کراچی اور لاڑکانہ میٹرک بورڈ کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
کراچی: سندھ حکومت نے کراچی اور لاڑکانہ کے میٹرک بورڈز کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر جامعات و تعلیمی بورڈز سندھ، اسماعیل راہو نے بتایا کہ بجلی کے بحران کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تاکہ دونوں تعلیمی بورڈز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سولر سسٹم کی تنصیب سے امتحانات اور دفتری معاملات بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنا ممکن ہوگا۔
اسماعیل راہو نے مزید بتایا کہ محکمہ جامعات و بورڈز سندھ میں قانونی اور پالیسی سطح پر بھی اصلاحات کی گئی ہیں۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
تعلیم یا سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی؟ کیمبرج بورڈ کے امتحانات اور پاکستان کی قومی کمزوری
اسلام ٹائمز: آخرکار سوال یہ ہے کہ ہم کس نظام کو روئیں؟ مالی نقصان کو، تعلیمی بحران کو یا ذہین بچوں کی بیرون ملک روانگی کو؟ سچ یہ ہے کہ سب کو روکنا ہوگا، وقت ہے قومی شعور اور عملی اقدامات کا، بصورت دیگر ہم وہی کرتے رہیں گے جو برسوں سے کر رہے ہیں، اپنی نسل اور اپنا سرمایہ خود ہی باہر منتقل کرنا اور پھر افسوس کرنا، پاکستان میں تعلیم کو اگر صرف بین الاقوامی سٹیمپ کے حصول تک محدود رکھا گیا تو ہم نہ صرف اپنا خزانہ بلکہ اپنا مستقبل بھی گنوا بیٹھیں گے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ آج محض معیار، نصاب یا استاد کے معاملے تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ قومی خزانے، نوجوان ذہانت، ملکی مستقبل اور معاشرتی انصاف تک پہنچ چکا ہے۔ برٹش کونسل کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس سال پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ امیدوار او لیول کے امتحان میں حصہ لیں گے اور آٹھ مضامین کی فیس فی امیدوار 211000 روپے ہے، یعنی صرف ایک امتحان سے کیمبرج بورڈ پاکستان سے تقریباً 21 ارب روپے سالانہ وصول کرلے گا۔ یہ وہ رقم ہے جو ہمارے ملک کی ہائر ایجوکیشن، تحقیق اور مقامی تعلیمی اداروں کے لیے سب سے بڑی سرمایہ کاری کا تین سے چار گنا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا پورے سال کا ہائی ایجوکیشن بجٹ صرف 6 ارب روپے ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایک امتحان کی فیس ہماری پوری سالانہ ہائر ایجوکیشن کی سرمایہ کاری سے تین گنا زیادہ ہے، اور یہ صرف ایک امتحان کی بات ہے۔
جب ہم اے لیول، آئی جی ایس ای اور جی سی ایس ای کو بھی شامل کریں تو صرف غیر ملکی امتحانات کے ذریعے پاکستان سے باہر جانے والی رقم تقریباً 30 ارب روپے بنتی ہے اور چونکہ یہ امتحانات سال میں دو بار منعقد ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ایک سال میں پاکستان سے 50 ارب روپے محض ایک یونیورسٹی کے خزانے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ ایک وسیع تعلیمی، سماجی اور ثقافتی بحران کی نشاندہی بھی ہے، ہمارے ذہین طلباء جو ملکی ترقی اور خودمختاری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں وہ غیر ملکی تعلیمی نظام کی طرف راغب ہو رہے ہیں، یہ ذہانت اور قابلیت جو پاکستان میں ترقی کے لیے استعمال ہو سکتی تھی بیرون ملک منتقل ہو کر ہمارے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے، ہم اپنے ملک کی نوجوان نسل کو عالمی سطح پر معیاری مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہیں جبکہ غیر ملکی تعلیمی ادارے ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف مالی وسائل بلکہ علمی اور تخلیقی صلاحیتیں بھی اپنے قبضے میں لے رہے ہیں۔
یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام داخلی طور پر کمزور ہے اور عالمی تعلیمی منڈی میں ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر کام کر رہا ہے، ہم اپنے ہونہار طلباء کو مناسب مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور ملکی دولت مسلسل بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سرمایہ کاری کے بجائے انخلاء اور بچت کی کمی ہے جبکہ غیر ملکی ادارے ہمارے ملک میں داخل ہو کر اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس بحران کے حل کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے، سب سے پہلے ہمیں اپنے مقامی تعلیمی اداروں کی مضبوطی اور معیار کو بین الاقوامی سطح تک لے جانا ہوگا تاکہ طلباء کو ملکی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب ملے، دوسرے، ہمیں غیر ملکی امتحانات کے متبادل قومی امتحانی نظام قائم کرنا ہوگا جو نہ صرف معیاری بلکہ سستا اور سب کے لیے قابل رسائی ہو۔
تیسرے، ذہین طلباء کے لیے سستی اور معیاری مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ انہیں بیرون ملک تعلیم کی ضرورت نہ پڑے اور وہ اپنی صلاحیتیں پاکستان کی ترقی میں استعمال کریں، چوتھے، تعلیمی پالیسی میں مالی اور علمی وسائل کی قومی سطح پر حفاظت کی جائے تاکہ ملک کی دولت اور ذہانت صرف بیرون ملک منتقل نہ ہو۔ ورنہ ہم اپنا تعلیمی مستقبل بھی کھو دیں گے اور اقتصادی و سماجی وسائل بھی مسلسل خارجی منڈی کے ہاتھ میں چلے جائیں گے، ہم جو مر کر رسوا ہوئے، کیوں نہ غرق دریا ہو جائیں؟ یہ سوال محض طنز نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے، ہم اپنی نسل، اپنے ذہین بچوں اور اپنے وسائل کو خود ہی کھو رہے ہیں اور پھر افسوس میں مبتلا ہیں، ہمارے ہونہار طلباء جو بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں بیرون ملک جا کر غیر ملکی ممالک کی ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں جبکہ پاکستان ان کی صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے۔
یہ صورتحال صرف مالی نقصان نہیں بلکہ ملک کی خودمختاری، ترقی اور معاشرتی انصاف کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، ہماری ایلیٹ کلاس جو او لیول، اے لیول اور دیگر امتحانات پر لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے اپنے بچوں کے لیے عالمی معیار ضرور حاصل کرتی ہے مگر ملک کی تعلیمی ترقی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ آخرکار سوال یہ ہے کہ ہم کس نظام کو روئیں؟ مالی نقصان کو، تعلیمی بحران کو یا ذہین بچوں کی بیرون ملک روانگی کو؟ سچ یہ ہے کہ سب کو روکنا ہوگا، وقت ہے قومی شعور اور عملی اقدامات کا، بصورت دیگر ہم وہی کرتے رہیں گے جو برسوں سے کر رہے ہیں، اپنی نسل اور اپنا سرمایہ خود ہی باہر منتقل کرنا اور پھر افسوس کرنا، پاکستان میں تعلیم کو اگر صرف بین الاقوامی سٹیمپ کے حصول تک محدود رکھا گیا تو ہم نہ صرف اپنا خزانہ بلکہ اپنا مستقبل بھی گنوا بیٹھیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اصلاحات، قومی پالیسی اور مالی وسائل کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ نوجوان پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور قومی دولت بیرون ملک نہ جائے، یہی وہ وقت ہے جب سوچنا بھی ضروری ہے اور عمل کرنا بھی ضروری ہے۔