امریکہ ایران کے تجارتی بحری جہازوں کی نقل و حرکت میں خلل ڈال رہا ہے، المیادین
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
ذرائع کے مطابق ایرانی تجارتی اور شہری بحری جہازوں کے خلاف کسی بھی حرکت کا ایرانی جنوبی ساحلی پٹی کے ساتھ واقع بڑے بحری بیڑے اور میزائل اڈوں سے فوری جواب دیا جائے گا، خطے کے ممالک کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ ایرانی تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے یا ان کی نقل و حرکت میں خلل ڈالنے میں امریکہ کے ساتھ کوئی بھی تعاون متناسب ردعمل کے بغیر نہیں جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ عرب نیوز نیٹ ورک المیادین نے ایران سے منسلک تجارتی بحری جہازوں کی نقل و حرکت میں خلل ڈالنے کے امریکی اقدام کے بارے میں خبر دی ہے۔ المیادین نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پابندیوں کے بہانے ایران کے ساتھ منسلک تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی امریکی تیاریوں کے آثار دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ مقاومتی ذرائع نے دھمکی دی ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی امریکی اقدام کا ردعمل "تیز اور فیصلہ کن" ہو گا۔ المیادین نے ان ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، بحریہ اور فوج خلیج فارس اور بحیرہ عمان میں بحری سلامتی کو درپیش کسی بھی خطرے کو بے اثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایرانی تجارتی اور شہری بحری جہازوں کے خلاف کسی بھی حرکت کا ایرانی جنوبی ساحلی پٹی کے ساتھ واقع بڑے بحری بیڑے اور میزائل اڈوں سے فوری جواب دیا جائے گا، خطے کے ممالک کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ ایرانی تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے یا ان کی نقل و حرکت میں خلل ڈالنے میں امریکہ کے ساتھ کوئی بھی تعاون متناسب ردعمل کے بغیر نہیں جائے گا۔ اس سے قبل ہمارے ملک کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سفیروں اور غیر ملکی سفارتی مشنوں کے سربراہان سے کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے ماضی کے دفاعی تجربات سے استفادہ کریگا اور اپنے وقار، آزادی اور سلامتی، مستقبل میں کسی بھی خطرے سے فیصلہ کن طور پر نمٹے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایرانی تجارتی بحری جہازوں کسی بھی کے ساتھ جائے گا
پڑھیں:
پاک افغان تجارتی بندش: پاکستان کو فائدہ، افغانستان کو بھاری نقصان
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی بندش نے جہاں پاکستان کے لیے فوائد پیدا کیے ہیں، وہیں افغانستان کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان نے اپنے راستے بند کر دیے ہیں جو کہ اسمگلنگ، منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور دہشت گردی کے بنیادی ذرائع تھے۔ اس فیصلے کا مقصد قومی سلامتی، معاشی استحکام اور ریاستی رٹ کو مضبوط بنانا تھا، اور یہ فیصلہ طویل مدت میں پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
افغانستان، جس کی معیشت اور تجارت پاکستان کی سڑکوں اور بندرگاہوں پر منحصر ہے، اس بندش سے شدید متاثر ہوا ہے۔ افغانستان کی 70 سے 80 فیصد تجارت پاکستان کے راستوں سے ہوتی تھی۔ کراچی کے راستے سامان 3 سے 4 دن میں پہنچتا تھا، جب کہ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے راستوں سے یہ عمل کئی گنا سست ہو جاتا ہے، اور سامان کو افغانستان پہنچنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اسمگلنگ کا سامان پاکستان میں آ رہا تھا، جس سے پاکستان کو سالانہ 3.4 کھرب روپے کا نقصان ہوتا تھا، اور افغان ٹرانزٹ سے تقریباً 1 کھرب روپے کا سامان واپس آ جاتا تھا، جو اضافی نقصانات کا سبب بنتا تھا۔ طورخم کی بندش کے بعد افغانستان کو ایک ماہ میں 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، اور چند ہفتوں میں یہ نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
بارڈر پر 5,000 سے زائد ٹرک پھنسے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں افغان فصلیں اور پھل ضائع ہو گئے جو پاکستان کی منڈی میں آنے والے تھے۔ ایران کے راستے تجارتی لاگت 50 سے 60 فیصد بڑھ گئی، اور ہر کنٹینر پر اضافی کرایہ 2,500 ڈالر لگا۔ افغانستان کی 50 فیصد سے زائد ادویات پاکستان کے راستے آتی تھیں، اور اب متبادل راستے سست، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت پر مزید دباؤ پڑا ہے۔
اسمگلنگ رک جانے سے 2 لاکھ سے زائد خاندان بے روزگار ہو گئے، جو اسمگلنگ، بیک فلو اور انڈر انوائسنگ کے ذریعے روزگار حاصل کرتے تھے۔ افغانستان سے تجارتی بندش کا پاکستان پر تقریباً کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ اسمگل ہو کر آنے والی اشیاء لگژری سامان تھیں، جو کہ عوامی ضرورت کی چیزیں نہیں تھیں۔ پاکستان کے پاس CPEC اور چین کے ساتھ براہِ راست زمینی راستے موجود ہیں، جو اسمگلنگ نیٹ ورک کو توڑنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یہ تجارتی بندش افغانستان کے مشرقی صوبوں (پکتیا وغیرہ) کی تجارت کو ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی طرف موڑنے میں مدد دے گی، جس سے افغانستان کی معیشت میں تنوع آئے گا اور اس کی اقتصادی شمولیت بڑھے گی۔ طویل المدتی طور پر، یعنی 5 سے 10 سال میں، پاکستان بھی اس بندش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اب افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کو تحفظ دیتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی کے سفر میں شریک ہوتے ہیں۔