عمران خان کی رہائی کے لیے ڈیڈلائن میں 2 دن باقی، رہائی نہ ہوئی تو کیا علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما علی امین گنڈاپور نے 12 جولائی کو لاہور میں عمران خان کی رہائی کے لیے ریلی کے دوران 90 روزہ تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم 90 دن میں عمران خان کو رہا کرائیں گے ورنہ سیاست چھوڑ دیں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی آن بان شان سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی کیوں آئی؟
اب جبکہ اس ڈیڈلائن کے ختم ہونے میں صرف 2 دن باقی رہ گئے ہیں تو یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا علی امین گنڈاپور اپنے وعدے کے مطابق سیاست اور وزارتِ اعلیٰ کا منصب چھوڑ دیں گے؟
12 جولائی کو پی ٹی آئی قیادت کا اسلام آباد میں ایک معمول کا اجلاس جاری تھا جس کے بعد علی امین گنڈاپور نے اچانک احتجاجی ریلی نکالی اور قائدین و کارکنان کو لے کر لاہور پہنچ گئے۔ وہاں پر جذباتی خطاب میں انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے 90 روزہ تحریک کا اعلان کیا جو پارٹی سربراہ بیرسٹر گوہر سمیت دیگر قیادت کے لیے ایک سرپرائز تھا۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق، عمران خان کی جانب سے صرف احتجاج کا اعلان ہونا تھا، 90 روزہ تحریک کی کوئی بات طے نہیں تھی۔
علی امین گنڈاپور نے اس وقت کارکنان کے جذبات جیت لیے جب انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’ان 90 دنوں میں یا تو عمران خان کو جیل سے رہا کروائیں گے یا پھر سیاست چھوڑ دیں گے‘۔
اب جب کہ وہ ڈیڈلائن قریب ہے کارکنان سوشل میڈیا پر انہیں ان کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں۔
کیا علی امین گنڈاپور استعفیٰ دیں گے؟پارٹی قیادت کی جانب سے اعلانات اور وعدوں کے باوجود عمران خان کی رہائی کے لیے مؤثر اقدامات نہ ہونے سے کارکنان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
پشاور جلسے میں علی امین کے خلاف پارٹی کے اندر بغاوت کھل کر سامنے آ چکی ہے اور ان پر سمجھوتا کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق علی امین گنڈاپور اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: علیمہ خان پی ٹی آئی کو کمزور کرنے کی خاطر ایم آئی کے لیے کام کررہی ہیں، علی امین گنڈاپور کا الزام
پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ علی امین کے خلاف روز بروز ایک نیا محاذ کھل رہا ہے اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق حکومت چلانے کے لیے مقتدر حلقوں کے ساتھ چلنا ان کی مجبوری ہے جبکہ پارٹی ایسا نہیں چاہتی۔ انھیں اندر کچھ اور کہنا پڑتا ہے اور باہر کچھ اور۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں کوئی لفظ حرفِ آخر نہیں ہوتا اور علی امین گنڈاپور بھی جذبات میں آ کر ایسے اعلانات کرتے ہیں جنہیں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
تجزیہ کاروں کی رائے سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا 12 جولائی کا اعلان صرف کارکنان کو تسلی دینے کے لیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ جلسہ کرتے ہیں اور کارکنان کا جوش بڑھتا ہے تو ایسے مواقع پر اکثر سیاسی بیانات دیے جاتے ہیں۔
علی اکبر کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ عمران خان کے بعد پارٹی میں سب سے طاقتور شخصیت وہی ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی کابینہ کے 2 وزرا نے استعفیٰ دے دیا
سینیئر تجزیہ کار طارق وحید کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور اس وقت بہتر انداز میں سیاست کر رہے ہیں اور حکومت و پارٹی دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
90 روزہ تحریک میں کتنے جلسے ہوئے؟عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی مسلسل احتجاج کر رہی ہے اور 90 روزہ تحریک کے تحت پہلا ملک گیر احتجاج 5 اگست کو ہوا۔
علی امین گنڈاپور نے 5 اگست کو پشاور رنگ روڈ سے قلعہ بالا حصار تک ریلی نکالی جبکہ 27 ستمبر کو پشاور میں جلسہ منعقد کیا۔
ان کے مطابق عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں تاہم پارٹی کارکنان ان کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔
علی اکبر کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے لیے سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’احتجاج اور جلسوں سے دباؤ تو ڈالا جا سکتا ہے لیکن مذاکرات اور سیاسی رابطے بھی ضروری ہیں۔ اگر دیگر پارلیمانی جماعتیں ساتھ نہ ہوں تو دباؤ مؤثر نہیں ہوتا‘۔
یہ بھی پڑھیے: علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان سے متعلق عمران خان کو کیا بتایا؟ تفصیلات آگئیں
ان کے مطابق عمران خان کا اصل مسئلہ مقتدر حلقوں کے ساتھ ہے اور پی ٹی آئی کو سمجھنا ہوگا کہ محاذ آرائی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’بات چیت اور مذاکرات ہی اس کا واحد حل ہیں‘۔
کیا علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی آگئی؟عمران خان کی عدم رہائی اور مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی میں علی امین کے خلاف ایک محاذ کھل گیا ہے۔
27 ستمبر کے پشاور جلسے میں کارکنان نے کھل کر ان کے خلاف نعرے بازی کی۔
علی اکبر کے مطابق پارٹی میں تاثر ہے کہ علی امین گنڈاپور کے پاس اختیارات ہونے کے باوجود وہ سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہے اور اسی وجہ سے وہ کارکن جو کبھی ان پر جان چھڑکتے تھے اب ان سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
طارق وحید کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد علی امین گنڈاپور کی مجبوریوں اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن وہ بہتر انداز میں حکومت چلا رہے ہیں۔
ان کے مطابق علی امین اب سیاست کو سمجھ چکے ہیں اور وہ کارکنان کو جوش میں رکھنے کے لیے بیانات دیتے ہیں اور حکومت کو بھی سنبھال رہے ہیں جو آسان کام نہیں۔
طارق وحید نے تسلیم کیا کہ وزارت عالیہ سنبھالنے کے بعد کارکنان کی ناراضی اور علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی ضرور آئی ہے۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل صاحب آپ 25 کروڑ عوام کے سپہ سالار ہیں، پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے، علی امین گنڈاپور
علی اکبر بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی قید ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک عمران خان رہا نہیں ہوتے پارٹی کے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان ناراض ضرور ہیں مگر عمران خان کے نزدیک علی امین گنڈاپور کی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔
علی امین گنڈاپور کے استعفے سے متعلق بیرسٹر سیف کا مؤقفوی نیوز نے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے علی امین گنڈاپور کے 90 روزہ اعلان اور سیاست چھوڑنے کے حوالے سے سوالات کیے تاہم انہوں نے اپنے میڈیا پرسن کے ذریعے جواب دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور کے سیاست چھوڑنے یا ڈیڈلائن سے متعلق براہ راست بات نہیں کی۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور سمیت پوری پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم ہے۔
ترجمان کے پی حکومت نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان ایک سیاسی قیدی ہیں جن پر جعلی حکومت نے جھوٹے مقدمات بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کسی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے لیے تیار نہیں ورنہ وہ نواز شریف یا زرداری کی طرح کب کے باہر آ چکے ہوتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو کئی بار ڈیل کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے ہر بار انکار کردیا۔
مزید پڑھیے: پشاور میں کوئی رکاوٹ نہیں، 27 ستمبر کے جلسے میں ایک کروڑ لوگ لے کر آئیں، علی امین کا اپنی ہی پارٹی کو چیلنج
بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ عمران خان کا مؤقف واضح ہے کہ انہوں نے قوم کی حقیقی آزادی کا عزم کیا ہوا ہے اور اس کے لیے وہ جیل سمیت ہر سختی برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر حقیقی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
علی امین گنڈاپور عمران خان کی رہائی گنڈاپور استعفیٰ گنڈاپور ڈیڈ لائن گنڈاپور سیاست وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور عمران خان کی رہائی گنڈاپور استعفی گنڈاپور ڈیڈ لائن گنڈاپور سیاست وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور عمران خان کی رہائی کے لیے کیا علی امین گنڈاپور علی امین گنڈاپور اس علی امین گنڈاپور نے علی امین گنڈاپور کے کہ علی امین گنڈاپور انہوں نے کہا کہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو کہ عمران خان ان کے مطابق کہنا تھا کہ چھوڑ دیں گے روزہ تحریک بیرسٹر سیف سیاست چھوڑ پی ٹی آئی کا اعلان علی اکبر کے خلاف رہے ہیں ہیں اور کے بعد ہے اور
پڑھیں:
عمران خان سے ملاقات، تین ججز کے حکم پر ایس ایچ او کہتا ہے میں نے آرڈر نہیں دیکھا، وزیراعلیٰ کے پی
میڈیا سے گفت گو میں سہیل آفریدی نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر تمام راستے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس عدالتی احکامات موجود ہیں اس کے بعد کون ہے جو مجھے روک رہا ہے؟ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کیلیے وزیراعظم کو اب کال نہیں کروں گا، اگر کسی کے پاس اختیار نہیں ہے تو اس سے بات کرنے کا کیا فائدہ۔ میڈیا سے گفت گو میں انہوں نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر تمام راستے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس عدالتی احکامات موجود ہیں اس کے بعد کون ہے جو مجھے روک رہا ہے؟ تین ججز کے احکامات موجود ہیں یہ کہتے ہیں ہم نے آرڈر نہیں دیکھے، عدالتی احکامات اتنے بے توقیر ہو چکے کہ ایک ایس ایچ او کہہ رہا ہے میں نے دیکھا ہی نہیں؟ اداروں کو اس پر فوری ایکشن لے کر اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانا چاہیے اگر ادارے اپنے احکامات نہیں منواتے تو پھر ہم سے گلہ ہی نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری تلخی اسی وجہ سے ہے کہ آئین و قانون کی پاس داری نہیں ہو رہی، میری تلخی غیر آئینی و قانونی نہیں ہے، میں کوئی دھمکی یا ایسا لہجہ استعمال نہیں کر رہا جو قانون و آئین کے دائرے سے باہر ہو، میر احق ہے کہ اگر کوئی آئین و قانون پر عمل نہیں کر رہا تو اسے تھوڑے تلخ لہجے میں سمجھاؤں یہی میں کر سکتا ہوں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ محمود اچکزئی صاحب نے جو بات کی ہے وہ تجربے کی بنیاد پر کی ہو گی، میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں، محمود اچکزئی کو بانی نے تمام ذمہ داریاں دی ہوئی ہیں، ہم تنظیمی لوگ ہیں ہم اسی پر عمل کریں گے۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کو پہلے دن ہی درخواست کی تھی کہ کچھ کریں اور مجھے ملنے دیں اگر ان سے بات کرنے کی میری خواہش نہ ہوتی تو ان کی کال کی اٹینڈ نہیں کرتا، میں وفاق سے اچھا ورکنگ ریلیشن چاہ رہا تھا مجھے جو جواب ملا اس کے بعد مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں دوبارہ بتاؤں، اگر کسی کے پاس اختیار نہیں ہے تو اس سے بات کرنے کا فائدہ؟ ان کا کہنا تھا کہ وفاق ہمیں فیڈریشن یونٹ سمجھے اور ہمارے تین ہزار بلین سے زائد کے واجبات دے، واجبات ملنے پر ہم ترقی میں جو تھوڑے پیچھے رہ گئے اسے کور کرلیں گے، آئین و قانون کی بات کرنے کے باوجود میرے خلاف ایف آئی اے کا مقدمہ درج ہوگیا، اس کا مطلب ہے کہ میرا یہاں آنا فضول نہیں تبھی میرے خلاف ایف آئی اے کا پرچہ ہوا، میں ایک صوبے کا وزیراعلی ہوں اس کے باجود میرا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا، میں واضح کردوں، میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں یہ مجھے مکمل طور پر نہیں جانتے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کے پی میں انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کبھی نہیں رکے، یہ خود بھی کہہ چکے کہ 14 ہزار سے زائد آئی بی او آپریشن کر چکے ہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کے پی میں دہشت گردی نہیں ہو رہی، تمام اسٹیک ہولڈرز کو بند کمروں سے باہر آکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پالیسی اپنانے پڑے گی تو کوئی فوجی، سویلین شہید نہیں ہو گا۔ نہوں نے کہا کہ 20 سال سے اگر دہشت گردی ختم نہیں ہورہی تو دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں تبدیلی آنی چاہیے، ہم دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے مخالف نہیں، عام شہریوں کی شہادتوں پر ہمارا اعتراض ہے، فوجی شہداء بھی ہمارے اپنے ہیں ان پر ہم کبھی سوالات نہیں اٹھاسکتے جس پالیسی شفٹ کی بات ہم کرتے ہیں ہمیں پتہ ہے اس سے پاکستان میں امن آسکتا ہے۔