اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ غزہ میں دو سال سے جاری جنگ میں 42 ہزار افراد کو شدید زخم آئے ہیں جن میں پانچ ہزار لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے ان کے جسمانی اعضا کاٹے جا چکے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک غزہ کے 167,376 شہری زخمی ہوئے ہیں۔

شدید زخمی ہونے والوں کو بازوؤں اور ٹانگوں، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ پر چوٹیں آئی ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے جسم آگ میں جھلس گئے ہیں۔

ان زخمیوں کے لیے خصوصی سرجری اور بحالی کی خدمات فوری اور بڑے پیمانے پر درکار ہیں۔ جن زخمیوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر منتقل کرنے کی ضرورت ہے ان میں بیشتر کو چہروں پر اور آنکھوں میں چوٹیں آئی ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے زخم چہرے کے خدوخال بگاڑ دیتے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ دو سالہ تنازع نے غزہ کے نظام صحت کو تباہ کر دیا ہے اور شہری شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ تنصیبات کی دوبارہ تعمیر میں طویل عرصہ لگے گا لیکن لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی بحالی آسان نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ جسمانی بحالی کی خدمات صرف جنگ زدہ افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی ضروری ہیں جو غیر متعدی بیماریوں یا پہلے سے جسمانی معذوریوں کا شکار ہیں۔

WHO بیرون ملک علاج میں مدد

ڈائریکٹر جنرل نے بتایا ہے کہ 7,800 سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اب بھی 3,800 بچوں سمیت 15,600 سے زیادہ افراد طبی بنیاد پر انخلا کے منتظر ہیں۔

اب تک جن لوگوں کو علاج معالجے کے لیے غزہ سے باہر منتقل کیا گیا ہے ان میں بیشتر شدید زخمی، سرطان، دل کے امراض اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ علاوہ ازیں، پیدائشی نقائص کے حامل بچوں کو بھی علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔

ایسے زیادہ تر مریضوں مصر، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی، اردن اور یورپی یونین کے ممالک میں علاج کی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل نے ان ممالک کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا ہے اور مزید ملکوں سے بھی غزہ کے بیمار اور زخمی افراد کو قبول کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بھی ان مریضوں کے علاج کی سہولت بحال ہونی چاہیے۔ © UNRWA طبی کارکنوں کی ہلاکتیں

ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' سمیت مختلف اداروں کے امدادی کارکنوں نے غزہ کی جنگ میں نہایت مشکل اور غیرمحفوظ حالات میں کام کیا ہے جن میں کئی نے فرائض کی ادائیگی میں جان بھی قربان کر دی۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق، علاقے میں تقریبا 1,800 طبی اور کم از کم 543 امدادی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کو صحت کی سہولیات، علاج اور شفا پانے کا موقع ملنا چاہیے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ غزہ امن منصوبہ خوش آئند ہے جس پر عملدرآمد سے لوگوں کی تکالیف میں کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' دو سال سے غزہ میں موجود رہ کر لوگوں کو ضروری خدمات بہم پہنچا رہا ہے اور جنگ کے اختتام پر بھی علاقے میں موجود رہے گا تاکہ طبی نظام اور لوگوں کی صحت کو بحال کرنے میں مدد دی جا سکے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ لوگوں کی کے لیے غزہ کے

پڑھیں:

سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟

خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری تدریسی اسپتال، لیڈی ریڈنگ پشاور کی انتظامیہ نے اسپتال کے پرائیویٹ روم کے چارجز 10 ہزار روپے روزانہ مقرر کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: لیڈی ریڈنگ اسپتال کے زنانہ انتظار گاہ سے معذور بچی کی لاش برآمد

اسپتال کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اسپتال میں پرائیویٹ علاج کے لیے آنے والے مریضوں کے لیے پرائیویٹ رومز کی فیس میں اضافہ کیا گیا اور اب روم چارجز 10 ہزار روپے روزانہ ہوں گے۔

ترجمان ایل آر ایچ محمد عاصم خان نے نوٹیفکیشن کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پرائیویٹ روم ان مریضوں کے لیے ہیں جو وارڈ میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔

’روم چارجز پرائیویٹ مریضوں کے لیے ہیں’

اسپتال کے ترجمان محمد عاصم خان نے بتایا کہ ایل آر ایچ میں 80 کے قریب پرائیویٹ رومز ہیں اور مریض اپنی مرضی سے چارجز ادا کر کے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ کمرے پرائیویٹ مریضوں کے لیے ہیں جو شام کے وقت پرائیویٹ کلینک میں آتے ہیں اور داخل ہوتے ہیں۔

محمد عاصم خان نے بتایا کہ اسپتال میں صبح کے وقت او پی ڈی میں تمام علاج مفت ہے جبکہ ایمرجنسی 24 گھنٹے مفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ تدریسی اسپتالوں میں شام کے وقت پرائیویٹ علاج کی سہولت بھی موجود ہے جسے آئی بی پی پی کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ ہیرو 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مریض پرائیویٹ اوقات میں آتے ہیں اور اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کے وقت آئی بی پی پی میں فیس مقرر ہے اور پرائیویٹ علاج مفت نہیں ہوتا تاہم مریض کو صحت کارڈ کی مفت سہولت دستیاب ہے۔

محمد عاصم خان نے مزید کہا کہ پرائیویٹ رومز کے چارجز سے عام مریض کے علاج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اسپتال میں مفت علاج اور صحت کارڈ کی سہولت موجود ہے اور مریضوں کے لیے وارڈز بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مریضوں کے لیے وارڈز موجود ہیں اور سب کا ایک جیسا علاج ہوتا ہے جبکہ مذکورہ کمرے صرف ان کے لیے ہیں جو اپنی مرضی سے پیسے دے کر لینا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ کسی کو زبردستی پرائیویٹ روم میں داخل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ رومز کے پہلے بھی چارجز ہوتے تھے جو پہلے 3 ہزار روپے تھے جو اب 10 ہزار کر دیے گئے ہیں۔

کیا پرائیویٹ علاج بہتر رہتا ہے؟

ایل آر ایچ کے ترجمان نے بتایا کہ اسپتال میں تمام مریضوں کا ایک جیسا علاج ہوتا ہے اور جس ڈاکٹر کا مریض ہوتا ہے وہی چیک کرتا ہے۔

پرائیویٹ رومز میں صرف تھوڑی پرائیویسی ہوتی ہے جسے کچھ مریض ترجیح دیتے ہیں باقی میڈیکل سہولیات وہی ہیں جو عام وارڈ میں دستیاب ہیں۔

یہ سرکاری اسپتالوں کی پرائیویٹائزیشن ہے، ہیلتھ رپورٹر کاشان اعوان

ایل آر ایچ انتظامیہ کی جانب سے 10 ہزار روپے روم چارجز پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہیلتھ رپورٹر کاشان اعوان کے مطابق سرکاری اسپتال میں 10 ہزار روپے روم رینٹ ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سرکاری اسپتال کا مطلب مناسب قیمت پر بہتر علاج کرنا ہے نہ کہ کمائی کا ذریعہ۔‘

کاشان نے صوبائی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سنہ 2014 میں تبدیلی کے نام پر تدریسی اسپتالوں کو خودمختار بنایا اور بی او جی کو فیصلے کا اختیار دیا جبکہ تمام معاملات عمران خان کے کزن دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پشاور میں شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر اغوا، مغوی کے والد نے کیا بتایا؟

انہوں نے کہا کہ حکومت سالانہ ایل آر ایچ کو گرانٹ دیتی ہے اور صحت کارڈ سے بھی بہت زیادہ کمائی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود علاج مہنگا کیا جا رہا ہے۔

کاشان کے مطابق صبح کے وقت او پی ڈی کے لیے محدود تعداد میں ٹوکن دیے جاتے ہیں جبکہ 2 بجے کے بعد کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا اور مریضوں کو شام کے پرائیویٹ سیشن میں آنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو مہنگا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمارت سرکاری اور تمام سہولتیں بھی سرکاری ہیں لیکن فیسیں اتنی زیادہ کیوں ہیں؟

کاشان نے سوال کیا کہ کیا یہ کوئی فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو اسپتالوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور فیسوں میں اضافے سے پہلے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: بنیادی سہولیات سے محروم پشاور کا باڑہ شیخان پی ٹی آئی پر ایک سوالیہ نشان!

ہیلتھ رپورٹر نے کہا کہ ’یہ پرائیویٹائزیشن ہے جو پرویز خٹک دور میں تبدیلی کے نام پر شروع ہوئی تھی‘۔ انہوں نے مزید کہا پھر سرکاری اسپتالوں میں پرائیوٹ پریکٹس شروع کی گئی اور اب بھاری چارجز بھی عائد ہوگئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایل آر ایچ پرائیویٹ روم چارجز لیڈی ریڈنگ اسپتال لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور لیڈی ریڈنگ اسپتال روم چارجز

متعلقہ مضامین

  • سردار عبدالرحیم اسپتال میں زیر علاج، دعاؤں کی اپیل
  • بلوچستان، لسیبلہ میں مسافر بس اور ٹرک میں تصادم، 6 جاں بحق
  • بادشاہت نہیں جو چاہیں کریں، قانون دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ 
  • ہماری بادشاہت تو نہیں جو چاہے کردیں، قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے،جسٹس منصور علی شاہ کے کیس میں ریمارکس
  • اوتھل میں مسافر کوچ اور ٹرک کے درمیان خوفناک تصادم، 6 افراد جاں بحق
  • الزائمر اور پارکنسنز کے علاج میں ’آسٹروکیپسولز‘ نئی امید بن گئے
  • سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟
  • چھاتی کا سرطان: آگاہی، احتیاط اور بچاؤ کی ضرورت
  • کاش آپ پنجاب کی بیٹی پر تنقید کرنے سے پہلے اپنا ماضی دیکھ لیتے، عظمیٰ بخاری