں ہمارا حق کب ملے گا؟

اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی، بستیوں کا پھیلاؤ اور غزہ کا مسلسل محاصرہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ قطر جیسے ممالک کی جانب سے مسلسل امداد، صحت، تعلیم اور سفارتی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کو ابھی بھی کچھ ممالک کی اخلاقی اور انسانی حمایت حاصل ہے۔

قطرکی ثالثی کی پیشکش بلاشبہ ایک امید کی کرن ہے، لیکن اس میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسرائیل اکثر وقتی طور پر امن کی بات کرتا ہے مگر عملی طور پر اپنی طاقت کا استعمال جاری رکھتا ہے۔

قطر کو اپنے کردار میں انتہائی احتیاط، تدبر اور مضبوط اصولی مؤقف کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ اس کا کردار محض ایک سہولت کارکا نہ رہ جائے بلکہ حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بنے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی خاموشی بھی افسوسناک ہے۔

قراردادیں منظورکرنا، تشویش کا اظہارکرنا اور انسانی حقوق کی یاد دہانی کروانا سب بے سود ہو جاتا ہے جب اس کے بعد کوئی عملی اقدام نہ کیا جائے۔ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر اگر مؤثر کارروائیاں ہوتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری انصاف کے بجائے مصلحت کا شکار ہے۔تاہم ان تمام تر تلخ حقیقتوں کے باوجود قطر کی حالیہ سرگرمیاں، عالمی ضمیر کی بیداری کی کوششیں اور فلسطینی عوام کی مزاحمت یہ امید دلاتی ہے کہ شاید ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب انصاف طاقت سے بالاتر ہو گا۔

اگر قطر اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہتا ہے، دیگر مسلمان اور انصاف پسند ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں اور عالمی طاقتیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتی ہیں، تو ایک نیا باب رقم ہو سکتا ہے۔ ایسا باب جس میں امن صرف طاقتوروں کا استحقاق نہ ہو بلکہ مظلوموں کا بھی حق ہو۔

فلسطین کا مسئلہ کسی سرحدی تنازع سے بڑھ کر انسانیت کا مقدمہ ہے۔ جب تک عالمی برادری اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی اور سنجیدہ عملی اقدامات نہیں کرتی، تب تک مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔

قطر نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والے ممالک بھی اگر اصولوں پر ڈٹ جائیں تو عالمی طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ رکتی ہے، سوچتی ہے، اور نئے راستے کھلنے کی امید جگاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہرماہ گورنرہائوس میں مشاعرہ منعقد کریں گے۔ گورنرسندھ کا عندیہ
  • فرنٹیئر کور کے زیر اہتمام پشاور میں گرینڈ خیبر جرگے کا انعقاد
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • ایس ای سی پی نے رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے لیے مؤثر ریگولیٹری فریم ورک پر غور کے لیے مشاورتی سیشن منعقد کیا
  • ایران، روس اور آذربائیجان علاقائی تعاون پر اجلاس منعقد کرینگے
  • مقبوضہ کشمیر، سیرت النبی (ص) کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام شریک
  • پنجاب میں ایم ڈی کیٹ امتحان 26 اکتوبر کو منعقد ہوگا، انتظامات مکمل کر لیے گئے
  • صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
  • صمود فلوٹیلا، اسیر انسانیت اور یومِ کپور کی گونج