Express News:
2025-10-06@22:48:25 GMT

زباں فہمی263 ؛  کچھ ’نکاتِ سخن ‘ کے بارے میں، (حصہ سِوُم)

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

[email protected]

(گزشتہ سے پیوستہ)

حرف’ہ‘ (جاری)

ا)۔ ’’ہینگے‘‘ بجائے ’ہیں‘، مثلاً میرؔ:

قیدِحیات، قید کوئی سخت ہے کہ روز

مر رہتے ہینگے اُن کے گرفتار، ایک

دوب)۔ ’’ہیگا‘‘ ، مثلاً آبروؔ:

سخن سنجان میں ہیگا آبروؔ آج

نہیں شیریں سخن، شاکر سری کا

(یعنی شاکرؔ کے مانند)

راقم وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ شاکرؔ ، آبروؔ کے معاصر تھے جبکہ دکن میں ایک شاکرؔ اور ہوگزرے ہیں۔

یہاں حسرتؔ نے لکھا ہے کہ ’’پرانے لوگ کبھی کبھی اب بھی ہیگا اور ہینگے بول جاتے ہیں‘‘۔ معاملہ یہ ہے کہ اردو معیاری زبان یا روزمرّہ میں تو اِس کا استعمال ترک ہے، البتہ عوامی بولی ٹھولی یا Slangمیں کہیں کہیں سُننے کو مل جاتا ہے، کہیں کہیں یہ بطور تکیہ کلام بھی بولا جاتا ہے، جبکہ پنجابی میں (معیاری غیرمعیاری کی بحث سے قطع نظر) بدستور رائج ہے۔ اس موضوع پر ماضی میں خاکسارنے ایک مضمون بہ سلسلہ ’زباں فہمی‘ (نمبر150) لکھا تھا جو 07 اگست 2022ء کو شایع ہوا تھا اور ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹ پر موجود ہے:

https://www.

express.pk/story/2357286/ zban-fhmy-150-hyga-mwjwd-he-ga-235728

اس مضمون کا ایک اہم اقتباس پیش ِ خدمت ہے:’’زباں فہمی نمبر 147 (تذکرہ امروہہ کے شعراء کا، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 17جولائی 2022ء) میں یہ پیرا، ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور بزم تحقیق برریختہ میں ایک نئی گفتگو کا باعث بنا جسے بحث کا درجہ بہرحال نہیں دے سکتے۔ پہلے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: رئیس امروہوی نے بھی برملا اس اَمر کا اعتراف کیا کہ ''اردو کا پہلا مثنوی نگار، میرا ہم وطن، اسمٰعیل امروہوی تھا''۔ (مجلہ حضرت سید حسین شاہ شرف الدین شاہ ولایت، 1976، ص ۱۱)۔ اسمٰعیل امروہوی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے:

وطن امروہہ میرا ہے شہر کا نام

اسی جائے پر میرا ہے گا قیام

(قدیم اردو بشمول دکنی میں 'ہے گا' مستعمل تھا، بعد میں متروک ہوگیا اور مدتوں بعد، پاکستان ٹیلی وژن کے کٹھ پتلی تماشا فن کار، فاروق قیصر نے اپنے پروگرام کے ذریعے زندہ کیا)‘‘۔

اردو زبان کے الفاظ کی جمع ’ون‘ کی بجائے ’ان‘ سے:

یہاں حسرتؔ موہانی نے یہ اہم نکتہ تفصیل سے بیان نہیں کیا جو راقم سہیل عرض کرتا ہے کہ یہ اصل میں قدیم رواج کے مطابق (جو پنجابی میں آج تک زندہ ہے )، فارسی کے قاعدے سے ہے کہ ’بھوں‘ کی جمع ’بھوؤں‘ کی بجائے ’بھواں‘ اور زلف کی جمع ’زلفوں‘ کی بجائے ’زلفاں‘ بناتے تھے۔ پنجابی میں آج بھی گلّاں باتاں، راتاں وغیرہ رائج ہے جو کبھی ہماری دکنی میں شامل تھا، مجھے تصدیق تو نہیں، مگر گمان ِ غالب ہے کہ دکنی میں آج بھی متروک نہیں!

ا)۔ ’بھواں‘

مثلاً ولیؔ گجراتی دکنی:

آج تیری بھواں نے مسجد میں

ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا

ب)۔ ’زلفاں‘

مثلاً ولیؔ:

تری زُلفاں کا ہر تار ِ سیہ ہے  کال عاشق کا

ہوا ہے جس کے جلوے سوں، پریشاں حال عاشق کا

مذکر اَلفاظ کی جمع ’ان‘ سے

حسرتؔ نے یہ قاعدہ یاد دلایا کہ ’’جن الفاظ کے آخر میں حروفِ علّت میں سے کوئی حرف ہوتا ہے، ان کی جمع کا یہ مقررشُدہ قاعدہ ہے کہ بحالتِ تذکیر ’الف‘، یائے مجہول سے بدل جاتا ہے لیکن واؤ، یے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، مثلاً لڑکا آیا اور لڑکے آئے، آنسو نکلا اور آنسو نکلے، موتی ٹوٹا اور موتی ٹُوٹے، بحالتِ تانیث، البتہ ’ان‘ لگاتے ہیں مثلاً لڑکی آئی اور لڑکیاں آئیں ‘‘۔ یہ لکھنے کے بعد حسرتؔ نے ایک متروک مثال دی:’’لیکن اس قاعدے کے خلاف قُدَماء اکثر الفاظ کی جمع میں بھی ’ن‘ زیادہ کردیتے تھے‘‘، مثلاً انشاءؔ:

یہ کس سے چاندنی میں ہم بزیرِ آسماں لپٹے

کہ باہم عرش پر مارے خوشی کے قُدسیاں لپٹے

یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ فارسی میں لفظ قُدسی کی جمع قُدسیاں ہے اور بقول حسرتؔ ’یہ رِواج حیدرآباد، دکن میں اِس وقت تک موجود ہے کہ وہاں تو لوگ کی بجائے ’لوگاں‘ وغیرہ بھی عام طور پر بولاجاتا ہے‘‘۔ یہاں مجھے شادی بیاہ کے موقع پر گائے جانے والے ایک پُرانے گیت کا ٹُکڑا یاد آگیا: ’’اَئیّو ماں! لکھنٔو کے ناخدرے (ناقدرے) لوگاں‘‘۔

متروکاتِ معروف

اس سے مراد وہ متروکا ت ہیں جو متوسطین یعنی عہدِمتوسط کے شعراء کے کلام میں پائے جاتے ہیں، مثلاً:

ا)۔آئیاں

حسرت ؔ نے بجا فرمایا کہ جمع مؤنث کے ساتھ صفت کا بصورتِ جمع استعمال (مثلاً آنکھیں ترستیاں ہیں) کی مثالیں میرؔ و مصحفی تا شوق ؔ لکھنوی و شاد ؔ عظیم آبادی کے کلام میں مل جاتی ہیں اور اَب یہ متروک ہیں۔

میرؔ:

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

 مدّت رہیں گی  یاد، یہ  باتیں ہماریاں

یہاں حسرتؔ نے فارسی کے تتبع میں، قدیم اردو کا طریقہ لکھا ہے کہ ’تک‘ حذف کردیا جاتا تھا۔ اسے انھوں نے زبانِ دورِ قدیم کا خاص جوہر قراردیا۔

میرؔ:

گل نے ہزار رنگ ِ سخن سر کیا وَلے

دل سے گئیں نہ باتیں تیری پیاری پیاریاں

بقول حسرتؔ ’’یہاں ہزار رنگ بجائے بہ ہزار رنگ مستعمل ہوا ہے اور حرف سے محذوف ہے‘‘۔

اسی ضمن میں سوداؔ کا مشہور ترین شعر ہے:

وے صورتیں نجانے کس دیس بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

پہلے مصرع میں کسی نے ’نجانے‘ کی جگہ ’الٰہی‘ بھی لکھ دیا، مگر ظاہر ہے کہ غلط ہے۔

اسی باب میں مصحفیؔ، جرأت، انشاءؔ، تنہاؔ، زکی ؔ مرادآبادی، تنویرؔدہلوی، آتش ؔ، نواب میرزا شوقؔ اور پھر سب سے آخر شاد عظیم آبادی کا شعر نقل کیا گیا ہے:

پڑکے لحد میں ہاں نہ چین کرائیو حشر تک

اُن کے جفا کی سختیاں، تُونے بہت اُٹھائیاں

یہاں مٔولف موصوف نے وضاحت کی کہ ’اُٹھائیاں‘ اور ’بھاریاں‘ قسم کے الفاظ کا استعمال متأخرین کے نزدیک مسلّمہ طور پر متروک ہے۔

تئیں ۔یا۔کے تئیں

تئیں بمعنیٰ تک اور تئیں بمعنیٰ کو دونوں ہی کو حسرتؔ نے متروک قراردیا اور یہ وضاحت فرمائی کہ وہاں مقامی طور پر بول چال میں (غالباً یوپی وغیرہ میں) تئیں بمعنیٰ کو، کبھی کبھی استعمال ہوتا ہے۔ انھوں نے مثال کے طور پر جملہ لکھا کہ وہ اپنے تئیں کیا سمجھتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنے کو۔ آپ کو۔ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ یہ تمام شکلیں زبان میں پہلے رائج تھیں۔ آج کے دور میں کہیں گے تو فقط ’’اپنے آپ کو‘‘ ہی سمجھا جائے گا، دیگر سے لوگ ناآشنا ہیں۔ حسرتؔ نے تئیں کے استعمال کی مثالیں بھی تنوع کے ساتھ پیش کیں:

میرؔ:

شب میکدے سے واردِ مسجد ہوا تھا میرؔ

پر شُکر ہے کہ صبح تئیں بے خبر رہا

یہاں تئیں بمعنیٰ ’تک‘ استعمال ہوا۔ میرؔ کا ایک اور شعر نقل کرنے کے بعد، حسرتؔ نے خواجہ میر دردؔ کا شعر نقل کیا ہے:

درد تو کرتا ہے معنی کے تئیں صورت پذیر

دسترس رکھتے کب بہزاد و مانی اس قدر

یہاں دردؔ نے تکلیف کی فطری تصویر کشی کو اِس قدر مؤثر اور شاید دل کش قراردیا کہ ماضی کے نامور مصوربہزاد اور مانی بھی ایسی مہارت سے اُسے مُصوَّر نہیں کرسکتے تھے۔ یہ وہ مبالغہ ہے جو بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔

مجذوبؔ دہلوی:

بدکہنے کو کسی کے معیوب جانتے ہیں

اپنے تئیں کو یارو! ہم خوب جانتے ہیں

یہاں شاعر نے تئیں اور کو دونوں کا بہ یک وقت استعمال کیا ہے جو کہیں اور شاذ ہی ملے گا۔ حسرتؔ موہانی نے مجذوب ؔدہلوی شاعر کا شعر نقل کیا ہے جبکہ مجھے تلاش بسیار کے باوجود ایک ہی شاعر مجذوب نامی ملے یعنی خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوبؔ ( 1884ء تا 1944ء)، جن کا مشہور زمانہ شعر ہے:

ہر تمنّا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آجا ، اب تو خلوت ہوگئی

اگر حسرتؔ نے اپنے اس معاصر کے سواء کسی اور مجذوب ؔ کا شعر نقل کیا ہے تو وہ فی الحال ہمارے لیے نامانوس ہے۔

محمد عیسیٰ تنہاؔ ، شاگرد ِ مصحفیؔ:

کوچے میں لگا جانے جو اُس شوخ کے تنہاؔ

دانستہ مَیں اپنے تئیں مجذوب بنایا

بہت اچھا استعمال کیا ہے تخلص کا۔

ٹُک

ان دونوں کو حسرتؔ موہانی نے بالاتفاق متروک لکھا ہے۔ ٹک کے استعمال کی مثالوں میں میر ؔ، خواجہ میردردؔ، میرسوزؔ، میرزا جعفرعلی حسرتؔ، قائمؔ، مصحفیؔ، جرأت، ہَوَسؔ، تنہاؔ، شاہ نصیر، انشاءؔ ، فراسوؔ ، معروفؔ اور کسی نامعلوم شاعر کے اشعار نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’ان سب مثالوں پر نظر کرنے سے معلوم ہوگا کہ ’ٹک‘ کا استعمال متروک ضرور ہے، لیکن ناگوار نہیں، خصوصاً متقدمین کے کلام میں‘‘۔ یہاں انتہائی حیرت کی بات ہے کہ مؤلف موصوف کو میرؔ کا مشہور شعر یاد نہ آیا:

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ  بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

پہلا مصرع یوں بھی مشہور ہے ، مگر غلط: سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو۔

دوسری بات یہ کہ نظیرؔ اکبرآبادی کی مقبول نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ کا پہلا شعر ہے:

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھر ے مارا

قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

اب چونکہ یہ غزل نہیں، اس لیے حسرتؔ کی نگاہ ِ انتخاب اس شعر پر نہیں پڑی، ورنہ پہلے بند کی ہیئت مخمس کی ہے اور یہ مقفیٰ ہے۔

 تنک

یہ لفظ آج کے دور میں بالکل نامانوس ہے۔ میرؔ کے شعر میں استعمال ملاحظہ فرمائیں:

بات مَیں غیروں کو چُپ کروں وَلیکن کیا کروں

وہ سخن نشنو تنک  میرا  کہا کرتا  نہیں

میرؔ نے اس شعر میں خالص فارسی لہجے میں خطا ب کیا کہ ’سخن نشنو‘ یعنی بات نہ سُننے والا، پھر ایک لفظ ’تنک‘ استعمال کیا جو ہندی اور فارسی میں ہجّے کے فرق سے مختلف مفاہیم رکھتا ہے۔

{فارسی مستند لغات کے مجموعے اَبادِیس میں، مختلف معتبر فارسی لغات سے خوشہ چینی کرتے ہوئے، لفظ تُنُک (تے اور نون دونوں پر پیش) اور تَنُک (تے پر زبر، نون پر پیش) کے مفاہیم یوں بیان کیے گئے ہیں: نازک، لطیف، باریک،رقیق، پتلا، کم حجُم، پتلی روٹی۔ یہاں کسی لغت نویس کی رائے بھی ملی کہ یہ لفظ درحقیقت تُرکی سے آیا ہے۔ ممکن ہے کہ قدیم (عثمانی) ترکی میں ہو، جدید تُرکی میں یہ لفظ موجود نہیں، البتہ اُردو لفظ کے طور پر تُنک (فقط تے پر پیش، نون اور کاف ساکن) درج کیا گیا اور تُرکی میں اس کے لیے کئی مترادفات بیان کیے گئے، مثلاً حفیف (خفیف)، ضعیف، نازِک (تُرکی میں نازک کے ’زے‘ کے نیچے زیر ہے)۔ (اردو۔ترکی/ترکی۔ اردو لغت مؤلفہ پروفیسر ڈاکٹر احمد بختیار اشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان، مطبوعہ انقرہ : 2022ء)لغاتِ کِشوری میں لفظ تُنَک کو فارسی لکھ کر معانی بیان کیے گئے: باریک ، نازک، لطیف، کم، تھوڑا، ہلکا۔ ہندی (تے پر زبر، نون پر پیش) میں لفظ تَنُک کے معانی ہیں: تھوڑا، قلیل، کم، ذرا، چھوٹا۔ (ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ)، فرہنگ آصفیہ میں اسے تَنَک لکھ کر صفت اور گنواروں کی زبان کانمونہ قراردیا گیا، جبکہ معانی یہ درج کیے گئے: ذرا، ذراسا، تھوڑا، کچھ، قدرے، جیسے تنک سا۔فرہنگ آصفیہ ہی میں تنک کو ہندی الاصل ٹھہراتے ہوئے، اعراب واضح کیے بغیر، صفت لکھا گیا اور مزید معانی یہ بیان کیے گئے: خفیف، کمزور، نازک، کم، لطیف، اوچھا، تنگ، بے حقیقت۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر لغت کے اندراجات سے پتا چلتا ہے کہ یہاں تُنُک (تے اور نون دونوں پر پیش) مراد ہے اور مطالب میں تنگ، اوچھا، کم، نحیف، لاغر، کمزور، نازک، لطیف، ہلکا، بے حقیقت، خفیف، تھوڑا سا، چھوٹا سا، ذرا سا، زنانہ بولی میں تنکی ، پتلی روٹی ، تنک نانا}

آگے بڑھتے ہیں تو لغات میں تُنَک ظرف اور تُنَک مزاج جیسی تراکیب ملتی ہیں۔

لغات کو چھوڑکر، آئیے یہ طے کرتے ہیں کہ میرؔ صاحب نے لفظ تنک کن معنوں میں استعمال کیا ہے۔ شعر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مخاطب کو کان نہ دھرنے کی وجہ سے سخن نشنو کہا اور یہ بھی کہ ’’تنک  میرا  کہا کرتا  نہیں‘‘ تو صاف ظاہر ہے کہ یہاں یہ لفظ ’ذرا‘ یا ’ذرا بھی‘ کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے نہ کہ فارسی والے مفاہیم میں۔ (جاری)

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا شعر نقل کیا کیے گئے استعمال کیا استعمال کی کی بجائے ہے کہ یہ جاتا ہے لکھا ہے رکی میں کی جمع یہ لفظ کی میں ہے اور کیا ہے پر پیش

پڑھیں:

سیلاب متاثرین کی امداد بارے بات سے پنجاب پر حملہ کیسے ہوگیا؟ قمر زمان کائرہ

ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر راہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ معاملات میں تلخی سے حالات خراب ہوں گے، پیپلزپارٹی قیادت نے متاثرین کی امداد کے طریقہ کار سے متعلق تجاویز دی۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر راہنما پاکستان پیپلز پارٹی قمر زمان کائرہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد بارے بات سے پنجاب پر حملہ کیسے ہوگیا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ معاملات میں تلخی سے حالات خراب ہوں گے، پیپلزپارٹی قیادت نے متاثرین کی امداد کے طریقہ کار سے متعلق تجاویز دی۔

قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے صرف اتنا کہا کہ متاثرین کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد کی جائے، ہم نے مطالبہ کیا کہ زرعی ایمرجنسی لگائی جائے۔ سینئر راہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ہمیں بھیک مانگنےکا طعنہ دیا گیا، بات سیلاب متاثرین کی امداد کے طریقہ کار سے شروع ہوئی، پنجاب پر حملہ کیسے ہو گیا۔؟ اگر یہ صورتحال بن جائے تو پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب متاثرین کی امداد بارے بات سے پنجاب پر حملہ کیسے ہوگیا؟ قمر زمان کائرہ
  • پر تپاک استقبال پر ملائیشیاء کے وزیر اعظم کا شکریہ، یہاں آکربے حد خوشی ہو رہی ہے؛ وزیراعظم شہباز شریف
  • غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس نے بعض نکات قبول کرلیے، 90فیصد معاملات طے : امریکی وزیرخارجہ
  • ملک میں شوگر، نزلہ، کھانسی، اینٹی بائیوٹک و دیگر عام استعمال کی ادویات پھر سے مہنگی
  • دوحہ حملے پر دباؤ کے بعد نیتن یاہو نے غزہ امن منصوبے پر لچک دکھائی، نیویارک ٹائمز کا دعویٰ 
  • کیا حماس نے امریکہ و اسرائیل کو فریب دیا ہے؟
  • ٹرمپ امن منصوبے کے نکات؛ حماس کا کن نکات سے اتفاق اور اختلاف، میڈیا میں رپورٹ
  • پاکستان جلد 57 مسلم ملکوں کی قیادت کرے گا: مشرقی نیٹو بن رہا، ٹرمپ کے  20 نکات ہمارے نہیں، نائب وزیراعظم
  • غزہ امن منصوبہ ، امریکی صدر کے20 نکات مسترد،ڈرافت میں تبدیلی کی گئی،نائب وزیراعظم