کیا اسد عمر دوبارہ میدانِ سیاست میں کودنے والے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کے 2 سال قبل سیاست سے خاموشی سے کنارہ کش ہونے کے بعد، اب ایک بار پھر ان کی واپسی سے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے جانب سے متعدد سیاسی، معاشی، بین الاقوامی اور قومی امور پر دیے گئے بیانات نے سیاسی حلقوں میں یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا اسد عمر عملی سیاست میں دوبارہ متحرک ہونے جا رہے ہیں؟
وی نیوز نے اسد عمر سے متعدد بار رابطوں کی کوشش کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اسد عمر ایک مرتبہ پھر سے سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے ہیں؟ تاہم اسد عمر نے اس حوالے سے کوئی جواب نہ دیا۔
ماضی میں عمران خان کے قریبی رفقاء میں شامل اسد عمر نے 2023 میں سیاست سے دستبرداری اختیار کی تھی۔ تاہم سوشل میڈیا پر ان کی حالیہ سرگرمیاں، پی ٹی آئی قیادت سے تعلق کا اظہار، حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید اور بین الاقوامی امور پر رائے دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ سیاسی دھارے کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فیصلے تحریک انصاف کے حق میں ہوں یا خلاف، پاکستان میں ہونے چاہییں، اسد عمر
معاشی محاذ پر بات کرتے ہوئے اسد عمر نے موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پر سخت تنقید کی اور کہا کہ آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کو ہیرا پھیری کرنے پر پہلے بھی پکڑا تھا، اور اس بار 11 ارب ڈالر کے معاملے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان حکومت کی معاشی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
بین الاقوامی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے امریکا کی جانب سے بگرام ایئر بیس دوبارہ حاصل کرنے کی ممکنہ کوشش پر کہا کہ چین، روس، پاکستان، بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کا اس کوشش کی مخالفت کرنا خوش آئند ہے۔ ان کے بقول، ایسی کسی بھی کوشش سے پورے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔
جوڈیشل نظام سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم پر انہوں نے اسے عدالتی ڈھانچے کا بگاڑ قرار دیا ان کے بقول، یہ آئینی ترمیم طویل عرصے تک اثر انداز ہوتی رہے گی۔ ان کا یہ بیان ایک غیر سیاسی مگر پالیسی پر مبنی سنجیدہ نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔
اپنی سیاسی وابستگی کے سوال پر بھی اسد عمر کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’دعا ہے کہ آپ جلد اپنے چاہنے والوں کے درمیان ہوں‘۔ یہ بیان اُن کے عمران خان سے اب بھی قائم جذباتی اور نظریاتی تعلق کی غمازی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ غلط تھا، اسد عمر کی عمران خان پر سخت تنقید
انھوں نے حال ہی میں رہائی پانے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے عطاء اللہ اور ایم پی اے سعید آفریدی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ 7 ہفتے ناحق قید کے بعد ان کی واپسی خوش آئند ہے، ان پر الزام صرف یہ تھا کہ انہوں نے قبائلی علاقوں میں امن کے لیے آواز بلند کی۔
بھارت کے حوالے سے اپنے بیان میں اسد عمر نے 2019 اور 2024 کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مودی کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے، افواجِ پاکستان نے دونوں بار اسے ’چنگا ٹھوکا‘ اور سبق سکھایا۔
اسی طرح فلسطین کے معاملے پر بھی انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فیصلہ کرلیں کہ یہ نام نہاد غزہ امن منصوبہ اچھا ہے یا برا؟ یا پھر یہ شریف خاندان کا وہی پرانا ’اچھا بچہ، برا بچہ‘ فارمولا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی والوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس میں اختلافات ہونا بڑی بات نہیں، اسد عمر
ان بیانات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اسد عمر دوبارہ سیاسی گفتگو کا حصہ بننے کے لیے پوری طرح تیار نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے اب تک کسی بھی سطح پر عملی سیاست میں واپسی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا، تاہم ان کی گفتگو اور عوامی رابطے یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں سیاسی میدان میں دوبارہ قدم رکھ سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسد عمر جس طرح سے معاشی و قومی معاملات پر کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں، وہ صرف ’ریٹائرڈ سیاستدان‘ کا کردار نہیں ہو سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسد عمر پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی انہوں نے رہے ہیں کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
در مدح ’’نا‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251122-03-6
باباالف
وزیراعظم اُسے کہتے ہیں جب ’’ہاں‘‘ کہے تو اس سے مراد ’’فوج کے شانہ بشانہ‘‘ ہونے کا اظہار ہو، جب ’’شاید‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’یقین جانیے‘‘ ہو اور جب ’’ناں‘‘ کہے تو اس کا مطلب ہے وہ وزیراعظم۔۔ شہباز شریف نہیں ہیں۔۔ وہ کئی زبانیں بول سکتے ہیں لیکن کسی بھی زبان میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ناں کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔ تاہم کئی دن پہلے جب 27 ویں ترمیم کی آشفتگی میں انہوں نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے برخلاف تا حیات عدالتی استثنیٰ لینے سے انکار کیا تو ہمیں خواب سا لگا۔ کیا واقعی۔۔ اس نے آندھی کے سامنے جھک کر۔۔ صبر اور گہری بے اعتنائی کا اظہار کیا ہے۔۔ کیا واقعی۔۔ اس نے جنرل اور صدر کو گزرنے دیا ہے۔۔ اور پھر سے سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔ اللہ کی شان ہے۔۔ وہ قادر مطلق ہے۔۔ سب کچھ کرسکتا ہے۔۔ شہباز شریف بھی دلیر ہوسکتے ہیں۔۔ آتش نمرود میں بے خطر اور تاحیات گرنے کا عزم کرسکتے ہیں۔ لگتا ہے فیض صاحب کروٹیں بدل رہے ہیں۔
جن کا دیں پیروی کِذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جِن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں اُن کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
استثنیٰ سے انکار کرکے وزیراعظم شہباز شریف نے جس ’’خود مختاری‘‘ کا اظہار کیا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی دیار فرنگ کے پیدائشی کو اپنے والد کا پتا لگ جائے۔ جنرلوں کے مقابل خود مختاری ہمارے اہل سیاست کی گم شدہ شناخت ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی خواب سے جاگ اٹھے اور کہے وزیراعظم کا حلقہ انتخاب اس کے عوام ہیں۔ وہی اس کا احتساب کرسکتے ہیں نہ کہ کوئی عدالت، کوئی قاتل، کوئی جج، کوئی دست جفا۔ کسی سیاست دان کا یہی وہ شیرہ اقتدار ہے جو اسے جنرلوں اور خود غرض سیاست دانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ثابت ہوا کہ سیاست دانوں میں اچھے کردار والے بھی ہوسکتے ہیں۔ پہلوان، طوائف اور سرکاری افسر سے الگ اور مختلف جسے بعداز پیشہ اپنا بڑھاپا خراب وخوار محسوس نہیں ہوتا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔۔ لیکن۔۔ کیا واقعی یہ انکار اصولی ہے؟ یا پھر 27 ویں ترمیم کے موقع پر جنرلوں سے اپنے ازار بندی رشتے کا انکار کرکے، اپنی راہ الگ تراش کر طاقت کے کسی ممکنہ نئے توازن میں شہباز شریف نے عوام کی نظروں میں اپنی جگہ پکی کرنے کی کوئی چال چلی ہے؟؟ اگلے الیکشن میں عوامی منظر نامہ تبدیل ہونے کے باوجود بھی وہ منظر میں رہنا چاہتے ہوں۔
اقتدار کی ہر ضمانت دستیاب ہونے کے باوجود شہباز شریف اب بھی اپنی پیٹھ پر عمران خان کی آتشی جلن محسوس کرتے ہیں۔ عوام کی نظر میں عمران خان اب بھی ہارٹ بریکر اور ڈریم میکر ہیں۔ 27 ویں ترمیم کے ذریعے جس طرح جنرلوں کی گرفت مضبوط ہوئی ہے عوام اپنے خواب جنرلوں سے منسوب ہوتے دیکھ کر ابھی تو متذبذب ہیں لیکن کچھ پتا نہیں کب برسر احتجاج آجا ئیں۔ کب عمران خان کا جادو سر پر چڑھ کر ناچنے لگے۔ بھارت سے جنگ مئی میں پاک فوج نے جس پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے، جن رفعتوں سے ملک کو ہم کنار کیا ہے، مودی کو خاک چٹائی ہے، دنیا بھر سے خراج تحسین وصول کیا ہے، شجاعت و سرفروشی اور جاں بازی کی تاریخ رقم کی ہے، اس کی وجہ سے عوام کے دل فوج کے ساتھ ساتھ دھک دھک کررہے ہیں لیکن راج سنگھاسن کا کچھ اعتبار نہیں۔ ایک چھوٹی سی چنگاری کب بھڑک کر سب کچھ خا کستر کردے کچھ پتا نہیں۔ ایسے میں ایک نکی جئی ناں، استثنیٰ نہیں چاہیے کی لگام عوامی نفسیات کو تھامنے کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ آخر عوام کے پاس جانے کا کوئی تو بہانہ ہو؟
پاکستان کی سیاست اور ریاست کی اور اس کے اداروں کی جو نئی صورت گری ہورہی ہے اس میں فوج پس منظر میں رہ کر ارمان پورے کرنا چاہتی ہے۔ وہ اداروں، بیانیوں اور سیاسی چہروں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھ رہی ہے۔ اب ٹرپل اے بریگیڈ ایوان وزیراعظم کے گیٹ پر چڑھی نظر آنا چاہتی ہے اور نہ ایوان وزیراعظم کے اندر۔ وہ جمہوریت کے سارے خوابوں کو خود جمہوریت کے ذریعے شکست دینا چاہتی ہے۔ ایسا پاکستان میں نہیں دنیا میں اکثرو بیش تر ہورہا ہے۔ جمہوریت کی ناکامی سب جگہ عیاں ہے۔ جمہوریت اب حقیقت نہیں ایک وہم اور فینٹسی ہے۔ اس کی رفوگری نہیں، صفائی نہیں، صفایا ہورہا ہے۔ ایک نیا نظام اس کی جگہ لے رہا ہے۔ جس میں وزیراعظم کا عہدہ ایک ایسا سایہ ہے ہر فائل کے کونے پر جس کے نظر آنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہباز شریف استثنیٰ کی خودمختاری دکھا کر اسے اختیار کا مترادف ظاہر کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ طوائف بیوروکریٹ سے بہتر ہوتی ہے اور سیاست دان فوج سے وہ پرائم منسٹر ہائوس کی دیوار پر قدآدم یہی لکھوانا چاہتے ہیں۔
پہلے ہم شہباز شریف کو بحیثیت مقرر بہت ہلکا لیتے تھے۔ بحیثیت مقرر ان کی سب سے شاندار پر فارمنس وہ تھی جب انہوں نے ہاتھ نچا نچا کر زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آگے لگے مائیک ادھر اُدھر پھینک دیے تھے۔ اس وقت وہ فن مقرری کی ایسی فیکٹری تھے جسے جتنا جلد ضبط کرلیا جاتا شر۔ آفت کے عین مطابق ہوتا۔ بحیثیت سیاست دان ان کی شاندار پرفارمنس وہ تھی جب وہ عمران خان کی جیل میں تھے۔ عمران خان خود کو تا حیات وزیراعظم اور اپوزیشن کو تا حیات جیل کی چکی پیستے دیکھتے تھے۔ شہباز شریف نے اس وقت نہ صرف اپنے اندر کے سکوت اور سیاست کو رہنما بنایا، نوازشریف کے مشورے سے گریز کیا اور اندر ہی رہتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے وہ رشتے استوار کیے کہ آج وہ ایوان وزیراعظم کے اندر اور جیل سے باہر ہیں اور عمران خان جیل کے اندر اور ایوان وزیراعظم سے باہر۔
عمران خان ہوں، شہباز شریف ہوں، گرامی قدر جرنیل ہوں یا پھر گروہ مصنفین، سانسوں کی ہانپتی آندھیوں، زندگی کی کچلی وحشتوں کو ان کی ہاں پر یقین ہے اور نہ ناں پر۔ بے چہرہ سورما جیل کے اندر ہوں یا جیل کے باہر، جی ایچ کیو میں ہوں یا عدل کے ایوانوں میں سب تا حیات کیلے کے چھلکے پر پھسلنے کو انجوائے کرنا اور اس پر سے گرنے کو سجدہ برائے فلاح عوام باور کرانا چا ہتے ہیں۔
آہ یہ فانی دنیا
بھول جانے والے لوگ
ختم ہو جانے والی لذتیں
مٹ جانے والے نام
وقتی خوشیاں، عارضی مسرتیں
رک جانے والی سانسیں
اور پھر
کل نفس ذائقۃ الموت