امریکی یہودیوں کی اکثریت غزہ جنگ کی خلاف ہوگئی، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
امریکا میں امریکی یہودیوں کی اکثریت جو پہلے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کی حامی تھی، اب تیزی سے مخالف ہورہی ہے۔ صرف مخالف ہی نہیں، وہ اسرائیلی کارروائی کو فلسطینیوں کی نسل کشی سمجھنے لگی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک تازہ سروے کے مطابق زیادہ تر امریکی یہودی اسرائیل کے غزہ میں جاری فوجی اقدامات سے سخت نالاں ہیں۔
سروے کے مطابق 61 فیصد امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کیے ہیں، جب کہ تقریباً 39 فیصد کے نزدیک اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے۔ صرف 29 فیصد کا خیال ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب نہیں ہورہا۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل غزہ جنگ بندی کا مطالبہ: امریکی یہودیوں نے نیویارک کے مجسمہ آزادی پر قبضہ کرلیا
یہ نتائج حیران کن سمجھے جا رہے ہیں کیونکہ امریکی یہودی برادری کی اسرائیل کے ساتھ تاریخی اور جذباتی وابستگی طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اختلاف اسرائیل اور امریکی یہودیوں کے تعلقات میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
جنگ کے پس منظر میں اختلافات کی شدت7 اکتوبر 2023 کو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے حملے میں تقریباً 1,200 اسرائیلی مارے گئے اور 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فوجی کارروائی شروع کی۔
دوسری طرف غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور شدید بھوک و قحط کا سامنا ہے۔
سروے میں شامل 68 فیصد یہودیوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی کارکردگی کو منفی قرار دیا، جن میں سے تقریباً نصف نے ان کی قیادت کو ’انتہائی ناقص‘ کہا۔
امریکی یہودی برادری اسرائیل کی کارروائیوں پر منقسم ہے 46 فیصد اس کی حمایت کرتے ہیں۔ 48 فیصد مخالفت کرتے ہیں۔ جب کہ عام امریکیوں میں صرف 32 فیصد اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔
خیالات میں تبدیلی: ابتدا میں حمایت، اب مایوسیکئی شرکاء نے کہا کہ ابتدا میں وہ اسرائیل کے جوابی حملے کو ضروری سمجھتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ جنگ کی شدت اور انسانی المیے نے ان کی رائے بدل دی۔
واشنگٹن کی ایک مصنفہ جولیا سیڈمین نے کہا کہ شروع میں اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، مگر دو سال بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ انسانی تکلیف کی یہ سطح شرمناک ہے۔
سروے کے مطابق، باوجود اختلافات کے، 76 فیصد امریکی یہودی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود یہودی قوم کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
ایک کاروباری ماہر باب ہاس نے کہا کہ اسرائیل کا ہونا یہودیوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے، لیکن نیتن یاہو حکومت کے اقدامات یہودیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
یہ تقسیم امریکی سیاست میں بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی ارکان بشمول یہودی سینیٹرز، اب اسرائیل پر پہلے سے زیادہ تنقید کر رہے ہیں۔
جولائی میں سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے سے متعلق قرارداد پر ووٹ دیا، جس کی حمایت زیادہ تر ڈیموکریٹس نے کی، اگرچہ یہ قرارداد منظور نہ ہو سکی۔
یہ قرارداد برنی سینڈرز (آزاد، ورمونٹ) نے پیش کی تھی، جو خود بھی یہودی ہیں اور اسرائیل کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔
اسی ماہ، سینیٹ لیڈر چک شومر اور دیگر یہودی اراکین نے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ شومر نے گزشتہ سال نیتن یاہو سے استعفے اور نئے انتخابات کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
نسل کشی کے سوال پر تقسیمسروے میں جب شرکاء سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، تو
39 فیصد نے کہا ہاں
51 فیصد نے کہا نہیں
10 فیصد غیر یقینی رہے۔
بوسٹن کی 59 سالہ ڈانا وِٹن نے کہا کہ اسے نسل کشی کہنا درست نہیں، کیونکہ اسرائیلی فلسطینیوں کو مکمل طور پر مٹانے کی کوشش نہیں کر رہے جیسے نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
دوسری جانب، جولیا سیڈمین نے کہا کہ وہ اس امکان کو رد نہیں کرتیں کہ یہ نسل کشی ہو سکتی ہے، میں یقین کی کیفیت میں نہیں ہوں، مگر جو کچھ ہو رہا ہے، بہرحال اس کا دفاع نہیں ہوسکتا۔
دلچسپ اعدادوشماررائے عامہ کے جائزہ میں عمر کے لحاظ سے واضح فرق دیکھا گیا۔
18 سے 34 سال کے 50٪ نوجوان یہودیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔
65 سال سے زائد میں یہ شرح صرف 30٪ کے قریب ہے۔
اسی طرح، مردوں کی اکثریت (56٪) اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے، جب کہ 55٪ خواتین مخالفت میں ہیں۔
تقریباً 60 فیصد امریکی یہودی چاہتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھے، مگر 32 فیصد کا کہنا ہے کہ امریکا بہت زیادہ حمایت کر رہا ہے جو 2020 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟
بروکلین کے ایک انجینئر میکس پارک نے کہا کہ اگر امریکا اسرائیل کو دی جانے والی امداد محدود کرے تو غزہ کے حالات فوراً بہتر ہو سکتے ہیں۔ یہودی اقدار انسانیت کے احترام کا درس دیتی ہیں، مگر اسرائیل ان اصولوں پر عمل نہیں کر رہا۔
امن کی امید باقیاگرچہ حالات مایوس کن ہیں، 59 فیصد امریکی یہودی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین امن کے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تاہم صرف 4 فیصد چاہتے ہیں کہ غزہ پر حماس کی حکومت ہو، جبکہ اکثریت منتخب فلسطینی حکومت کی حامی ہے۔
پارک کے بقول ’میں یہودی قوم اور سرزمینِ اسرائیل سے تعلق محسوس کرتا ہوں، لیکن موجودہ ریاست اسرائیل، جو ان اصولوں کی نمائندگی نہیں کرتی، کا میں ترجمان نہیں۔
یہ سروے واشنگٹن پوسٹ اور SSRS کی جانب سے 2 تا 9 ستمبر کے دوران کیا گیا۔
اس میں 815 امریکی یہودی بالغوں کو شامل کیا گیا، جن میں مذہبی اور ثقافتی دونوں شناخت رکھنے والے افراد شامل تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل کی غزہ جنگ امریکی یہودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل کی غزہ جنگ امریکی یہودی فیصد امریکی یہودی امریکی یہودیوں کہ اسرائیل اسرائیل کے یہودیوں کی اسرائیل کو کر رہا ہے نے کہا کہ کے مطابق کی حمایت حمایت کر نہیں کر کے ساتھ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
اسرائیل امریکی فنڈنگ سے غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے؛ زہران کا ٹرمپ کے سامنے کڑوا سچ
نیویارک کے پہلے نومنتخب مسلم میئر زہران ممدانی روایتی ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے جہاں ٹرمپ کے سامنے غزہ کا مقدمہ پیش کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافیوں سے مشترکہ گفتگو میں زہران ممدانی نے ایک سوال کے جواب میں اپنے دوٹوک مؤقف کو دہرایا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی موجودگی میں زہران ممدانی نے مزید کہا کہ امریکیوں کے ٹیکس دہندگان کا پیسا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں استعمال کر رہا ہے۔
نیویارک کے نومنتخب میئر نے مزید کہا کہ نیویارک کے بہت سے شہری چاہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کا پیسا جنگوں میں نہیں بلکہ مقامی ضروریات بالخصوص مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خرچ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے زہران ممدانی کے اس جواب پر کہا کہ ہم دونوں ہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اس بات کی تردید کرتے آئے ہیں کہ امریکیوں کا پیسا غزہ جنگ میں استعمال نہیں ہو رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نیویارک کے نو منتخب میئر زہران ممدانی سے پہلی دوستانہ اور بالمشافہ پہلی ملاقات کئی ماہ سے جاری تلخ بیان بازی کے بعد ہوئی ہے۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مختلف سیاسی نظریات رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کی تعریف کی اور نیویارک شہر کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
79 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن کے وقت 34 سالہ زہران ممدانی کو دیوانہ لیفٹسٹ، کمیونسٹ اور یہود مخالف قرار دے چکے تھے۔
تاہم آج پہلی بالمشافہ ملاقات میں زہران ممدانی کے انتخابات میں کامیابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جتنا سوچا تھا، اس سے کہیں زیادہ باتوں پر اتفاق پایا۔
REPORTER: Are you affirming that you think President Trump is a fascist?
MAMDANI: I've spoken about-
TRUMP: That's okay, you can just say yes. Okay? It's easier.
MAMDANI: Yes.
TRUMP: It's easier than explaining it. I don't mind. pic.twitter.com/AJjiRndudf
ایک موقع پر صحافیوں نے زہران ممدانی سے سوال کیا کہ کیا وہ ٹرمپ کو ’’فاشسٹ‘‘ سمجھتے ہیں؟ جس پر ممدانی جواب دینے لگے تو ٹرمپ نے انھیں بیچ میں روکتے ہوئے کہا کہ آپ بس ہاں کہہ دیں، وضاحت دینے یا سمجھانے سے زیادہ آسان ہاں کہہ دینا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ الیکشن میں پہلی بار نیویارک کے مسلم منتخب ہونے والے زہران ممدانی یکم جنوری 2026 کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔