اسلام ٹائمز: ان 54 سالوں میں 56 صدور منتخب کرنے کے دوران اس کاروانِ الہیٰ کے خلاف کئی سازشیں ہوئیں، کئی طوفان اُٹھے، کئی آندھیاں چلیں، اپنوں کی طرف سے بھی اور دشمنوں کی طرف سے بھی۔ اس کارواں کے مخلص اور باعمل راہنماؤں کو سازشی، باغی، ڈکٹیٹر اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا گیا، دفاتر پر قبضے کیے گئے، ریکارڈ اُٹھوائے گئے اور وہ کچھ کیا گیا، جو کچھ کیا جاسکتا تھا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی روزِ اول کی رعنائی کی حفاظت کرتے اور اپنے شفاف چہرے کے اُجلے پن کو ساتھ لیے پوری شان و شوکت کے ساتھ اس کے غیور، باشعور، باحوصلہ، باعظمت، باہمت اور باکردار عہدیداران و کارکنان آج بھی مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر گنگناتے نظر آتے ہیں کہ "ساری سڑکوں پہ اجارہ ہے ہنرمندوں کا، موڑ پر عشق کی چھوٹی سی دکان آج بھی ہے" تحریر: محمد اشفاق شاکر
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان وطنِ عزیز میں شیعہ طلبہ کی واحد نمائندہ تنظیم ہے کہ جو گذشتہ نصف صدی سے امامیہ طلباء کو تعلیمات محمد و آل محمد علیھم السلام کی روشنی میں معاشرے کا ایک باکردار اور مفید شہری بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی بنیاد 1972ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں کچھ مخلص علماء کی نگرانی میں چند باعمل و باکردار اور درد دل رکھنے والے طلباء نے رکھی۔ اس تنظیم کی بنیاد رکھنے والے اُن مخلص طلباء میں ایک بہت معروف نام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا تھا کہ جو اپنی شہادت کے وقت تک اس الہیٰ تنظیم کی نگرانی اور رہنمائی میں اس حد تک مصروفِ عمل رہے کہ ان کی ذات کو ہی تنظیم سمجھا جانے لگا بلکہ بعض اوقات تو ناقدین یہاں تک کہہ دیتے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس تنظیم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
لیکن ڈاکٹر صاحب ان بے تکے اور جھوٹے الزامات کو کبھی بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس تنظیم کی نگرانی اور راہنمائی کا فریضہ اس انداز سے نبھاتے رہے کہ آپ کی شہادت کے 30 سال بعد بھی نوجوان ان کو اسی طرح اپنا نگران اور راہنماء سمجھتے ہیں، جس طرح ان کی زندگی میں سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر شہید اپنی شہادت کے 30 سال بعد بھی ان جوانوں کے دلوں میں اسی طرح زندہ ہیں، جو ان کی شھادت کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ شاید ان کے والدین کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں۔ اسی طرح کچھ بزرگ علماء جو اس تنظیم کی بنیادوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ شامل تھے، ان میں محسن ملت جناب علامہ صفدر حسین نجفی، جناب مولانا مرتضیٰ حسین صدر الفاضل اور جناب علامہ اغا علی موسوی کا نام سرفہرست ہے۔ یہ سارے بزرگان بھی اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس الہیٰ تنظیم کے ساتھ ایک سایہ دار شجر کی طرح وابستہ رہے۔
اپنے قیام کے بعد اس تنظیم نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ایک طالب علم جناب سید مرغوب حسین زیدی مرحوم کو اپنا پہلا مرکزی صدر منتخب کیا اور اس کے بعد سے اب تک ہر سال بغیر کسی ناغے کے اس تنظیم کا مرکزی صدر منتخب ہوتا چلا آرہا ہے۔ ہر سال ایک انتہائی بھرپور قسم کا مرکزی کنونشن منعقد ہوتا ہے، جو کہ عموماً تین روزہ کنونشن ہوتا ہے۔ یہ کنونشنز تنظیم کے قیام سے لے کر اب تک مسلسل منعقد ہو رہے ہیں، جو 2012ء تک لاہور کی معروف دینی درسگاہ جامعۃ المنتظر میں منعقد ہوتے تھے، لیکن جب جامعۃ المنتظر میں نئی تعمیرات کا سلسلہ ہوا تو کنونشن کو وہاں سے ابتدا میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے مرقد پر منعقد کیا گیا اور بعد ازاں کچھ عرصہ تک جامعۃ المصطفیٰ فیروز پور روڈ لاہور میں منعقد ہوتے رہے، جبکہ آخری دو کنونشن یعنی 2024ء اور بعد میں 2025ء کا حالیہ کنونشن جامعہ امام صادق علیہ السلام جی نائن ٹو کراچی کمپنی اسلام آباد میں منعقد ہوئے ہیں۔
54 سال سے منعقد ہونے والے مرکزی کنونشن کو ہر سال ایک مخصوص نام دیا جاتا ہے، جیسے کہ حالیہ آخری کنونشن کو "شہید مقاومت کنونشن" کے نام سے منعقد کیا گیا اور پھر اسی نام کے ساتھ ڈویژن/ریجن، ضلع اور یونٹ کی سطح پر کنونشن منعقد ہوتے ہیں۔ اگرچہ مرکزی کنونشن کے دوران تنظیم کے اصول اور دستور کے مطابق طلباء کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت خوبصورت تنظیمی اور تربیتی پروگرام منعقد ہوتے ہیں، جن میں حالات حاضرہ سے متعلق کانفرنسز، تعلیمی سیمینارز، سٹڈی سرکل وغیرہ شامل ہوتے ہیں، لیکن مرکزی کنونشن کا سب سے اہم اور ضروری پروگرام نئے مرکزی صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ تنظیم کے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 56 مرکزی صدور کا انتخاب ہوچکا ہے کہ جن کا تعلق مختلف علاقوں اور مختلف تعلیمی اداروں کے مختلف شعبوں سے تھا۔
امامیہ طلباء نے ابھی چند دن پہلے تنظیم کے 54 ویں کنونشن میں برادر سید امین الحسن شیرازی کو اپنا نیا مرکزی صدر منتخب کیا، جو کہ اس الہیٰ کارواں کے 56ویں مرکزی صدر ہیں۔ سید امین الحسن شیرازی کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع اورکزئی سے ہے اور انہوں نے ایبٹ آباد یونیورسٹی سے بی ایس مکمل کرنے کے بعد اب مزید تعلیم کے لیے لاہور سکونت اختیار کرلی ہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی اس نصف صدی سے زائد کی تاریخ میں اب تک منتخب ہونے والے 56 مرکزی صدور کا تعلق ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں سے تھا، جن کو تعداد کے لحاظ سے یوں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد 11، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور 9، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد 6، پنجاب یونیورسٹی لاہور 4، بہاؤدین زکریا یونیورسٹی ملتان 3، کراچی یونیورسٹی 2، پشاور یونیورسٹی 2، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج 2، ملتان لا کالج ملتان 2، جبکہ اورینٹیل کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور، ڈینٹل کالج لاہور، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، یونیورسٹی آف لاہور، مسلم لا کالج راولپنڈی، نشتر میڈیکل کالج ملتان، موسیٰ پاک لا کالج ملتان، نمل یونیورسٹی اسلام آباد، نمل یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور این ایف سی یونیورسٹی ملتان سے ایک ایک مرکزی صدر منتخب ہوا ہے۔
ویسے تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے پلیٹ فارم پر اب تک 56 مرتبہ مرکزی صدور کا انتخاب ہوجکا ہے، لیکن منتخب ہونے والے صدور کی تعداد اس لحاظ سے 56 نہیں بنتی کہ بعض بزرگان و برادران کو دو مرتبہ یہ عہدہ سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا، جن 12 بزرگان و برادران کو دو مرتبہ مرکزی صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، ان میں برادر سید علی نقی ثاقب نقوی المعروف ثاقب اکبر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، برادر سید امتیاز علی رضوی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، برادر سید راشد عباس نقوی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، برادر ساجد رضا تھہیم مسلم لاء کالج راولپنڈی اور موسیٰ پاک لا کالج ملتان، برادر سید شوکت علی شیرازی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، برادر سرفراز حسین الحسینی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، برادر بشارت علی قریشی ملتان لا کالج ملتان، برادر سید ناصر عباس شیرازی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، برادر رحمن شاہ کراچی یونیورسٹی، برادر اطہر عمران زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، برادر عارف علیجانی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، برادر حسن عارف پنجاب یونیورسٹی لاہور شامل ہیں، جبکہ 32 بزرگان و برادران نے ایک ایک مرتبہ اس ذمہ داری کو نبھایا۔
ان 54 سالوں میں 56 صدور منتخب کرنے کے دوران اس کاروانِ الہیٰ کے خلاف کئی سازشیں ہوئیں، کئی طوفان اُٹھے، کئی آندھیاں چلیں، اپنوں کی طرف سے بھی اور دشمنوں کی طرف سے بھی۔ اس کارواں کے مخلص اور باعمل راہنماؤں کو سازشی، باغی، ڈکٹیٹر اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا گیا، دفاتر پر قبضے کیے گئے، ریکارڈ اُٹھوائے گئے اور وہ کچھ کیا گیا، جو کچھ کیا جاسکتا تھا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی روزِ اول کی رعنائی کی حفاظت کرتے اور اپنے شفاف چہرے کے اُجلے پن کو ساتھ لیے پوری شان و شوکت کے ساتھ اس کے غیور، باشعور، باحوصلہ، باعظمت، باہمت اور باکردار عہدیداران و کارکنان آج بھی مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر گنگناتے نظر آتے ہیں کہ
ساری سڑکوں پہ اجارہ ہے ہنرمندوں کا
موڑ پر عشق کی چھوٹی سی دکان آج بھی ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان زرعی یونیورسٹی فیصل آباد یونیورسٹی اسلام آباد یونیورسٹی لاہور کی طرف سے بھی یونیورسٹی آف منعقد ہوتے تنظیم کی تنظیم کے محمد علی کیا گیا کچھ کیا کے ساتھ آج بھی
پڑھیں:
انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر فیصل قیوم ماگرے کی وفد کے ہمراہ سید آفتاب عظیم بخاری سے ملاقات
ملاقات کے دوران اے ٹی آئی کے مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہتر جمہوری روایات وکلچر کے فروغ کیلئے ''طلبہ یونین'' پر عائد پابندی ختم کرکے طلبہ کو اپنے جمہوری حق کیلئے ''ایس او پیز'' کے ساتھ یونین کے الیکشن کروانے کی اجازت دی جائے، تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں پر تعلیمی اداروں میں مداخلت پر پابندی لگا کر صرف طلبہ کو تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدرفیصل قیوم ماگرے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے سیاسی جماعتوں کا پہلا ایجنڈا مضبوط ومستحکم پاکستان ہونا چاہیے۔ تعلیمی نظام اور اداروں میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ''طلبہ یونین'' پر عائد پابندی ختم کی جائے، پاکستان کے تمام مسائل وبحرانوں کا واحد حل قانون و آئین کی بالادستی قائم کرنے میں ہے۔ ملک وقوم کے درمیان بداعتمادی ونفرت پیدا کرنے والے کردار بے نقاب کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، ریاست جب ماں کا کردار ادا کریگی تو قوم اس کے گرد محبت سے اکٹھی ہوجائے گی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان فلاح پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین سید آفتاب عظیم بخاری نے انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر فیصل قیوم ماگرے کی قیادت میں ملنے والے ذمہ داران سے ملاقات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں ظلم وجبر زور زبردستی فسطائیت کا رویہ ہوگا تو نفرتوں کو تقویت ملے گی جو کہ ملک وقوم کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ملک وقوم کے دشمن کا ایجنڈا انتشار و افتراق ہے، ہمیں بحیثیت قوم مکمل اتحاد واتفاق سے ملک کے خلاف ہونیوالی ہر سازش کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کی بہتری تعمیر وترقی، خوشحالی، استحکام و فلاح ہمار اپہلا اور آخری ''ایجنڈا'' ہونا چاہیے کیوں کہ یہ وطن کسی خاص گروہ، طبقے، قوم و نسل کا نہیں بلکہ ہم سب کے آباو اجداد کی محنت وقربانیوں کا ثمر ہے، ہمیں اپنے آباو اجداد کی وراثت کو ازحد جان عزیز رکھنا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بہتر جمہوری روایات وکلچر کے فروغ کیلئے ''طلبہ یونین'' پر عائد پابندی ختم کرکے طلبہ کو اپنے جمہوری حق کیلئے ''ایس او پیز'' کے ساتھ یونین کے الیکشن کروانے کی اجازت دی جائے، تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں پر تعلیمی اداروں میں مداخلت پر پابندی لگا کر صرف طلبہ کو تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیوں کی اجازت اور انتخابات کروانے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس موقع پر مرکزی نائب صدر اے ٹی آئی محمد عرفان ساہمل، ناظم پنجاب ملک عمیر اعوان، سابق صدر اے ٹی آئی معظم شہزاد ساہی، ناظم جامعہ زرعیہ حیدر علی چدھڑ، ملک ساجد اظہر و دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔