’’اسرائیلی سفیروں نے ایک تقریب میں عمران خان پر سرمایہ کاری کا اعتراف کیا‘‘ اعزاز سید کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی اعزاز سید نے دعویٰ کیاہے کہ ایک تقریب میں اسرائیلی سفارتکاروں نے کہا کہ اسرائیل اور ہم نے عمران خان پر بہت سرمایہ کاری کی لیکن انہوں نے امید کے مطابق پرفارم نہیں کیا ۔
ڈیجیٹیل چینل ’ٹی وی ٹوڈے‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید نے دعویٰ کیا کہ میں ایک ملک میں تھا جہاں ایک تقریب میں اسرائیل کے سفیر بھی آئے ہوئے تھے، یہ ایک نجی محفل تھی، انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کون کون بیٹھا ہواہے ،تو انہوں نے گفتگو میں بتایا کہ اسرائیل اور ہم نے عمران خان پر بہت سرمایہ کاری کی ہے لیکن عمران خان سے جو امیدیں تھیں انہوں نے اس کے مطابق پرفارم نہیں کیا، عمران خان اسرائیل کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیتے ہوئے نظر آئیں گے، عمران خان کے پرانے سسرال کے بھی اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ۔
26نومبر احتجاج کیس ؛علیمہ خان کی حاضری معافی کی درخواست خارج ،قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
????????انتہائی خطرناک انکشاف ????????
اعزاز سید کا کہنا وہ کسی تقریب میں تھے جہاں اسرائیلی سفیر نے کہا ہم نے عمران خان پر بہت سرمایہ کاری کی ہے ساتھ بیٹھے صحافی نے کہا آپ اسے رپورٹ تو کرتے تو اعزازی سید بولا یہ ایک کلوز میٹنگ تھی
سوال یہ پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات نہی یہ صحافی کہاں… pic.
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری
پڑھیں:
سعودی سرمایہ اور امریکی دلال لابی
اسلام ٹائمز: لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔ خصوصی رپورٹ:
جب کئی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشامد اور اس کے خودپسند ذہن کو خوش کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں محمد بن سلمان کا واشنگٹن کا دورہ ہوا ہے۔ 18 نومبر 2025 کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کا غیر معمولی گرمجوشی سے استقبال کیا، حتیٰ کہ صحافیوں کے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سخت سوالات پر بھی بن سلمان کا دفاع کیا۔ یہ ملاقات موسیقی، گھڑ سوار دستوں کے مارچ اور فوجی طیاروں کی پروازوں کے درمیان ہوئی اور اس موقعے پر بڑے معاشی و عسکری معاہدات کا اعلان کیا گیا، جن میں امریکہ میں سعودی عرب کی ایک ٹریلیَن ڈالر سرمایہ کاری اور ریاض کو ایف-35 جنگی طیارے دینے کے وعدے شامل تھے۔
اسٹریٹجک دوستی کے نام پر امریکی سود خوری؟
یہ دورہ امریکہ سعودیہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرنے سے زیادہ، امریکی پالیسی کی روایتی، یک طرفہ اور مفاد پرستانہ نوعیت کو پھر نمایاں کرتا ہے، خصوصاً خلیجی ریاستوں کے ساتھ کیے جانے والے ہر سمجھوتوں اور تعلقات میں یہ زیادہ جھلکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ سب ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں کئی "تابع" ریاستیں ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے حد سے زیادہ مبالغہ کر رہی ہیں۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ امریکہ اپنے خلیجی "اتحادیوں"، چاہے انہیں ’’اہم غیر نیٹو اتحادی‘‘ کا لقب ہی کیوں نہ دے، ان کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ اپنے معاشی، عسکری اور جیوپولیٹیکل مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب ممالک کو دیے جانے والے وعدے زیادہ تر علامتی اور کاغذی ہوتے ہیں، جن کا مقصد ان ممالک کو مزید امریکی انحصار میں جکڑنا ہے۔
قطر کی مثال:
امریکہ کی اس پالیسی کی واضح مثال قطر ہے۔ 2022 میں واشنگٹن نے قطر کو اہم غیرنیٹو اتحادی قرار دیا تھا۔ یہ درجہ دوحہ کے لیے خاص عسکری و سلامتی فوائد کا وعدہ رکھتا تھا۔ لیکن ستمبر 2024 میں دنیا نے دیکھا کہ قطر نے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیار خریدے، خصوصی شاہانہ طیارہ ٹرمپ کو تحفے میں دیا، پھر بھی اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر کھلم کھلا حملہ کیا اور امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ اور تھاڈ نے ایک بھی وارننگ سائرن نہیں بجایا۔ یہ اس لیے کہ یہ نظام مکمل کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ قطر کے پاس صرف ملکیت ہے، کنٹرول نہیں۔
یعنی سازوسامان قطر کا ہے لیکن یہ جدید مشینیں اس قدر ہوشیار ہیں کہ قطر کی بات نہیں مانتیں۔ امریکہ کی واحد مستقل پالیسی اسرائیل کی فوجی برتری ہے، جس کے تحت ہر بڑے ہتھیار کی فروخت میں امریکہ لازماً جانچتا ہے کہ کہیں اسرائیل کی عسکری برتری متاثر تو نہیں ہو رہی۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن، تینوں حکومتوں نے اس اصول کی سختی سے پابندی کی۔ 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان 38 ارب ڈالر کی 10 سالہ فوجی امداد کا معاہدہ بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔
سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی طرف دھکیلنا:
بن سلمان کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کا ایک بڑا ہدف اسرائیل کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے، خصوصاً سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں امارات اور بحرین کو اسرائیل سے معمول کے تعلقات پر مجبور کر چکا ہے۔ دوسرے دور میں اس کا سب سے بڑا ہدف سعودی عرب ہے۔ ٹرمپ نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ سعودی اسرائیلی نارملائزیشن مشرقِ وسطیٰ میں کامیابی کی کلید ہے۔ اور ایف-35 کی فروخت کو اسی ترقی سے مشروط قرار دیا۔ حال ہی میں جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی اہلکاروں نے بھی سعودی حکام سے کئی خفیہ و علانیہ ملاقاتیں کیں تاکہ ریاض کو اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کی طرف دھکیلا جا سکے۔ واشنگٹن میں طاقتور اسرائیلی لابیاں سعودی عرب کو اسرائیل کے فائدے کے لیے ایک ٹول کے طور پر دیکھتی ہیں، امریکی انہیں کوئی برابر کا شراکت دار نہیں سمجھتے۔
ٹرمپ لابی کے ذاتی مالی مفادات:
لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔
کھوکھلی سکیورٹی:
سعودی عرب اربوں ڈالر دے گا لیکن اصل طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ سعودی عرب کے پاس پہلے سے موجود امریکی ہتھیار نہ تو یمن جنگ میں اس کا کام آئے، نہ ایران کے مقابلے میں۔ اسی لیے آخرکار بن سلمان نے ایران سے تعلقات بہتر بنائے۔ اگرچہ بن سلمان کا دورۂ واشنگٹن امریکی رہنماؤں کی گرمجوشی میں لپٹا ہوا ہے، اصل سوال یہ ہے، کیا یہ تعلقات خطے کے امن و استحکام کو بڑھائیں گے یا پھر صرف امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی خدمت کرتے رہیں گے؟۔ خلیجی ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے اپنی حیثیت بڑھانے کے لیے انہیں بڑے مالیاتی وعدے کرنے ہوں گے۔ لیکن جب تک طاقت کا توازن یکطرفہ ہے، یہ ممالک اسٹریٹجک پارٹنر تو کہلائیں گے، مگر عالمی پالیسی سازی پر ان کا اثر ہمیشہ محدود ہی رہے گا۔