کراچی:

شہر قائد میں نافذ کیے گئے ای چالان کے خلاف درخواستوں پر عدالت عالیہ نے حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔

سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں متعارف کرائے گئے ای چالان سسٹم کے خلاف سیاسی جماعتوں، ٹرانسپورٹ مالکان اور شہریوں کی درخواستوں پر فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ اور دیگر حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر جرمانے لاہور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اس لیے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مختلف شہروں کے حالات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں، اس لیے ان کا سادہ موازنہ مناسب نہیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ بس مالکان کو مسافروں کو بٹھانے تک کی اجازت نہیں دی جاتی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بسیں اسٹینڈز پر ہی روکی جائیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ شہر میں مناسب بس اسٹینڈز ہی موجود نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ شہری مسائل سے وہ خود بخوبی واقف ہیں اور تمام متعلقہ فریقین کے جوابات آنے کے بعد کیس کو ایک ساتھ سنا جائے گا۔

درخواستوں میں چیف سیکرٹری سندھ، صوبائی حکومت، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک پولیس، نادرا، ایکسائز اور دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا ہے، جن میں  شہریوں اور جماعتوں کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھاری جرمانے محض آمدن بڑھانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت نے 27 اکتوبر کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کا افتتاح کیا تھا، جس کے تحت ایک ہفتے میں ہی سیٹ بیلٹ، ہیلمٹ اور شیشوں سے متعلق خلاف ورزیوں پر تقریباً 30 ہزار چالان جاری کیے گئے جن کی مجموعی رقم کروڑوں روپے بنتی ہے۔

اگرچہ شہریوں اور سیاسی حلقوں نے ای چالان پر تنقید کی ہے، تاہم بعض حلقے اس بات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ اس نظام کے بعد ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں مقررہ لائن پر رکنے لگی ہیں اور موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدالت نے

پڑھیں:

کراچی کی سڑکیں، ناقص کام کی گواہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251124-03-8
امیر محمد خان
بیس ملین تین لاکھ (سرکاری اعدادو شمار) کی آبادی والا شہر جہاں 17 سال سے پاکستان پیپلز پارٹی کی زیادہ تر واحد سیاسی جماعت حکمرانی رہی اور تاحال ہے، کراچی کی میونسپلٹی کی ذمے دار اس عرصے میں تقریباً متحدہ قومی مومنٹ 12 سال رہی مگر اس کی سڑکیں دیکھ کر کوئی یہی کہہ سکتا کہ اسے عروس البلاد (شہروںکی دلہن) کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا گیا ہے یا جس نے کہا ہے اس نے مذاق کیا ہے، اتنی طویل حکومتوں، بلدیاتی حکومتوں کے باوجود شہر کی 95 فی صد سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں، اگر اس میں بارش ہوجائے، عیدالاضحیٰ آجائے تو سونے پر سہاگہ ہے کھنڈر نما سڑکوں پر ٹریفک کا ازدحام انسان کو رونے پر مجبور کردیتا ہے یہ شہر ہے جو پاکستان کے ٹوٹل ریونیو کا 53,38 فی صد فراہم کرتا ہے جو پاکستان جی ڈی پی کا 25 فی صد فراہم کرتا ہے، عوام پر ٹیکسوں میں کوئی چھوٹ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں ٹریفک کی بے ترتیبی نے سارا نظام تلپٹ کررکھا ہے اور یہ بے ترتیبی سڑکوں کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ہے، نئی سڑکیں بنانے کے لیے سڑکیں کھود دی جاتی ہیں اور ایک عرصہ اپنی مرمت کا انتظار کرتی، جب مرمت کی قسمت جاگتی ہے تو ناقص سامان استعمال کرتے ہوئے ایسا انتظام کیا جاتا ہے کہ وہ سڑکیں ایک بارش کی مہمان ہوں، سڑکیں بنانے کے لیے توڑ پھوڑ کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بجٹ آنے والا ہو۔ پاکستان میں کرپشن نہ ہو تو یہ ملک جنت ہے سڑکوںکی ممکنہ مرمت کے بغیر اب ای چالان شروع ہوگئے ہیں اپنی تنخواہوں سے زیادہ سڑک پر کمانے والے ٹریفک پولیس اہلکار شور مچا رہے کہ ہمارا گزارہ نہیں، سندھ حکومت کا اقدام جائز ہے ہر حکومت اپنے علاقے میں تمام تر سہولت پہنچانے کے بعد ٹیکس اور تادیبی کارروائی میں حق جانب مگر کھنڈر نما سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کا لاگو کردینا ایک زیادتی ہے۔ ٹریفک اہل کار سڑک پر رقم لینے کے مجاز اس لیے ہوتے ہیں چونکہ وہ رش والے علاقوں جیسے صدر کا علاقہ، الیکٹرونک مارکیٹ کا علاقہ وہاں کی ’’پیدا‘‘ سے رقم کی تقسیم کے ڈانڈے اوپر تک ملتے ہیں، میں کراچی میں رہا ہوں صحافتی ذمے داریوں میں مجھے علم ہے زیادہ ’’پیدا‘‘ والے علاقوں میں ڈیوٹیاں صرف ایسے ہی نہیں لگتیں، ڈیوٹی پر مامور کرنے والے سے علاقہ ’’خریدنا‘‘ پڑتا ہے اس کا اظہار خود ایک سندھ کے سابق وزیر مجھ سے کر چکے ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے انہوں نے کام بھی کیا ہوگا مگر یہ کام ہمارے سسٹم میں آسان نہیںہے ایک سابقہ گورنر کے بھائی کینیڈا سے خاص طور پر تشریف لاتے تھے اور مصروف علاقوں میں جہاں پیدا زیادہ کے توقع ہوتی ہے وہ علاقے فروخت کرکے واپس کینیڈا چلے جاتے اب شورو غل ہے کہ ای چالان کی وجہ سے بھاری جرمانے آرہے ہیں، لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں۔

کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی سادہ سی مثال ای چالان کے پہلے دن کے ابتدائی 6 گھنٹوں کی سرکاری کارروائی سے سامنے آچکی ہے جس میں 2 ہزار 662 الیکٹرونک چالان ہوئے جو مجموعی طور پر سوا کروڑ روپے سے زائد کی رقم کے تھے۔ حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کا شہریوں کو قوانین کا پابند بنانا ایک اچھی بات ہے جس کی پذیرائی کی جانی چاہیے لیکن یہ پذیرائی اسی صورت ممکن ہے جب شہریوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہوں، سندھ حکومت اور اس کے محکمہ پولیس نے الیکٹرونک ٹریفک چالان کے ضمن میں کراچی کے شہریوں کے ساتھ جو امتیاز برتا ہے اس کی اندرون ملک سے بیرون ملک تک ہر سطح پر مخالفت نہیں بلکہ مذمت کی جارہی ہے اور تقریباً سب ہی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جس شہر کا کوئی انفرا اسٹرکچر ہی نہ ہو وہاں قوانین کے نام پر مہنگے ترین چالان کا اجرا کیا جانا شہریوں پر ظلم کے مترادف ہے۔ دوسری جانب فیک نیوز والے عوام کو صوبائی تعصب کی طرف لے جارہے ہیں کہ یہ کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جب کہ پنجاب میں ٹریفک جرمانے عوام کی دسترس سے باہر نہیں وہاں معمولی جرمانے ہیں یہ بیان عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے جیسے پہلے جرمانے کم تھے ہر صوبے میں اسی طرح پنجاب میں بھی تھے اب وہاں بھی جرمانوں کی شرح بڑھادی گئی ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ حکومت نے سڑکوں کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے آرام دہ بنا رکھا ہے ایسے میں ان کا ٹریفک جرمانوں کو بڑھا دینا ناقابل اعتراض ہے کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے، سگنل توڑنے کی صورت میں کراچی میں جرمانہ 5 ہزار روپے اوور اسپیڈنگ پر کراچی میں 5 ہزار روپے ون وے کی خلاف ورزی میں کراچی میں اس پر 25 ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے، صوبہ سرحد، بلوچستان نے بھی ٹریفک جرمانوں کی رقم میں اضافہ کردیا ہے ان جرمانوں کا مطلب شہریوں کی جان کی حفاظت ہے۔ کراچی میں تقریباً روزانہ ہی نوجوان اور خواتین، بچے، بوڑھے آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے نشے میں دھت ڈرائیورز کے ہاتھوں بڑے بڑے ٹرکس سے کچل دیے جاتے ہیں، مالکان اشرافیہ ہیں اس لیے شاید ہی کسی جان لیوا حادثے کا ذمے دار ڈرائیور قانون کی گرفت میں آتا ہے لوگوں کے تحفظات ہرگز غلط نہیں، صرف کراچی کی چیدہ سڑکوں پر کیمرے لگا کر پورے شہر کو تذبذب، پریشانی اور ہیجان میں مبتلا کرنا انہیں خوفزدہ کرنے کے مترادف ہے، ستم یہ بھی ہے کہ ’’بلاول ہائوس‘‘ کے قریب کیمرے ہی دو دن میں چوری ہو گئے ’’چالان ہوگا نہ جرمانہ‘‘۔

کراچی کے شہریوں کو شکایت ہے کہ سسٹم کا اطلاق صرف کراچی کے شہریوں پر ہی کیوں کیا گیا؟ جب کہ قانون سازی پورے صوبے کے لیے کی گئی ہے اگر قانون ہے تو پورے صوبے کے لیے یکساں طور پر نافذ ہونا چاہیے۔ یہ شکایت درست کہ دیگر صوبوں میں سنگین خلاف ورزیوں کے جرمانے سندھ کے مقابلے میں کم ہیں مگر اتنے کم نہیں جتنا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ بسوں اور ڈمپرز کے مالکان مراعات یافتہ لوگ ہیں وہ عدالت چلے گئے ہیں کہ یہ جرمانے زیادہ ہیں عدالت نے ان کی درخواست پر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 نومبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ- پاکستان سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جسے انہوں نے شہر کی پہلے سے مشکلات کا شکار آبادی پر ’’غیر منصفانہ بوجھ‘‘ قرار دیا۔ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں جب شہری انتظام ان کے پاس 12سال رہا تو انہوں نے کون سی سڑکیں درست بنائیں یا پائیداری سے سڑکیں تعمیر کیں انہوں نے جرمانے اور خرابی کے نظام کو ’’حکومتی نااہلی اور بدعنوانی کا براہ راست نتیجہ‘‘ قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’’کراچی کی سڑکیں گڑھوں سے بھری پڑی ہیں، ٹریفک سگنل کام نہیں کرتے اور پبلک ٹرانسپورٹ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے حالات میں شہریوں پر جرمانہ عائد کرنا نہ صرف ناانصافی ہے، بلکہ یہ حکومت کی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ایم کیوایم کے اس بیان پر مجھے خواجہ آصف کا جملہ یاد آگیا، (کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے) سگنل توڑنا، تیز رفتاری اور ون وہیلنگ جیسی خلاف ورزیاں معمولی جرم نہیں بلکہ جان لیوا حرکتیں ہیں جو ڈرائیوروں اور دیگر دونوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ جب تک سڑکیں بہتر نہ ہو، ترقیاتی اخراجات کا استعمال بہتر نہ ہو جرمانے کم کرنا ضروری ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں ای چالان کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد
  • کراچی میں ای چالان کے خلاف درخواستوں پر حکم امتناع کی استدعا مسترد
  • کراچی: ای چالان کے خلاف فوری حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد
  • کراچی میں ہیلمٹ قوانین مزید سخت، موٹر سائیکل سواروں کے لیے نئی شرط عائد
  • صوبہ بھر میں بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری
  • ای چالان سندھ کے دیگر شہروں میں تاحال کیوں لاگو نہیں ہو سکا؟
  • کراچی:ایم کیوایم پاکستان کا ای چالان کے نام پر بھاری جرمانے وصول کرنے کا اقدام عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • کراچی کی سڑکیں، ناقص کام کی گواہی
  • راولپنڈی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ای چالان سسٹم فعال