data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:۔ ملک میں جنوری 2023 کے دوران ہونے والے بڑے پاور بریک ڈاو ¿ن پر نیپرا نے تحقیقات مکمل کرتے ہوئے کے الیکٹرک کو آپریشنل ذمہ داریوں میں ناکامی کا مرتکب قرار دے دیا ہے۔ اتھارٹی نے بجلی کی ترسیل میں غفلت اور سسٹم کی خامیوں پر کے الیکٹرک پر 2 کروڑ 50 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

نیپرا کے مطابق کے الیکٹرک کی جانب سے دی گئی وضاحتیں تکنیکی حوالوں کے باوجود اطمینان بخش نہیں تھیں اور وہ اس بڑے بریک ڈاو ¿ن کا مناسب جواز فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ صرف نیشنل گرڈ کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں، کے الیکٹرک بھی اپنے سسٹم کی کمزوریوں کی ذمہ دار ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بار بار ٹرپنگ کے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک کے حفاظتی اقدامات مو ¿ثر نہیں تھے۔ بلیک اسٹارٹ پلانٹس میں موجود تکنیکی خامیاں تاحال برقرار ہیں جبکہ بلیک اسٹارٹ مشقوں کے باوجود حقیقی بحران میں کے الیکٹرک کی کارکردگی ناقص رہی۔

نیپرا نے واضح کیا کہ بلیک اسٹارٹ صلاحیت کی جو وضاحت دی گئی، وہ ناکافی اور غیر مو ¿ثر ثابت ہوئی۔ لائسنس ہولڈر کی جانب سے سسٹم انرشیا کا حوالہ تکنیکی طور پر درست ضرور ہے لیکن بریک ڈاو ¿ن کی شدت اور بحالی میں تاخیر کی وضاحت کے لیے یہ جواز کافی نہیں۔

کے الیکٹرک کو جواب جمع کرانے کے بعد باقاعدہ سماعت کا موقع دیا گیا۔ ابتدائی طور پر سماعت 14 نومبر 2024 کو مقرر تھی، جو کے الیکٹرک کی درخواست پر مو ¿خر ہوئی، بعد ازاں 20 مارچ 2025 کو نیپرا ہیڈ آفس میں دوبارہ سماعت ہوئی۔ اتھارٹی نے کے الیکٹرک کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15 روز کے اندر عائد کردہ جرمانے کی ادائیگی یقینی بنائے۔ فیصلے میں زور دیا گیا ہے کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کو مو ¿ثر، محفوظ اور بلیک آو ¿ٹ سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اصلاحات فوری طور پر کی جائیں۔

Aleem uddin.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے الیکٹرک کو

پڑھیں:

امریکی یہودیوں کی اکثریت غزہ جنگ کی خلاف ہوگئی، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیدیا

امریکا میں امریکی یہودیوں کی اکثریت جو پہلے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کی حامی تھی، اب تیزی سے مخالف ہورہی ہے۔ صرف مخالف ہی نہیں، وہ اسرائیلی کارروائی کو فلسطینیوں کی نسل کشی سمجھنے لگی ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک تازہ سروے کے مطابق زیادہ تر امریکی یہودی اسرائیل کے غزہ میں جاری فوجی اقدامات سے سخت نالاں ہیں۔
سروے کے مطابق 61 فیصد امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کیے ہیں، جب کہ تقریباً 39 فیصد کے نزدیک اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی  کر رہا ہے۔ صرف 29 فیصد کا خیال ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب نہیں ہورہا۔

یہ بھی پڑھیے  اسرائیل غزہ جنگ بندی کا مطالبہ: امریکی یہودیوں نے نیویارک کے مجسمہ آزادی پر قبضہ کرلیا

یہ نتائج حیران کن سمجھے جا رہے ہیں کیونکہ امریکی یہودی برادری کی اسرائیل کے ساتھ تاریخی اور جذباتی وابستگی طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اختلاف اسرائیل اور امریکی یہودیوں کے تعلقات میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔

 جنگ کے پس منظر میں اختلافات کی شدت

7 اکتوبر 2023 کو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے حملے میں تقریباً 1,200 اسرائیلی مارے گئے اور 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فوجی کارروائی شروع کی۔


دوسری طرف غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور شدید بھوک و قحط کا سامنا ہے۔

 امریکی یہودیوں کی رائے

سروے میں شامل 68 فیصد یہودیوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی کارکردگی کو منفی قرار دیا، جن میں سے تقریباً نصف نے ان کی قیادت کو ’انتہائی ناقص‘ کہا۔

امریکی یہودی برادری اسرائیل کی کارروائیوں پر منقسم ہے 46 فیصد اس کی حمایت کرتے ہیں۔ 48 فیصد مخالفت کرتے ہیں۔ جب کہ عام امریکیوں  میں صرف 32 فیصد اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔

 خیالات میں تبدیلی: ابتدا میں حمایت، اب مایوسی

کئی شرکاء نے کہا کہ ابتدا میں وہ اسرائیل کے جوابی حملے کو ضروری سمجھتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ جنگ کی شدت اور انسانی المیے نے ان کی رائے بدل دی۔
واشنگٹن کی ایک مصنفہ جولیا سیڈمین نے کہا کہ شروع میں اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، مگر دو سال بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ انسانی تکلیف کی یہ سطح شرمناک ہے۔

 اسرائیل سے جذباتی وابستگی برقرار

سروے کے مطابق، باوجود اختلافات کے، 76 فیصد امریکی یہودی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود یہودی قوم کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
ایک کاروباری ماہر باب ہاس نے کہا کہ اسرائیل کا ہونا یہودیوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے، لیکن نیتن یاہو حکومت کے اقدامات یہودیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔

 سیاسی اثرات

یہ تقسیم امریکی سیاست میں بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی ارکان بشمول یہودی سینیٹرز، اب اسرائیل پر پہلے سے زیادہ تنقید کر رہے ہیں۔


جولائی میں سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے سے متعلق قرارداد پر ووٹ دیا، جس کی حمایت زیادہ تر ڈیموکریٹس نے کی، اگرچہ یہ قرارداد منظور نہ ہو سکی۔
یہ قرارداد برنی سینڈرز (آزاد، ورمونٹ) نے پیش کی تھی، جو خود بھی یہودی ہیں اور اسرائیل کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔

اسی ماہ، سینیٹ لیڈر چک شومر اور دیگر یہودی اراکین نے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ شومر نے گزشتہ سال نیتن یاہو سے استعفے اور نئے انتخابات کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

 نسل کشی کے سوال پر تقسیم

سروے میں جب شرکاء سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، تو

39 فیصد نے کہا ہاں

51 فیصد نے کہا نہیں

10 فیصد غیر یقینی رہے۔

بوسٹن کی 59 سالہ ڈانا وِٹن نے کہا کہ اسے نسل کشی کہنا درست نہیں، کیونکہ اسرائیلی فلسطینیوں کو مکمل طور پر مٹانے کی کوشش نہیں کر رہے جیسے نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔

دوسری جانب، جولیا سیڈمین نے کہا کہ وہ اس امکان کو رد نہیں کرتیں کہ یہ نسل کشی ہو سکتی ہے، میں یقین کی کیفیت میں نہیں ہوں، مگر جو کچھ ہو رہا ہے، بہرحال اس کا دفاع نہیں ہوسکتا۔

دلچسپ اعدادوشمار

رائے عامہ کے جائزہ میں عمر کے لحاظ سے واضح فرق دیکھا گیا۔

18 سے 34 سال کے 50٪ نوجوان یہودیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔

65 سال سے زائد میں یہ شرح صرف 30٪ کے قریب ہے۔
اسی طرح، مردوں کی اکثریت (56٪) اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے، جب کہ 55٪ خواتین مخالفت میں ہیں۔

 امریکی امداد پر رائے

تقریباً 60 فیصد امریکی یہودی چاہتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھے، مگر 32 فیصد کا کہنا ہے کہ امریکا بہت زیادہ حمایت کر رہا ہے جو 2020 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟

بروکلین کے ایک انجینئر میکس پارک نے کہا کہ اگر امریکا اسرائیل کو دی جانے والی امداد محدود کرے تو غزہ کے حالات فوراً بہتر ہو سکتے ہیں۔ یہودی اقدار انسانیت کے احترام کا درس دیتی ہیں، مگر اسرائیل ان اصولوں پر عمل نہیں کر رہا۔

امن کی امید باقی

اگرچہ حالات مایوس کن ہیں، 59 فیصد امریکی یہودی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین امن کے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تاہم صرف 4 فیصد چاہتے ہیں کہ غزہ پر حماس کی حکومت ہو، جبکہ اکثریت منتخب فلسطینی حکومت کی حامی ہے۔

پارک کے بقول ’میں یہودی قوم اور سرزمینِ اسرائیل سے تعلق محسوس کرتا ہوں، لیکن موجودہ ریاست اسرائیل، جو ان اصولوں کی نمائندگی نہیں کرتی، کا میں ترجمان نہیں۔

یہ سروے واشنگٹن پوسٹ اور SSRS کی جانب سے 2 تا 9 ستمبر کے دوران کیا گیا۔
اس میں 815 امریکی یہودی بالغوں کو شامل کیا گیا، جن میں مذہبی اور ثقافتی دونوں شناخت رکھنے والے افراد شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل کی غزہ جنگ امریکی یہودی

متعلقہ مضامین

  • نیپرا نے کے الیکٹرک پر کروڑوں روپے جرمانہ کیوں عائد کیا؟
  • لندن ہائیکورٹ ، عادل راجہ پر 13کروڑ روپے بطور جرمانہ وہرجانہ عائد
  • نیپرا نے کےالیکٹرک پر ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ عائد کردیا، 15 روز میں جمع کروانے کا حکم
  • جنوری 2023 میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن، نیپرا کا کے الیکٹرک پر بھاری جرمانہ عائد
  • جنوری 2023بریک ڈاؤن؛نیپرا نے کے الیکٹرک کو ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ کردیا
  • ڈریپ نے 2 ادویات کو جعلی قرار دیے کرضبط کرنے کا حکم دیدیا
  • بنگلادیش میں بینکوں پر 21 ،پاکستان میں 93 فیصد ٹیکس عائد ہے، سپریم کورٹ میں وکیل کے دلائل
  • کمپٹیشن کمیشن نے اسٹیل انڈسٹری میں کارٹلائزیشن کے خلاف بڑا فیصلہ سنا دیا
  • امریکی یہودیوں کی اکثریت غزہ جنگ کی خلاف ہوگئی، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیدیا