رواں سال میں اب تک اسلام آباد میں ڈینگی کے کتنے کیس رپورٹ ہوئے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رواں سال اب تک ڈینگی کے 1،173 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں ڈینگی کے 345 کیسز، رواں سال پہلی موت کراچی میں رپورٹ
ڈان کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے ایک دستاویز کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ مجموعی کیسز میں سے 817 کیسز دیہی علاقوں سے جبکہ 356 کیسز شہری علاقوں سے سامنے آئے ہیں۔
دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈینگی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث 17 افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر ہائی رسک اور ہاٹ اسپاٹ علاقوں میں 2،097 مقامات پر فوگنگ (دھویں کا چھڑکاؤ) کی گئی۔ ان علاقوں میں یونین کونسل بھارہ کہو، بنی گالہ، راوت، ڈھوک تامی، کورال، لوئی بھیر، محلہ حسین آباد، سیدپور گاؤں، سیکٹر ایف-6 اور سیکٹر ای-7 شامل ہیں۔
ڈینگی کی عام علامات میں تیز بخار، جوڑوں اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
چونکہ دنیا کے زیادہ تر علاقوں میں ڈینگی کی ویکسین دستیاب نہیں اس لیے جلد تشخیص اور بروقت طبی نگہداشت سے اموات کی شرح کم کی جا سکتی ہے۔
بصورت دیگر، یہ بیماری جان لیوا ہیموریجک فیور میں تبدیل ہو سکتی ہے جو جسم میں خون بہنے اور بلڈ پریشر کے خطرناک حد تک کم ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: مری میں ڈینگی کی صورتِ حال: 56 مریضوں کی تصدیق، 9 ہسپتال میں داخل
تیزی سے بڑھتی ہوئی اور بغیر منصوبہ بندی کے شہری آبادکاری، صفائی کی ناقص صورتحال اور ماحولیاتی تبدیلی ڈینگی کیسز میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد اسلام آباد میں ڈینگی کیسز ڈینگی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد اسلام ا باد میں ڈینگی کیسز ڈینگی علاقوں میں میں ڈینگی ڈینگی کی
پڑھیں:
وزیراعظم نے ارلی وارننگ سسٹم کو فوری طور پر مربوط بنانے کی ہدایت کی ہے، مصدق ملک
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکام کے ساتھ مل کر 250 روزہ شارٹ ٹرم منصوبے کے تحت ملک بھر میں آفات سے متعلق تمام ابتدائی وارننگ سسٹمز کو ضلعی اور تحصیل سطح پر مربوط کرے گی تاکہ سیلاب سے قبل بروقت انخلا اور اثاثوں کی محفوظ منتقلی ممکن بنائی جا سکے۔
کوشش ہے کہ آئندہ مون سون میں اتنا نقصان نہ ہو جو اس سال ہوا ہے، وزیراعظم نے ارلی وارننگ سسٹم کو فوری طور پر مربوط بنانے کی ہدایت کی ہے،طویل مدتی حکمت عملی کے تحت پانچ سال میں موسمیاتی مطابقت کا حامل انفراسٹرکچر تیار کرنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ مشترکہ نظام مقامی انتظامیہ کو نہایت اہم وقت اور بروقت ردعمل دینے کے قابل بنائے گا جس سے آئندہ مون سون کے دوران نقصانات میں نمایاں کمی آئے گی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں نے دریا، سیلاب، پہاڑی ریلوں، شہری سیلاب اور ساحلی علاقوں کے خطرات سمیت تمام موسمیاتی خطرات کا جائزہ لیا اور مختصر، درمیانی اور طویل المدتی اقدامات پر مشتمل ایک قومی لچکدار روڈ میپ کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت مختلف محکموں میں بکھرے ہوئے وارننگ سسٹمز موجود ہیں جن کی وجہ سے تاخیر اور بدانتظامی پیدا ہوتی ہے، وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام ڈیٹا سیٹس کو یکجا کر کے اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں ریئل ٹائم سکرینز پر دکھایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا الارم اسلام آباد میں نہیں بلکہ تحصیل اور ضلع کی سطح پر بجے گا تاکہ امدادی اداروں اور کمیونٹیز کو پانی پہنچنے سے قبل بروقت الرٹس مل سکیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ 250 روزہ مختصر مدتی مرحلے کے تحت تمام نکاسی آب کی نہروں اور فلڈ گیٹس کی بحالی کی جائے گی جبکہ شہری علاقوں کے بند یا متاثرہ ڈرینیج سسٹمز کو بھی پیشگی درست کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلابوں سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور 2 ملین کے قریب بچے تعلیم سے محروم ہوئے، منصوبے کے تحت تباہ شدہ علاقوں میں عارضی تعلیمی انتظامات کئے جائیں گے تاکہ بے گھر ہونے کی صورت میں بھی تعلیم جاری رہے۔
اس کے علاوہ ایک موبائل ایمرجنسی ہیلتھ کیئر نظام بھی متعارف کرایا جا رہا ہےجو موقع پر بنیادی علاج اور فوری سرجریز کی سہولت دے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اگرچہ ابتدائی منصوبہ صوبائی آبپاشی، زراعت اور ڈیزاسٹر محکموں سے مشاورت کے بعد تیار کیا گیا ہے لیکن وزیر اعظم نے مکمل صوبائی حکمت عملی کو یقینی بنانے کے لئے مزید مشاورت کی ہدایت کی ہے۔
غیر قانونی تجاوزات بارے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے دریاؤں کے کناروں پر بااثر گروپوں کی جانب سے تعمیر کردہ ہوٹلوں اور ریزورٹس کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور زوننگ قوانین کے خلاف تعمیرات کی اجازت دینے والوں سے پوچھ گچھ کا بھی حکم دیا ہے۔
طویل المدتی منصوبے میں حکومت کا ہدف دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کی بحالی، خطرے کے زونز میں بنی آبادیوں کی نشاندہی، بلند خطرات والے علاقوں میں نئی تعمیرات کی روک تھام اور موجودہ بستیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو صرف شدید گرمی کا ہی سامنا نہیں بلکہ سردیوں کی شدت اور موسمی تغیر پذیری بھی بڑھ رہی ہے اس لئے آئندہ لچکداری منصوبہ بندی میں دونوں موسموں کے تقاضے شامل کئے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ اصل مسئلہ مالی وسائل نہیں بلکہ نظم و نسق کی کمزوریاں اور عملدرآمد میں تاخیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں شروع کئے گئے 20 سے 30 ملین روپے کے بعض منصوبے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکےحالانکہ 8سال میں تو ایک نیا شہر بھی آباد ہو سکتا ہے،تاخیر سے بچنے کے لئے وزیر اعظم ہر سہ ماہی میں پیشرفت کا جائزہ لیں گے، وزارتی کمیٹی ماہانہ اجلاس کرے گی جبکہ عملدرآمد ٹیم ہر ہفتے میٹنگ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی پوری موسمیاتی حکمت عملی عوام کے سامنے لائے گی اور شہریوں کو جوابدہی کیلئے سوال پوچھنے کی ترغیب دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے قابلِ قربان نہیں، ہمیں انہیں ایسا مستقبل دینا ہے جہاں آفات بار بار سب کچھ نہ بہا لے جائیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ 2026 سے پہلے نظام مون سون کا نظام وضع کرنے کا ہے ،ہر سال پاکستان میں موسمی شدت کا اضافہ ہورہا ہے،گلگت بلتستان میں زائد برف پڑے گی،2026 میں مون سون 22 سے 26 فیصد زیادہ شدید ہوسکتاہے۔
انہوں نے کہا کہ31لاکھ لوگوں کو سیلاب میں ریسکیو کیا گیا،اس کے لئے معاشی بوجھ کو صوبوں اور وفاق نے مل کر برداشت کیا،جون کے بعد ہیٹ ویوو کی بنا ءپر گلیشئیرز کے تیزی سے پگھلنے کا امکان ہے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ پاکستان کی عمومی صورتحال اور 6 سے 8 ماہ کی پیش گوئی دینایہ شاید دنیا میں صرف این ڈی ایم اے کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سموگ کا مسئلہ اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں بڑھ جاتا ہے،اس میں 45 فیصد حصہ ٹرانسپورٹ کاہے جبکہ 20 سے 30 فیصد صنعت کا حصہ ہے۔