سائنس دانوں نے دماغی بیماریوں پر قابو پانے کا نیا طریقہ دریافت کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بارسلونا اسپین کے سائنس دانوں نے چوہوں پر کیے گئے ایک تجربے میں نینو پارٹیکلز کے ذریعے الزائمرز (Alzheimer’s) بیماری کی علامات میں نمایاں کمی لانے کا دعویٰ کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق نینو پارٹیکلز — جو برہنہ آنکھ سے دیکھے نہیں جا سکتے اور جن کا قطر 200 نینو میٹرز سے بھی کم ہوتا ہے (یہ انسانی بال کی چوڑائی کا تقریباً 0.
الزائمرز کے مریضوں میں یہی رکاوٹ متاثر ہو جاتی ہے، جس کے باعث ایمیلائڈ-بیٹا نامی زہریلا پروٹین دماغ میں جمع ہونے لگتا ہے — ماہرین کے نزدیک یہی پروٹین بیماری کی بنیادی وجہ ہے۔ نینو پارٹیکلز اس رکاوٹ کو دوبارہ فعال کر کے دماغ کی صفائی کے قدرتی نظام کو بہتر بناتے ہیں، جس سے نقصان دہ پروٹینز کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔
بارسلونا کے انسٹیٹیوٹ فار بائیو انجینئرنگ آف کیٹیلونیا کے پروفیسر اور تحقیق کے سربراہ گوسیپے بٹاگلیا نے اس نئی تکنیک کو زبردست کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اگر دماغ کی قدرتی حفاظتی رکاوٹ کی مرمت کر دی جائے تو دماغ خود اپنی صفائی اور فعلیت دوبارہ بحال کر سکتا ہے۔”
پروفیسر بٹاگلیا نے امید ظاہر کی کہ یہ طریقہ آئندہ چند برسوں میں انسانوں پر بھی آزمایا جا سکے گا، اور اگر کامیاب رہا تو الزائمر سمیت دیگر اعصابی امراض کے علاج میں ایک نئی راہ کھل جائے گی۔
ماہرین کے مطابق نینو ٹیکنالوجی پر مبنی یہ تحقیق نہ صرف الزائمر کے علاج میں امید کی نئی کرن ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مستقبل میں انسانی دماغ کے خلیاتی نظام کو مرمت کر کے پیچیدہ دماغی امراض کا علاج ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ طریقہ کار کامیابی سے انسانوں پر بھی آزمایا گیا تو دماغی امراض کے علاج میں یہ ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نینو پارٹیکلز
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کے ماڈلز انسانوں سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں؟ تحقیق سامنے آ گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصنوعی ذہانت (اے آئی) اب ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، جس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ معلومات اور مواد تک فوری رسائی فراہم کرنا ہے۔ تاہم، جہاں یہ تعلیمی اور تخلیقی شعبوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے، وہیں بعض اوقات تجارتی اور منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ اے آئی ہمارے کام کو آسان بناتی ہے، مگر اس کے استعمال کی ایک بڑی قیمت توانائی کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ جنریٹو اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے اور چلانے کے لیے بے پناہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماڈل کی تربیت دراصل اسے وسیع اور پیچیدہ ڈیٹا فراہم کرنے کے مترادف ہے، اور جتنا زیادہ ڈیٹا ہوگا، اتنی ہی توانائی درکار ہوگی۔ تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی پر ایک سرچ گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً دس گنا زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ایک جنریٹو اے آئی ماڈل سے صرف ایک تصویر تیار کرنے میں اتنی توانائی خرچ ہوتی ہے جتنی ایک اسمارٹ فون کو چارج کرنے میں لگتی ہے۔ ان ماڈلز کو چلانے کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں طاقتور پروسیسرز اور کولنگ سسٹمز مسلسل فعال رہتے ہیں، جس سے توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی کا تقریباً 8 فیصد حصہ مصنوعی ذہانت کے شعبے سے متعلق تھا، اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح 2028 تک 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اے آئی کے ماحول دوست اور پائیدار استعمال کے لیے توانائی کی کھپت کو محدود کرنا ناگزیر ہے۔ اسی مقصد کے لیے محققین ایسے نئے ماڈلز پر کام کر رہے ہیں جو کم توانائی میں زیادہ مؤثر نتائج فراہم کریں۔ ان میں *ڈیپ سیک* جیسے توانائی کے مؤثر ماڈلز امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں، جو مستقبل میں مصنوعی ذہانت کو زیادہ ماحول دوست اور پائیدار بنانے میں مددگار ہوں گے۔