بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2025 کے پہلے 6 ماہ یعنی جنوری سے جون 2025 تک 2 لاکھ 42 ہزار 337 پاکستانی ملازمتوں کے حصول کے لیے سعودی عرب گئے۔ بیرونِ ملک ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی کل تعداد کا یہ 70 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر اِس وقت 26 لاکھ 40 ہزار پاکستانی سعودی عرب میں ملازمتیں کرتے ہیں اور سعودی عرب پاکستان کے لیے زرمبادلہ ترسیلاتِ زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے شروع کیا گیا وژن 2030 جو کہ ایک ہمہ جہت بے مثال ترقیاتی منصوبہ ہے پاکستانی اُس وژن کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں میں بھی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔ 2023 سے اب تک قریباً 12 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ برادرانہ رشتوں کا تسلسل ہے، وزیراعظم شہباز شریف

25 ستمبر کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخ ساز دفاعی معاہدہ طے پایا جس کے تحت پاکستان اور سعودی عرب اب نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس سال کسی بھی وقت پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں اور اِس دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے مابین نہ صرف زرعی، صنعتی بلکہ دفاعی پیداوار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبے شروع ہونے کا اِمکان بھی ہے۔

وژن 2030 اور دفاعی تعاون، پاک سعودی تعاون کا ممکنہ منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے؟

اس ممکنہ منظر نامے کے تحت پاک سعودی تعاون میں دفاعی شعبے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہیلتھ، زراعت، فوڈ سیکیورٹی کے منصوبے شامل ہیں۔

پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟

سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں بڑھے گی، جس سے نئے کارخانے، ٹیکنالوجی پارکس اور اکنامک زونز بنیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب میں ملازمتوں کے نئے مواقع کھلیں گے، پاکستانی برآمدات مثال کے طور پر خوردنی اشیا، ٹیکسٹائل، انجینیئرنگ مصنوعات کے لیے سعودی مارکیٹ کھلے گی، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اپ گریڈ اور مشترکہ تحقیقاتی ادارے قائم ہوں گے۔

مشترکہ دفاعی پیداوار کا اِمکان

اس سال اپریل میں سعودی نائب وزیرِدفاع طلال بن عبداللہ العتیبی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں مشترکہ فوجی مشقوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار پر بھی اِتفاق کیا گیا تھا۔ اُن ملاقاتوں میں سعودیہ کی جانب سے کہا گیا کہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ، ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر تیار کرنا یعنی لوکلائزیشن کو بھی دفاعی معاہدے کا حصہ بنایا جائےگا۔

اگر دیکھا جائے تو اِس دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اِس سے پہلے وژن 2030 کے تحت جو تعاون چل رہا تھا اُس میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار شروع ہونے سے جو نئے منصوبے شروع ہوں گے اُن میں پاکستانیوں کے لیے مزید ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

دفاعی صنعت میں مشترکہ منصوبے جیسا کہ مشینری، ڈرون، ٹیکنالوجی، اسلحہ، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ساتھ ساتھ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ممکن فوکس ہوں گے جس سے پاکستانی انجینیئرز اور ٹیکنیشنز کو ملازمتیں ملیں گی، اور پاکستان اپنی دفاعی پیداوار کی برآمدات کو بڑھا بھی سکے گا۔

پاک سعودی تعاون پر ماہرین کیا کہتے ہیں

واشنگٹن ڈی سی میں وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوب ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اِس معاہدے سے پاکستان ایک بہت بہترین پوزیشن میں آ گیا ہے۔ بھارت اب پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اب سعودی عرب، چین اور ترکیہ جیسی تین اہم طاقتیں ہیں اور اِس وقت پاکستان ایک بہترین جگہ ہے۔

پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں پاکستان کے معروف تجزیہ نگار مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ 1974 کے لاہور اِسلامک سمٹ کے بعد یہ پاکستان کا اہم ترین معاہدہ ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا وژن 2030 کیا ہے؟

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مسلم دنیا کے ایک انتہائی متحرک اور فعال رہنما ہیں، اور مملکتِ سعودی عرب کی کئی نئی پالیسیوں کے معمار ہیں۔

محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود زمام حکومت سنبھالنے سے اب تک سعودی عرب کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کر چکے ہیں جس میں سب سے بڑھ کر سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت اور دنیا کے امن میں سعودی عرب کا کردار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت سعودی معیشت کو تیل کی معیشت سے آگے بڑھا کر ایک ہمہ جہتی معیشت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس میں سیاحت، صنعت اور زراعت کے فروغ کے کئی منصوبے شامل ہیں۔

اُن کے وژن 2030 کے تحت سعودی عرب میں سماجی حوالوں سے کئی اہم تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں جن میں خواتین کے حقوق میں بہتری سمیت کئی اہم اقدامات شامل ہیں۔

اُن کے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز 2015 میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے تو 21 جون 2017 کو محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا۔ لیکن ولی عہد بننے سے قبل ہی وہ 2015 سے شاہ سلمان کی کابینہ کا حصہ تھے۔ وہ اُس وقت وزیردفاع کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور ترقیاتی کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

محمد بن سلمان 2015 سے ہی حکومتی اُمور چلانے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے اور 2017 میں اُنہیں باقاعدہ ولی عہد نامزد کر دیا گیا۔

سعودی ویژن 2030، 3 ہزار ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب کی معیشت، ثقافت، سیاحت اور طرز زندگی کو بدلنے کا ایک منصوبہ ہے جس کے نتیچے میں سینکڑوں منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔

اس منصوبے کے بنیادی اجزا میں مالیاتی اداروں کی ترقی، خود انحصار معیشت، صحت عامہ کے شعبے میں تبدیلیاں، گھروں کی تعمیر، انسانی وسائل کی ترقی یا دوسرے معنوں میں انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی، صنعت اور نقل و حرکت کے ذرائع کی ترقی، زرعی خود انحصاری، حج اور عمرہ زائرین کے لیے سہولیات کی دستیابی، نجکاری، عوامی سرمایہ کاری کے منصوبے اور معیار زندگی کو بہتر کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔

اس ویژن کے تحت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب قدیہ میں تفریحی سرگرمیوں بشمول پرفارمنگ آرٹ، کھیل اور ثقافت کا ایک بہت بڑا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کے مغرب میں واقع بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں اور جزیروں میں بیچ ریزارٹ بنائے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کا ایک بہت بڑا حصہ نیوم سٹی ہے جہاں پر 100 فیصد قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کر کے ایسا شہر بسایا جائے گا جو کرہِ ارض کے قدرتی ماحول کو آلودگی اور دیگر نقصانات سے محفوظ رکھے گا۔

اسی طرح سے سعودی شہریوں کے لیے گھروں کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے شہر آباد کیے جائیں گے۔ سعودی عرب میں تاریخی مقامات کی سیر کے لیے بہتر ماحول بنایا جائے گا۔ صحت کی شعبے کی بہتری اور لوگوں کو موروثی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سعودی جینوم پروگرام شروع کیا گیا ہے۔

ویژن 2030 ایک ایسا پروگرام ہے جو سعودی عرب کے لائف اسٹائل کو بالکل بدل کے رکھ دے گا اور اس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ کام کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف

محمد بن سلمان کی معاشی اصلاحات

سعودی گیزٹ کی ایک خبر کی مطابق اس وقت کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سعودی معیشت کا 15.

6 فیصد حصہ ہے، سال 2023 میں سعودی عرب کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکسپورٹس کا حجم 76.1 فیصد بڑھ گیا تھا اور اُس کا مجموعی حجم 11.8 ارب ڈالر تھا۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت کس طرح سے سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر منحصر معیشت سے دوسروں شعبوں کی طرف منتقل کررہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پاک سعودیہ تعلقات پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ترسیلات زر سعودی وژن 2030 سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک سعودیہ تعلقات پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ترسیلات زر سعودی وژن 2030 سعودی ولی عہد وی نیوز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور سعودی عرب اس کے ساتھ ساتھ دفاعی پیداوار وژن 2030 کے تحت دفاعی معاہدہ کے لیے سعودی سعودی عرب کی سعودی عرب کے پاکستان کے پاک سعودی کے منصوبے شامل ہیں ہوں گے

پڑھیں:

تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان غزہ و کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے: سلمان اکرام راجہ

سلمان اکرام راجہ—فائل فوٹو

تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان و پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرام راجہ کا کہنا ہے کہ تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان غزہ کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے، ہم کشمیری عوام کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، ان سے مذاکرات کیے جائیں۔

اسلام آباد میں تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں امدادی سامان لے جانے والے بیڑے کو اسرائیل نے قبضے میں لے لیا ہے۔

سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت جبر سے نہیں چل سکتی، نوجوان نسل بیرونِ ممالک جا رہی ہے، یہاں دن بدن مہنگائی بڑھ رہی ہے، ملک میں گندم کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ کی ضمانت منظور

پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجاکی ضمانت منظور کرلی۔

اس موقع پر سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ ملا ہوا ہے، غزہ میں ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا، فلسطین میں بچوں اور عورتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ امریکی صدر کے 20 نکاتی امن منصوبے میں امن کی کوئی بات نہیں، ٹرمپ کے 20 نکاتی ایجنڈے کی وزیرِ اعظم پاکستان نے تعریف کی، وزیرِ اعظم نے ایجنڈا پڑھے بغیر ہی اس کی تعریفیں کرنا شروع کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ خارجہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ وہ امن منصوبہ نہیں جو ہم نے دیکھا تھا، پاکستان کو اس ایجنڈے میں شامل نہیں ہونا چاہیے، کمشیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے 38 مطالبات عوامی ہیں۔

مصطفیٰ نواز کھوکھرکا کہنا ہے کہ کشمیریوں کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ مہاجرین کی 12 نشستیں ختم کی جائیں، کشمیر کی صورتحال پر وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کو مستعفی ہو جانا چاہیے، کشمیر میں حقیقی قیادت کے لیے نئے انتخابات کی طرف جانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی پاک دفاعی معاہدہ اسٹریٹیجک، معیشت اور خوشحالی کا احاطہ کرتا ہے، سیکیورٹی حکام
  • سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ سید عاصم منیر کی وجہ سے ممکن ہوا، طلال چودھری
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ممکن نہیں تھا: طلال چوہدری
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ناممکن تھا، طلال چوہدری
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ کے بعد کئی ملکوں نے شمولیت کااظہار کیا،وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستان 57اسلامی ممالک کی قیادت کرے،اسحاق ڈار
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف
  • غزہ و کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، سلمان راجا
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی اسٹرٹیجک معاہدہ
  • تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان غزہ و کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے: سلمان اکرام راجہ