شکارپور کی پہچان سمجھے جانے والی قدیم اسپتال کی عمارت آج بھی اپنی مثال آپ ہے مگر بدقسمتی سے سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث مریضوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی بڑی کارروائی، شکارپور میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین واگزار

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے معروف ادیب  اور کالم نگار نسیم بخاری نے بتایا کہ اس اسپتال کی بنیاد ایک عظیم خدمتگار شخصیت، رائے بہادر اودھو داس تارا چند نے رکھی تھی جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر بھی تھے اور اپنے شہر کے عوام کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے تھے۔

 نسیم بخاری نے بتایا کہ ایک بار جب اودھو داس اپنی والدہ کو علاج کے لیے بمبئی لے گئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ میرے پاس تو وسائل ہیں مگر سندھ کے غریب عوام کا علاج کون کرے گا؟

ماں کے اس پیغام پر انہوں نے شکارپور میں ایک جدید اسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ذاتی رقم عطیہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہر شہر جا کر چندہ جمع کیا۔ کہیں سے ایک روپیہ ملا، کہیں 5 تو کہیں سے 10 روپے، حتیٰ کہ ایک ایک پیسہ بھی جمع کیا گیا اور باقاعدہ رجسٹر میں درج کر کے شفافیت قائم رکھی گئی۔

اسپتال کا سنگ بنیاد سنہ 1933 میں رکھا گیا اور سنہ 1935 میں اس وقت کے بمبئی کے گورنر نے اس کا افتتاح کیا۔

 چوکھٹ پر قدموں تلے آتا رائے بہادر کا نام

نسیم بخاری نے یہاں ایک حیران کن بات بھی بتائی کہ اودھو داس نے اس اسپتال کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں کے اوپر فرش پر اپنا نام کندہ کروادیا تھا تاکہ آنے جانے والے مریض اور تیماردار ان کے نام پر پیر رکھتے ہوئے گزریں۔

مزید پڑھیے: سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟

انہوں نے بتایا کہ اس عمل کا مقصد عاجزی کا اظہار تھا تاکہ ان میں کبھی خود نمائی نہ آئے کیونکہ وہ رب کو پسند نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی یاد ہمیشہ خدمت سے جڑی رہے، تکبر سے نہیں۔

رائے بہادر اودھو داس تارا چند کی ولادت سنہ 1870 میں ہوئی اور وہ 17 جنوری 1943 کو بمبئی میں انتقال کر گئے۔

برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں رائے بہادر کے لقب سے نوازا۔

قدیم عمارت حکومت کی توجہ کی طالب

آج یہ عمارت حکومت کی توجہ کی منتظر ہے۔ نسیم بخاری نے کہا کہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعض شرپسند عناصر نے  رائے بہادر کے مجسمے کو بھی نقصان پہنچایا۔ بعد ازاں وہ مجسمہ سندھ یالوجی حیدرآباد منتقل کر دیا گیا۔

نسیم بخاری نے کہا کہ شکارپور ایک زمانے میں عالمی سطح پر اپنی تجارت، ثقافت اور خوشبوؤں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا مگر آج یہ اپنی پرانی شناخت کھوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جنہوں نے ادارے بنائے، عوام کی خدمت کی، ہم نے نہ صرف ان کی یاد کو فراموش کیا بلکہ ان کی نشانیوں کو بھی مٹانے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

کلچر ڈیپارٹمنٹ سندھ نے سنہ 1998 میں اس اسپتال سمیت 1203  عمارات کو ہیریٹیج قرار دیا جبکہ سنہ 2014 میں ورلڈ مانیومنٹ  فورم نے شکارپور کو ہیریٹیج سٹی قرار دیا لیکن ان سب کے باوجود یہ تاریخی اسپتال آج بھی اپنی بحالی کے کام اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے حکومتی توجہ کے لیے ترس رہا ہے۔

 اس اسپتال میں اب فرسٹ ایڈ کے سوا مریضوں کو کوئی طبی سہولت میسر نہیں۔ دیکھیے عمران ملک کی یہ ویڈیو رپورٹ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رائے بہادر اودھو داس تارا چند شکارپور شکارپور کا تاریخی اسپتال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: رائے بہادر اودھو داس تارا چند شکارپور شکارپور کا تاریخی اسپتال اودھو داس تارا چند رائے بہادر اس اسپتال انہوں نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

بدین ،سول اسپتال کی غفلت کیخلاف پریس کلب کے سامنے احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بدین(نمائندہ جسارت)سول اسپتال حیدر آباد کی مبینہ غفلت کے خلاف بدین پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ ،شرکاکا ڈاکٹر حسنین زرداری کی موت کے ذمہ دار سول اسپتال حیدرآباد انتظامیہ پر عائد ۔شہید بے نظیر بھٹو ویلفیئر فاؤنڈیشن کی جانب سے سول اسپتال حیدرآباد کی مبینہ غفلت اور مجرمانہ لاپرواہی کے نتیجے میں نوجوان ڈاکٹر حسنین زرداری کے انتقال کے خلاف بدین پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔احتجاجی مظاہرہ میں دیگر سیاسی سماجی تنظیموں کے کارکنوں اور شہریوں نے بھی شرکت کی ، حتجاج کی قیادت مرحوم کے والد عامر لطیف زرداری ایڈووکیٹ نے کی۔احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے عامر لطیف زرداری نے الزام عائد کیا کہ اْن کے بیٹے کو تشویشناک حالت میں سول اسپتال حیدرآباد لایا گیا، لیکن اسپتال انتظامیہ نے بروقت علاج فراہم نہیں کیا۔ ان کے مطابق مریض کو کئی گھنٹے ویل چیئر پر بٹھائے رکھا گیا جبکہ بیڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ ضروری ٹیسٹ بھی فوری طور پر نہیں کیے گئے اور بتایا گیا کہ رپورٹس6 دن بعد ملے گی، جس کے باعث بیماری بگڑتی گئی اور مریض جانبر نہ ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کی صورتحال انتہائی خراب ہے، جہاں غیر تربیت یافتہ عملہ بھی کام کرتا ہے اور متعدد ڈاکٹر اپنے نجی کلینکوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ طرزِ عمل پاکستان ہیلتھ کیئر کمیشن کے قوانین کے خلاف ہے۔احتجاج میں سارنگ سالوای، سمع انصاری ، پیر نور محمد شاہ ، نور محمد بھٹی ، سنی گجراتی ، اصغر ملاح، حبیب الرحمن لغاری، عبدالغنی نوناری، مر صدق ٹالپور اور شہید بینظیر بھٹو ویلفیئر سوسائٹی کے دیگر اراکین نے بھی شرکت کی۔مظاہرین نے چیف جسٹس آف سندھ کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ ، وزیر صحت سمیت دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر حسنین زرداری کی موت کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور غفلت کے ذمہ دار ڈاکٹرز اور سول اسپتال حیدرآباد کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • ویتنام میں بارشوں نے تباہی مچادی، 2 لاکھ گھر ڈوب گئے، 55 افراد ہلاک، درجنوں ملبے تلے
  • موبی لنک بینک نے مائیکروفنانس انڈسٹری میں ڈیجیٹل اسلامی بینکاری کی بنیاد رکھ دی
  • بدین ،سول اسپتال کی غفلت کیخلاف پریس کلب کے سامنے احتجاج
  • الاسکا 64 دن کیلئے سورج سے محروم
  • ٹنڈو محمد خان، تیز رفتار ٹینکر موٹر سائیکل پر چڑھ دوڑا، دو نوجوان جاں بحق
  • پاکستان خیرات دینے والے ملکوں میں سرفہرست، عطیات چھپانے والے بھی سامنے آئیں: وزیر خزانہ
  • مدارس کی خدمات اور ریاست کا دباؤ
  • جاپان: 5 دہائیوں کی بدترین آتشزدگی، 170 عمارتیں جل کر راکھ، ایک شخص ہلاک
  • جاپان، 5 دہائیوں کی بدترین آتشزدگی، 170 عمارتیں جل کر راکھ، 1 شخص ہلاک
  • خواتین اسٹاف کیلیے عبایہ لازمی قرار دینے والے اسلامی بینکوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت