پچھلے دنوں یوٹیوب پر ایک قتل کا بہت چرچا ہوا، مزے کی بات یہ ہے کہ مارنے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ یہ قتل غیرت کے نام پر ہوا تھا، ماموں نے جان لی تھی جس میں لڑکی کے والد کی مرضی بھی شامل تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ برطانیہ میں ایک خاندان عرصے سے رہائش پذیر تھا، گھر کا واحد کفیل بیس پچیس سال قبل کام کی تلاش میں برطانیہ آیا، ہنرمند تھا، اس لیے اسے فوراً روزگار مل گیا، کئی سال اکیلے رہنے کے بعد اس نے اپنی فیملی کو برطانیہ بلا لیا، بچے چھوٹے تھے ان کا داخلہ اچھے اسکولوں میں ہو گیا۔
بیٹا اور بیٹی بڑے ہونے لگے تو اس نے اپنی بیٹی کا بیاہ کرنے کے لیے پاکستان میں قریبی رشتے داروں سے رابطہ کیا اور ایک جگہ رشتہ طے کر دیا۔ وہ برطانیہ کی آزادی اپنی اولاد خصوصاً بیٹی کے لیے برداشت نہ کر سکا۔ لڑکی کو جب یہ پتا چلا کہ اس کی شادی اس کے کزن سے کی جا رہی ہے جسے بچپن میں اس نے دیکھا تھا تو اس نے اس شادی سے صاف انکار کر دیا۔ باپ کو بہت غصہ آیا، جب وہ کسی طرح پاکستان میں شادی پر راضی نہ ہوئی تو والدین نے ایک چال چلی۔ لڑکی سے کہا ’’ تم ایک بار پاکستان چلو، اگر تمہیں لڑکا پسند نہ آیا تو ہم تمہاری شادی تمہاری پسند سے کر دیں گے۔‘‘ لڑکی باپ کی باتوں میں آگئی اور پاکستان آگئی۔
یہاں آ کر اسے اپنے باپ کے ارادوں کا علم ہوا، اس نے شادی سے انکار کر دیا، وہ کسی طور سے ایک پینڈو سے شادی کے لیے تیار نہ تھی اور باپ کسی طور سے ایک عیسائی لڑکے سے اس کی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، یہ دراصل دو تہذیبوں کا ٹکراؤ تھا، دو مذاہب کا ٹکراؤ تھا۔ باپ نے جب دیکھا کہ بیٹی کسی بھی طرح شادی کے لیے تیار نہیں ہے تو اس نے اپنے سالے یعنی لڑکی کے ماموں سے مشورہ کیا، گن بھی ماموں کو باپ نے ہی دی اور جب اس لڑکی نے کسی بھی طور اپنے کزن سے شادی نہ کرنے کا عندیہ دیا تو ماموں نے غیرت میں آ کر لڑکی کے باپ کی مرضی سے لڑکی کو قتل کر دیا۔
کہانی ختم ہو گئی پتا نہیں ماموں اور باپ کو سزا ہوئی یا نہیں، بس غیرت کے نام پر جو قتل ہوا، شاید اس کی ایف آئی آر بھی کٹی کہ نہیں۔ وہ لوگ جو بیس پچیس سال پہلے بیرون ملک گئے، وہاں کے ماحول میں رل مل گئے، بچوں نے انگریزی اسکولوں میں پڑھا، ماں باپ کو فخر ہوا، لیکن جوں ہی اولاد جوان ہوتی ہے ان ماں باپ کی اسلامی رگ پھڑکنے لگتی ہے اور انھیں پاکستان یاد آنے لگتا ہے، خاص کر بیٹیوں کے بیاہ کی فکر انھیں کھائے جاتی ہے۔ یہ لوگ جب ڈالر اور پاؤنڈ کما رہے ہوتے ہیں تو انھیں اپنا اسلامی کلچر یاد نہیں رہتا، بس جوں ہی لڑکیاں بڑی ہوئی نہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ کیسے اولاد کو پاکستان میں بیاہ دیں۔
وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس ماحول میں بچے پروان چڑھ رہے ہیں، وہ اسی میں رہنا چاہیں گے، آپ اپنی اولاد کے لیے مسلم کمیونٹی میں تلاش کیجیے ناں کہ پڑھی لکھی لڑکی کو کسی پینڈو کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیجیے۔ پنجاب کے گاؤں سے جو لوگ دیار غیر میں روزی روٹی کے لیے جا کر بسے ہیں ان کے ہاں یہی ہوتا ہے کہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنوں میں شادی ہو۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ لڑکیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارتی ہیں۔
چند خاندانوں کو میں بھی جانتی ہوں جو کم ازکم تیس پینتیس سال قبل دیار غیر گئے وہاں پر اچھی ملازمت کی، پھر کسی گوری یا کالی سے پیپر میرج کرلی، جب پاسپورٹ مل گیا تو جس سے پیپر میرج کی اسے طلاق دی اور پاکستان آ کر شادی کرلی۔ پھر کچھ عرصے بعد جب دو بچے ہوگئے تو میاں صاحب نے فیملی کو بلا لیا۔ بچوں کا داخلہ ہو گیا، ہنسی خوشی رہنے لگے۔
جب بیٹی جوان ہوئی تو پاکستان میں ایک فیملی میں اس کا رشتہ کر دیا، لڑکا انجینئر تھا اور بہت قابل تھا، لیکن ایک دن لڑکی کا فون لڑکے کے پاس آیا اور اس نے لڑکے سے کہا کہ’’ وہ رشتے سے انکار کر دے کیونکہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو کو پسند کرتی ہے جو انگریز ہے۔‘‘ لڑکے نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ماں باپ سے کہا کہ وہ اس رشتے سے انکار کردیں۔ ماں نے فون اٹھایا اور لڑکی کے باپ کو ساری حقیقت بتا کر رشتہ ختم کر دیا۔ ادھر اس لڑکی نے احتجاجاً لڑکے کے ساتھ رہنا شروع کر دیا پھر ایک دن دونوں نے کورٹ میرج کر لی۔
ایک اور خاندان میں یہ ہوا صاحب خانہ تقریباً چالیس سال سے امریکا میں مقیم تھے، سال میں ایک مرتبہ کراچی آتے اور بیوی بچوں کے ساتھ رہ کر واپس چلے جاتے ان کی تین بیٹیاں تھیں اور دو بیٹے۔ بڑی دو بیٹیوں کی شادی انھوں نے پاکستان ہی میں کی لیکن جب انھوں نے بیوی بچوں کو وہاں بلانے کا سوچا تو ان کی فیملی بہت خوش ہوئی، تین بچوں کے ساتھ وہ آرام سے رہنے لگے۔ اس وقت بڑے لڑکے کی عمر بائیس سال، چھوٹے کی آٹھ سال اور بیٹی کی عمر بارہ سال تھی۔ اس ہنسی خوشی رہنے والے خاندان کی زندگی میں پہلا پتھر اس دن آ کر لگا جب ان کی بیٹی ایک بوائے فرینڈ کو گھر لے آئی۔
ماں نے بہت برا بھلا کہا تو لڑکی نے پولیس کو بلا لیا کہ میرے پیرنٹس مجھے آزادی سے نہیں رہنے دیتے۔ بڑی مشکل سے جان بچی۔ یہاں تو والدین ٹھیک ٹھاک پٹائی بھی کر دیتے ہیں اور بچے کچھ نہیں بولتے کہ تربیت کے لیے کبھی کبھی اولاد کو مارنا بھی پڑتا ہے۔ اب وہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ادھر اُدھر جانے لگی، کبھی گھر بھی آ جاتی، لیکن اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اس کے ساتھ زور زبردستی کی گئی تو وہ پولیس کو بلا لے گی۔
ماں باپ اس قدر پریشان کہ کیا کریں، دوستیاں لڑکوں نے بھی بنائیں، لیکن انھوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ دونوں شادی پاکستان میں کریں گے۔ پھر والدین پاکستان آئے اور دونوں لڑکوں کے نکاح کر دیے، کاغذات تیار ہوگئے، لڑکیاں سسرال سدھاریں، لیکن ان کی بیٹی واپس نہیں آئی۔ پتا نہیں وہ کہاں ہے، پہلے تو کبھی کبھار گھر آ جاتی تھی لیکن اب تو اس کا کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہے؟
دیار غیر میں بیٹیوں کی شادیوں کے بعض اوقات نہایت بھیانک واقعات سامنے آتے ہیں۔ لڑکی والوں کی اولین ترجیح ’’ باہر‘‘ کی ہے۔ رشتے کرانے والیاں، شادی دفتر والوں سے یہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ باہر کا رشتہ لاؤ۔ بعض اوقات ایسی شادیاں لڑکیوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔ ایک لڑکی امریکا گئی وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ اس کو سارے گھر کے کام کرنے ہوں گے، گھر میں دو جوان نندیں اور ساس سسر تھے، جب وہ گھر پہنچی تو برتن دھونا، صفائی کرنا، کپڑے دھونا اس کی ذمے داری تھی۔ بے چاری ساری ذمے داریاں پوری کرنے لگی، آہستہ آہستہ وہ کمزور رہنے لگی۔
شوہر پورا ماں اور بہن کے قبضے میں تھا، سسر کبھی کبھار بیوی سے کہتے کہ ان کی بیٹیاں بھی بہو کا ہاتھ بٹائیں، لیکن اس گھر میں عورتوں کی حکمرانی تھی، اس لیے فریدہ پورے دن کام کرتی۔ اسے فون کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی، پاسپورٹ ساس کے پاس تھا، وہ مر مر کر جی رہی تھی اور خود کو لعن طعن کر رہی تھی کہ اس نے ’’باہر کے رشتے‘‘ کی پابندی لگائی تھی، اب وہ امریکا آ تو گئیں لیکن ’’ دور کے ڈھول سہانے‘‘ والی بات ہوگئی۔
جب کہ اس کی دو سہیلیاں امریکا میں بہت خوش رہ رہی تھیں، لیکن اس کے ساتھ ایسا ہوگا یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ تقریباً آٹھ مہینے کے بعد ایک دن ان کی ہندو پڑوسن اس کے لیے کڑھی لے کر آئی تھیں، دوپہر کا وقت تھا اور ساس نندیں کھانا کھا کر سو رہی تھیں، اس پڑوسن نے اس کا حال سنا بھی اور دیکھا بھی، اس نے کہا کہ وہ جلد فریدہ کی جان اس گھر سے چھڑوا دے گی، چند دن بعد پولیس آئی فریدہ کو اپنے ساتھ لے گئی، وہ بہت رو رہی تھی۔ بہرحال پولیس نے فریدہ کا پاسپورٹ نکلوایا اور اسے پاکستان بھیج دیا، وہ سارے رشتے توڑ کر آئی تھی، بہت بیمار رہنے کے باوجود وہ گھر کا سارا کام کرنے لگی بہرحال وہ پاکستان آگئی۔
دو سال کے بعد اس کی شادی ایک انجینئر سے ہوگئی جس کی بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا، اس کے دو بچے تھے، ایک بیٹا ایک بیٹی۔ بیٹا پندرہ سال کا تھا اور بیٹی سترہ سال کی۔ فریدہ سے اس کے شوہر نے کہا کہ وہ اس کے بچوں کا خاص خیال رکھے، فریدہ جس عذاب سے چھوٹ کر آئی تھی اسے نیا گھر جنت لگا، بچے بہت اچھے تھے۔ شوہر فریدہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔
لڑکیوں کی شادی میں صرف پیسے کو اہمیت نہ دیں، بہت سی لڑکیاں اسی لیے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کی ماؤں نے سوچ رکھا ہے یا تو اکیلا لڑکا ہو، یا پھر باہر کا رشتہ ہو، بیشتر لڑکیاں اپنی ماؤں کی خواہش کے آگے مجبور ہیں۔ لہٰذا ماؤں کو اپنی خواہشات ختم کر دینی چاہئیں تاکہ بیٹیوں کے گھر بس سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں پاکستان آ انکار کر دیار غیر ماں باپ رہی تھی کی شادی لڑکی کے باپ کو کے لیے کر دیا کہا کہ
پڑھیں:
ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھار کر ویڈیوز بنانے والی لڑکی گرفتار
پشاور:بٹ خیلہ میں ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھار کر ویڈیوز بنانے والی لڑکی کو ماں کی شکایت پر گرفتار کر لیا گیا۔
مالاکنڈ کے علاقے کوٹ میں گزشتہ روز ماں کی جانب سے شکایت درج کروانے پر لڑکی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
لڑکی کی والدہ نے رپورٹ درج کروائی تھی کہ لڑکے کے روپ میں ویڈیوز بنانے سے معاشرے پر برا اثر پڑ رہا ہے۔
پولیس کے مطابق آئندہ ایسا نہ کرنے اور منت سماجت پر لیوی تھانہ کوٹ نے لڑکی کو ضمانت پر رہا کر دیا۔
لیوی تھانہ کوٹ نے لڑکی کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تھا لیکن بعد میں ماں کی جانب سے منت سماجت اور ٹک ٹاک استعمال نہ کرنے کی شرط پر ضمانت پر رہائی ملی۔