اس سال کے اوائل میں شیفیلڈ کی رہائشی ریچل (فرضی نام) کو ایک شخص کے ساتھ تعلقات پر وضاحت کرنے کے لیے بات کرنی تھی لیکن انہوں نے اپنے دوستوں یا دیگر قریبی افراد کو شامل کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے رجوع کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ریچل نے بتایا کہ وہ کافی پریشان تھیں اور رہنمائی چاہتی تھیں لیکن اس معاملے میں اپنے دوستوں کو شامل نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

خاتون نے اوپن اے آئی کے ماڈل چیٹ جی پی ٹی سے رابطہ کیا۔ وہ ان کے مطابق ایک حوصلہ افزا اور تھراپی جیسی زبان میں ان سے گویا ہوا جس میں ‘حدود’ اور ‘اپنی شرائط پر فیصلہ کرنے’ جیسے الفاظ شامل تھے۔ ریچل کہتی ہیں کہ یہ مشورہ کسی حد تک کارآمد تھا لیکن وہ انہوں نے لفظ بہ لفظ نہیں لیا۔

ریچل اکیلی نہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکا کی جنریشن زیڈ (سنہ 1997 سے سنہ 2012 کے درمیان پیدا ہونے والے نوجوان) میں سے تقریباً نصف نے ڈیٹنگ مشورے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کا استعمال کیا ہے جو کسی اور نسل کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

لوگ اے آئی سے کس طرح مشورہ لے رہے ہیں؟

لوگ اپنے تعلقات کے مسائل اور پیغام رسانی کے انداز یہاں تک کہ بریک اپ میسجز تیار کرنے کے لیے بھی اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

ماہر نفسیات اور تعلقات کی ماہر ڈاکٹر للیتا سگلانی کے مطابق اے آئی ان افراد کے لیے مفید ہو سکتا ہے جو تعلقات میں بات چیت کے معاملے پر الجھن یا دباؤ کا شکار ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کسی شخص کو متن (میسج) تیار کرنے، الجھے ہوئے پیغام کو سمجھنے یا دوسرا نقطہ نظر حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے تاکہ ردعمل دینے کے بجائے پہلے سوچا جائے۔

ڈاکٹر للیتا کہتی ہیں کہ یہ کسی حد تک ڈائری لکھنے یا خود سے بات کرنے جیسا معاون ٹول بن سکتا ہے لیکن یہ حقیقی انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہونا چاہیے۔

خدشات اور خطرات

ڈاکٹر سگلانی خبردار کرتی ہیں کہ چونکہ اے آئی ماڈلز عام طور پر مددگار اور مثبت جواب دینے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لیے یہ بعض اوقات غلط پیٹرنز یا تعصبات کو بھی تقویت دے سکتے ہیں۔

اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بریک اپ میسج تیار کرنے کے لیے اے آئی استعمال کرنا شخص کو حقیقی جذبات سے سامنا کرنے کی بجائے بچاؤ کی عادت ڈال سکتا ہے۔ اس سے ان کی جذباتی ترقی رک سکتی ہے اور وہ اپنی بصیرت اور جذباتی زبان دوسروں پر ’آؤٹ سورس‘ کرنے لگتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وہ 5ممالک جو مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں

ایک اور خدشہ یہ ہے کہ اے آئی کے ذریعے لکھے گئے پیغامات اکثر احساسات سے خالی اور مشینی لگ سکتے ہیں جو تعلقات میں مزید بے اعتمادی یا اجنبیت پیدا کر سکتے ہیں۔

نئی خدمات اور پرائیویسی کا معاملہ

اسی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر می (Mei) جیسی مفت اے آئی سروسز سامنے آ رہی ہیں جو تعلقات کے مسائل پر گفتگو کی شکل میں مشورے دیتی ہیں۔ اس سروس کے بانی اور نیویارک کے رہائشی ایس لی کہتے ہیں کہ لوگ اس لیے اے آئی استعمال کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ خدمات ناکافی ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ اے آئی کے ذریعے تعلقات پر بات کرنے میں سیکیورٹی اور پرائیویسی کے خطرات بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ می  پر صارفین کی شناخت ظاہر کرنے والا ڈیٹا جمع نہیں کیا جاتا اور گفتگو 30 دن کے بعد حذف کر دی جاتی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی اوپن اے آئی کے مطابق ان کے نئے ماڈلز میں غیر صحت مند انحصار اور خوشامد سے بچنے کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے اور حساس سوالات پر ماہرین کی رہنمائی کے مطابق مناسب ردعمل دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر صارفین کو پیشہ ورانہ مدد لینے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف

ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کچھ حد تک رہنمائی ضرور دے سکتی ہے لیکن رشتوں میں حقیقی جذباتی قربت اور سیکھنے کے لیے انسانی رابطہ ہی اصل بنیاد ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی سے مشورے مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت سے مشورے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اے ا ئی سے مشورے مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت سے مشورے مصنوعی ذہانت انہوں نے کے مطابق کرنے کے رہے ہیں سکتا ہے اے ا ئی اے آئی ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

تاج محل کو مندر بنانے کی سازش؟ پاریش راول کی فلم کے پوسٹر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا

بالی ووڈ کی فلمیں بھی مذہبی منافرت پھیلانے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اکسانے پر مبنی بن رہی ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ کی آنے والی فلم ’دی تاج محل اسٹوری اپنے ٹریلر کے اجرا ساتھ ہی تنازع کا شکار ہوگئی۔

فلم کے پوسٹر میں اداکار پاریش راول کو تاج محل کے گنبد سے ہندو دیوتا شیو کا مجسمہ نکالتے ہوئے دکھایا گیا۔

جس کے بعد نہ صرف مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے افراد نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے تاج محل کو ایک اور بابری مسجد بنانے کی سازش قرار دی۔

تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم اس دعوے کو تقویت دیتی ہے کہ تاج محل کی جگہ پہلے ہندو مندر تھا۔

سوشل میڈیا پر بھی صارفین کا کہنا تھا کہ یہ فلم تاریخی حقائق کو مسخ کر کے ہندو مسلم تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔

ابتدا میں ہی اتنی مخالفت کو دیکھتے ہوئے فلم کی ٹیم نے وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلم میں یہ نہیں دکھایا گیا کہ تاج محل دراصل شیو مندر ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کہانی کا مقصد کسی مذہبی تنازع کو ہوا دینا نہیں۔ فلم ’’تاریخی حقائق پر مبنی‘‘ ہے۔

ادھر فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پاریش راول نے کہا کہ لوگوں کو دوسروں کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے فلم دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیئے۔

خیال رہے کہ فلم کی نمائش 31 اکتوبر 2025 کو سینما گھروں میں متوقع ہے۔

Is this a Joke??
Now the joker of Indian Cinema is releasing a trailer showing God Shiva emerging out of the Taj Mahal.

A country which claims to be the 4th Largest Economy is so much indulged in propaganda and fantasy that even Propaganda will feel ashamed.#TheTajStory pic.twitter.com/7QSJla7VX8

— D (@Deb_livnletliv) September 29, 2025

متعلقہ مضامین

  • ’گو ٹیلی کمیونیکیشنز گروپ‘ کا پاکستان میں اے آئی ہب قائم کرنے کا فیصلہ
  • روس پر پابندی لگی تھی تو اسرائیل پر کیوں نہیں؟ قانونی ماہرین کا اسرائیلی فٹ بالز کلبز پر پابندی کا مطالبہ
  • امریکی مصنوعی ذہانت کی کمپنی انتھروپک نے نیا چیف ٹیکنالوجی آفیسر مقرر کردیا
  • چین اور سنگاپور اہم تعاون کرنے والے شراکت دار ہیں، چینی صدر
  • ریاض: وفاقی وزیر شزہ فاطمہ سعودی ڈیٹا و مصنوعی ذہانت اتھارٹی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ بن شرف الغامدی سے ملاقات کررہی ہیں
  • تاج محل کو مندر بنانے کی سازش؟ پاریش راول کی فلم کے پوسٹر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا
  • نیٹ فلکس کی سبسکرپشن ختم کرنے کی مہم کیوں چل رہی ہے؟
  • بلال اظہر کی صدر یو اے ای سے ملاقات، دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ  
  • طبی نسخے، ہائیکورٹ نے ڈاکٹروں کو لکھائی بہتر کرنے کا حکم کیوں دیا؟