نیا ٹریفک آرڈیننس کراچی کے شہریوں کے لیے نیا عذاب
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کراچی کے شہری گزشتہ کئی سالوں سے مسائل کا شکار ہیں ۔کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح مسائل میں بھی جبکہ مالی وسائل کا منصفانہ استعمال نہیں ہو رہا ہے ۔کراچی کی سڑکوں پر چلنا اب صرف ایک آزمائش نہیں بلکہ خوف کا دوسرا نام بن چکا ہے ۔ حالیہ دنوں سندھ حکومت نے موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں میں جو ہوش رُبا اضافہ کیا ہے ، اُس نے شہریوں کو شدید اضطراب، غم و غصے اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، ناقص سڑکوں اور ناقابلِ برداشت پیٹرول قیمتوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔عوام، کاروباری طبقہ ،صنعتی مالکان اور تاجر حضرات پہلے ہی بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، بھاری بھرکم ٹیکسوں، پانی کی عدم دستیابی ،گیس کی لوڈشیڈنگ، شہری جرائم میں اضافہ اور عدم تحفظ جیسے سنگین مسائل کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔اب ایک نئی مشکل کا سامنا ہے ۔
تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ
اور اب ٹریفک جرمانوں کی نئی شرحوں نے ان کے بقیہ سکون پر بھی کاری ضرب لگائی ہے ۔شہری حلقے سوال اُٹھا رہے ہیں کہ آخر حکومت کا مقصد عوامی نظم و ضبط قائم کرنا ہے یا خزانے کی کمی پوری کرنا؟ اگر اصلاحِ احوال مقصود ہوتی تو پہلے عوامی آگاہی مہمات چلائی جاتیں، روڈ انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جاتا، اشاروں اور لین مارکنگ کو درست کیا جاتا، اور اس کے بعد مرحلہ وار اصلاحی جرمانے متعارف کرائے جاتے ۔ لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹا ہے ۔سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹریفک نظام ناقص ہے ، جگہ جگہ اشارے غائب ہیں، پارکنگ اسپیس کا وجود نہیں، مگر جرمانے یوں بڑھا دیے گئے ہیں جیسے عوام کی جیبیں ڈالرز سے بھری ہوں۔اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی موٹر سائیکل سوار سے معمولی خلاف ورزی سرزد ہو جائے تو جرمانہ اُس کی بائیک کی آدھی قیمت سے بھی زیادہ بنتا ہے ۔ شہری بجا طور پر کہتے ہیں کہ "اب موٹر سائیکل بک جائے گی مگر ایک جرمانہ بھی پورا نہ ہوگا۔فوڈ پانڈا، بائیکیا، ان ڈرائیو اور یینگو جیسے سروس پلیٹ فارمز کے رائیڈرز جو روزانہ چند سو روپے کما کر گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں، اُن کے لیے ہزاروں روپے کے جرمانے کسی عذاب سے کم نہیں۔ اُن کی موٹر سائیکلوں کی قیمت اتنی نہیں جتنا جرمانہ کیا جا رہا ہے لیکن اب ایک چھوٹا سا سگنل توڑنے پر ان پر ایسا مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے جو اُن کی کئی دنوں کی محنت سے بھی پورا نہیں ہو سکتا۔
حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ سخت جرمانوں سے ٹریفک ڈسپلن بہتر ہو گا، حادثات میں کمی آئے گی، اور قانون کی پاسداری بڑھے گی۔ بظاہر یہ موقف درست محسوس ہوتا ہے ، لیکن عملی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ ٹریفک نظم و ضبط کا مسئلہ صرف عوامی نافرمانی نہیں بلکہ نظامی بدانتظامی کا بھی ہے ۔ ٹریفک اہلکاروں کی رشوت خوری، قوانین کی غیر منصفانہ عملداری، اور سیاسی دباؤ کے تحت کی جانے والی نرمی یا سختی نے پورے نظام کو مذاق بنا دیا ہے ۔ اگر پولیس خود قانون پر عمل نہیں کرے گی، تو عوام سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ؟مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جرمانوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ صرف متوسط یا غریب طبقے پر پڑے گا۔ امیر طبقہ جو بڑی گاڑیاں چلاتا ہے ، ان کے لیے چند ہزار روپے کا جرمانہ محض جیب خرچ کے برابر ہے ، مگر وہی رقم ایک ڈیلیوری بوائے کے لیے تباہی ہے ۔ اس عدم توازن نے معاشرتی تقسیم کو مزید نمایاں کر دیا ہے ۔ غریب اور متوسط شہری اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بجائے اب ہر وقت اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی چالان اُن کے محدود بجٹ کو تباہ نہ کر دے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا سندھ حکومت نے کبھی سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا اُن گڑھوں کو بھرا گیا جن میں موٹر سائیکل سوار روز گرتے اور زخمی ہوتے ہیں؟ کیا ناقص ٹریفک سگنل، اندھیرے میں ڈوبے انڈر پاس، اور غیر قانونی پارکنگ مافیا کا خاتمہ کیا گیا؟ اگر نہیں، تو پھر شہریوں کو صرف سزا دینے سے اصلاح کیسے ممکن ہے ؟
پاکستان کے دیگر صوبوں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے دو بنیادی حکمتِ عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ پہلے مرحلے میں عوامی آگاہی اور انفراسٹرکچر کی بہتری، اور دوسرے مرحلے میں تدریجی سزا کا نفاذ۔ برطانیہ، جرمنی، ملائیشیا، حتیٰ کہ بنگلادیش تک میں ٹریفک جرمانوں کا نظام عوام کی آمدنی کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے تاکہ انصاف کا توازن برقرار رہے ۔ مگر سندھ میں نہ عوامی مشاورت ہوئی، نہ کوئی مرحلہ وار منصوبہ بندی بس ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ہزاروں شہری ایک ہی دن میں مجرم قرار دے دیے گئے ۔اس پالیسی کے معاشی اثرات بھی خطرناک ہیں۔ اندازہ لگایا جائے تو کراچی جیسے شہر میں روزانہ لاکھوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں سڑکوں پر نکلتی ہیں۔ اگر اُن میں سے چند فیصد بھی جرمانے کی زد میں آئیں، تو عوام کی جیب سے روزانہ کروڑوں روپے حکومت کے خزانے میں منتقل ہوں گے ۔ یہ ایک طرح کا بالواسطہ ٹیکس ہے جو بغیر کسی قانون سازی کے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر بھی اس اقدام کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔ شہری کہہ رہے ہیں کہ ”یہ جرمانے نہیں، عوامی جیب پر ڈاکا ہیں”۔ کچھ حلقے طنزیہ طور پر اسے ”سندھی اجرک پلیٹ”مہم کا تسلسل قرار دے رہے ہیں کہ پہلے پلیٹ کے نام پر فیس لی گئی، اب جرمانوں کے ذریعے کمزور طبقے کی کمر توڑی جا رہی ہے ۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے فیصلے کرنے سے پہلے عوامی نمائندوں، ٹریفک ماہرین اور شہری تنظیموں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ قانون تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب اسے عوامی اعتماد حاصل ہو، ورنہ وہ محض کاغذی ضابطہ رہ جاتا ہے ۔ اسی طرح شہری تنظیموں اور ٹرانسپورٹ یونینز کا کہنا ہے کہ حکومت نے نہ کسی مکینیکل ورکشاپ، نہ کسی رائیڈر ایسوسی ایشن سے مشورہ کیا، اور نہ ہی اس بات پر غور کیا کہ ایسے بھاری جرمانے معیشت کے کمزور طبقے کو کیسے متاثر کریں گے ۔ اگر قانون سازی میں اسٹیک ہولڈرز کو شامل ہی نہ کیا جائے تو وہ عوامی مفاد میں کیسے ہو سکتی ہے ؟
اب وقت ہے کہ سندھ حکومت اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے ۔ ضروری ہے کہ جرمانوں کی شرح کو عوامی قوتِ برداشت کے مطابق متوازن کیا جائے ، ٹریفک پولیس کی تربیت بہتر بنائی جائے ، اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو درست کیا جائے ۔ ڈیجیٹل چالان سسٹم، شفاف نگرانی، رشوت کے خاتمے اور شہری آگاہی کے پروگرام وہ اقدامات ہیں جن سے حقیقی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے ۔عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ شہریوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹریفک قانون کی پابندی دراصل اُن کی اپنی حفاظت کے لیے ہے ، مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کا معاشی گلا گھونٹ کر نظم و ضبط پیدا نہیں کیا جا سکتا۔آخر میں لازم ہے کہ حکومت سندھ جرمانوں کی شرح کم کرے ، عوامی آگاہی مہم فوری طور پر شروع کرے ، ٹریفک پولیس کو جوابدہ بنائے ، رشوت کے نظام کو جڑ سے ختم کرے ، شہریوں کے لیے آسان اقساط یا وارننگ سسٹم متعارف کرائے ، اور سب سے بڑھ کر ٹریفک نظام کو شفاف اور منصفانہ بنائے۔ قانون کا احترام تب ہی ممکن ہے جب قانون عوام کے لیے ہو، اُن کے خلاف نہیں۔ کیونکہ اگر قانون کا مقصد سہولت کے بجائے اذیت بن جائے ، تو پھر وہ قانون نہیں، جبر کہلاتا ہے ۔کراچی کے شہریوں سے اپیل ہے کہ قانون کی پاسداری کریں۔قانون کی خلاف ورزی سنگین جرم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جرمانوں کی قانون کی عوام کی رہا ہے ہیں کہ کے لیے کیا جا
پڑھیں:
پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ
—فائل فوٹوالیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ آج ہی الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ کر دے گا، کل سے حلقہ بندی شروع کرا دیں گے۔ کل حکومتی وزیر نے بیان دیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرے ہم الیکشن کرا دیں گے، خود تاخیر کر کے کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن تاخیر کر رہا ہے۔
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہوا، یہ صرف الیکشن کمیشن نہیں بلکہ مختلف حکومتوں کے لیے باعث شرمندگی ہے، جتنی حکومتیں آئیں ان کی مرضی نہیں تھی کہ بلدیاتی الیکشن کرایا جائے، پنجاب اور اسلام آباد میں الیکشن نہیں ہوا، وقت آگیا ہے الیکشن کمیشن فیصلہ کرے۔
یہ بھی پڑھیے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کرانا جمہوریت پر سوالیہ نشان، صدر کونسلر اتحاد الیکشن کمیشن نے آرڈر کر دیا تو پنجاب کو بلدیاتی الیکشن کرانے ہوں گے: چیف الیکشن کمشنرانہوں نے کہا کہ ہمیں اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے، الیکشن کمیشن فیصلہ محفوظ کر رہا ہے، اگر اتنے مخالف ہیں تو آئین و قانون میں ترمیم کر دیں کہ مقامی حکومت ہونی نہیں چاہیے، الیکشن کمیشن آج پنجاب بلدیاتی حکومت سے متعلق فیصلہ سنا دے گا۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ ڈالی، 5 مرتبہ مقامی حکومت کے قوانین بدلے گئے، چھٹی مرتبہ قانون میں ترمیم ہو رہی ہے۔ سندھ، بلوچستان، کے پی، کنٹونمنٹ میں بہت کوشش سے بلدیاتی انتخابات کرائے، سب صوبائی حکومتوں نے تاخیر کی اور رکاوٹیں ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کی بلدیاتی الیکشن کی مدت 31 دسمبر 2021 کو مکمل ہوگئی تھی، ہم نے 3 مرتبہ پنجاب میں حلقہ بندی کی، الیکشن شیڈول کا ایک بار اعلان کیا، مقامی حکومت کا پنجاب کو فیڈ بیک دے کر بھیجا، چیف سیکریٹری نے بتایا تھا پنجاب اسمبلی میں مقامی حکومت نے بل بھیج دیا ہے۔
ڈی جی قانون کا کہنا ہے کہ 2022 کے رولز کے مطابق اگر ای وی ایم نہ ہو تو بیلٹ پیپرز پر بلدیاتی الیکشن ہو سکتا ہے، الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ نہیں ہے، پنجاب میں الیکشن انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ابھی 2022 کا بلدیاتی حکومت کا قانون موجود ہے، 2022 کے بلدیاتی حکومت کے قانون کے تحت حلقہ بندی پر الیکشن ہو سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا بلدیاتی الیکشن میں رکاوٹ کے سنجیدہ نتائج ہوں گے، پنجاب حکومت کی مدت پوری ہوئے تین سال ہو چکے ہیں، 2022 کا قانون ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے، 2022 کے قانون پر ہمیں عملدرآمد کر کے معاملات چلانے چاہئیں، پنجاب حکومت کہتی ہے ہمارا قانون نہیں بنا ہے، وہ کوئی ایسی چیز نہیں کر سکتے جس سے الیکشن کمیشن کا اختیار چھینا جائے، پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کی پابند ہے، لاہور ہائی کورٹ میں کیس 14 اکتوبر کے لیے مقرر ہے، انہیں بھی جواب دینا ہے، پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں تین سال 9 ماہ کی تاخیر ہو چکی ہے، 2013 کا بلدیاتی حکومت کا قانون ہے، ہماری ذمہ داری ہے بلدیاتی الیکشن کرانا۔
پنجاب حکومت کے حکام نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے چھ اگست کو قانون کلیئر کردیا، پھر سیلاب آگیا اور اسمبلی اجلاس نہیں ہو سکا، کمیشن کے نوٹس پر ہم نے حکومت کو آگاہ کیا، حکومت نے کہا ہے جیسے اسمبلی اجلاس ہو گا اس میں قانون منظور کرالیں، جیسے اسمبلی کا اگلا اجلاس ہوگا قانون منظوری کے لیے پیش کردیں گے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے لاہور ہائی کورٹ میں انتخابات کی درخواست دی، مئی میں پنجاب حکومت نے بتایا قانون سازی قانون سازوں کا اختیار ہے کوئی ٹائم نہیں دے سکتے، اگر پنجاب آج الیکشن کا نہیں مانتا تو 2022 کے قانون پر حلقہ بندی پر بلدیاتی الیکشن کراسکتے ہیں۔
اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں اب پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں پیشرفت کرنی چاہیے، پنجاب بلدیاتی حکومت کا سابقہ 2022 کا قانون ابھی موجود ہے، سابقہ قانون کے تحت پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہو سکتے ہیں۔