ناشتہ نہ کرنے کی عادت، جسم پر کیا اثر ڈالتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ناشتہ دن کی سب سے اہم غذا ہے، مگر کچھ لوگ اسے معمول کا حصہ نہیں بناتے۔ یہ بظاہر معمولی عادت درحقیقت دل کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ناشتہ تاخیر سے کیا جائے تو اگلی دہائی میں موت کے امکانات 10 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں۔ یہ تحقیق جرنل کمیونیکیشنز میڈیسن میں شائع ہوئی، جس میں سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ صبح کے وقت کھانا نہ کھانا یا دیر سے کھانا جسم کے قدرتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق جو لوگ ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں، ان میں امراض قلب، فالج اور ہارٹ اٹیک کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ایک پرانی تحقیق میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ناشتہ نہ کرنے والوں میں قبل از وقت موت کا خطرہ 75 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت کھایا جانے والا کھانا دل کے افعال کو بہتر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جسم کی اندرونی گھڑی یعنی بائیولوجیکل کلاک ہاضمے کے عمل اور غذائی اجزا کے جذب ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب یہ گھڑی متاثر ہوتی ہے تو دل کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناشتہ چھوڑنے والے افراد اکثر دن میں ایسی غذائیں کھاتے ہیں جو چکنائی اور چینی سے بھرپور ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں وزن بڑھتا ہے، کولیسٹرول اور شوگر لیول میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہی عوامل امراض قلب کا باعث بنتے ہیں۔
پہلے کی متعدد تحقیقات میں بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ناشتہ نہ کرنے والوں میں موٹاپا، ذیابیطس ٹائپ 2 اور ہائی بلڈ پریشر زیادہ عام ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل جرنل آف ہائپرٹینشن میں شائع تحقیق کے مطابق، ناشتہ نہ کرنے سے جسم میں وہ ہارمونز بڑھ جاتے ہیں جو بلڈ پریشر میں اضافے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صبح کا متوازن ناشتہ نہ صرف دن بھر توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ دل اور مجموعی صحت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ناشتہ نہ کرنے کے مطابق
پڑھیں:
جنرل قاآنی کے قتل کی افواہیں، نفیساتی آپریشن کا تجزیہ
اسلام ٹائمز: ایسی دنیا میں جہاں خبروں اور افواہوں کے درمیان لائن بہت نازک ہو چکی ہے، میڈیا کے اثرات بارے فہم و فراست اور تنقیدی سوچ ہی معاشرے کی واحد دفاعی ڈھال ہیں۔ نفسیاتی کارروائیوں کے طریقہ کار کو سمجھنا، معتبر ذرائع کی نشاندہی کرنا، اور میڈیا ایکٹرز کے پوشیدہ اہداف سے آگاہ ہونا، رائے عامہ کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ خود سردار قاآنی نے اس واقعے کے رد عمل میں کہا کہ "صیہونی حکومت میرے قتل کی خبریں شائع کر رہی ہے تاکہ میرے دوست پریشان ہو جائیں، مجھ سے رابطہ کریں، اور وہ میری صحیح جگہ معلوم کر سکیں۔" یعنی سائیبر نیٹ ورکس کے دور کی نفسیاتی جنگ میں ہر پیغام معلومات کے حصول کا جال بن سکتا ہے۔ تحریر: عباس سیاحطاهری
جمعہ کی رات، 10 اکتوبر 2025، سائبر اسپیس میں انفارمیش وار فئیر کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک درپیش تھی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قاآنی کے قتل کی افواہ سوشل میڈیا پر عین منصوبہ بندی اور دقت کے ساتھ اڑائی گئی اور تیزی سے پورے خطے میں پھیل گئی۔ غلط معلومات اور نفسیاتی کارروائیوں کے نمونوں کا مطالعہ کرتے ہوئے برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال تھا کہ عصری مواصلاتی ماحولیاتی نظام میں ایک مصنوعی بحران کیسے تشکیل پا سکتا ہے اور اسے وسعت دی جا سکتی ہے۔
یہ واقعہ 17:40 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:10) پر شروع ہوا، جب اقوام متحدہ میں سرکاری اسرائیلی سفارت کار، جس کا نام "گدبن ولید" ہے، نے ایک مختصر پیغام پوسٹ کیا: "گڈ نائٹ، کمانڈر قاآنی،" ان کی تصویر کے ساتھ۔ یہ مبہم جملہ، جس پر 66000 سے زائد آراء موجود تھیں، سطحی طور پر غیر اہم لگ رہا تھا، لیکن درحقیقت یہ آپریشن کا آغاز تھا۔ ذہنوں کو مختلف امکانات کی طرف لے جانے کے لیے ایک مختصر جملے میں ایک ابہام ایجاد گیا تھا۔ جسے ماس کمیونیکیشن تھیوریز میں "بونے کے بیج" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دو منٹ بعد، 17:42 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:12) پر، ٹیرر الارم اکاؤنٹ، جس کے 260000 فالوورز ہیں، نے لکھا: "رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنرل قاانی کو حملے کے بعد ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔"
یہاں سے ماخذ کا حوالہ دیئے بغیر اور پرجوش لہجے میں دوسری لہر شروع ہو گئی۔ اس اکاؤنٹ نے پہلے بھی کئی مواقع پر غیر مصدقہ خبریں شائع کرکے "افواہوں کے ذریعے حملہ آور" ہونے کا کردار ادا کیا تھا۔ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں، بظاہر خود مختار لیکن منسلک اکاونٹس کا نیٹ ورک وارد عمل ہوا۔ غیر سرکاری صہیونی ذرائع ابلاغ، بیرون ملک فارسی زبان کے کچھ ذرائع ابلاغ، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف سائیبر کارکنوں نے اس بیانیے کو دوبارہ پھیلایا۔ نفسیاتی آپریشنز کی سائنس اس مرحلے کو "ملٹی سورس ایمپلیفیکیشن" کہا جاتا ہے: ایک سے زیادہ ذرائع سے ایک خبر کو دہرانے سے اعتبار کا بھرم پیدا کرنا۔
اس طرح کے نمونے میں، یہاں تک کہ اگر ہر ذریعہ "تصدیق شدہ" یا "افواہ" جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، تب بھی دوبارہ اشاعت کا مجموعہ سامعین کے ذہنوں میں من گھڑت داستان کو حقیقت کے قریب تر بنا دیتا ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی وضاحت الزبتھ نول نیومن کے "خاموشی کے سرپل" تھیوری نے کی ہے۔ یعنی عوامی حلقوں میں بیانیہ کی تکرار اسے دھیرے دھیرے ایک غالب فکر میں بدل دیتی ہے۔ 18:25 اور 18:50 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:55 اور 22:20) کے درمیان، ملاحظات کا حجم 100000 سے زیادہ تک پہنچ گیا، جب کہ اس واقعے کا کوئی سرکاری سورس یا تصویر تک نہیں تھی۔
معروف بین الاقوامی اور ملکی میڈیا 22:00 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 1:30 AM) تک خاموش رہا۔ نہ ہی بی بی سی، نہ ہی رائٹرز، اور نہ ہی فارس یا تسنیم جیسی ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے اس معاملے پر کوئی رپورٹ شائع کی۔ صرف بورنا نیوز ایجنسی نے ایک مختصر تجزیے میں اس خبر کو صیہونی حکومت کی ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیا ہے (بلاشبہ فارس نے بعد میں تردید شائع کی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی)۔ "افواہ کے ماحولیاتی نظام" اور "معتبر خبروں کے ماحولیاتی نظام" کے درمیان یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ کیسے خبر گیٹ کیپرز کے بغیر سوشل نیٹ ورکس کا ڈھانچہ مصنوعی بحرانوں کی پیداوار اور تقسیم کے لیے ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
شائع ہونے والے پہلے 45 پیغامات کے اوپن سورس ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن کا ایک کثیر پرتوں والا ڈھانچہ تھا۔ بنیادی ذریعہ سرکاری عہدہ رکھنے والا فرد تھا اور اس وجہ سے وہ "ادارہاتی اعتبار" سے لطف اندوز ہوا۔ ثانوی ذریعہ ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ تھا جس کی غیر مصدقہ سیکیورٹی وارننگ شائع کرنے کی تاریخ تھی۔ تیسری پرت صیہونی حکومت کے اہداف کے ساتھ منسلک ذرائع ابلاغ اور سیاسی کارکنوں کا ایک مجموعہ ہے، جنہوں نے اسے منعکس کیا۔ شماریاتی تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان پیغامات کے ساتھ صارفین کے تعامل کی شرح تقریباً 2.8 فیصد تھی اور دوبارہ پوسٹ کی شرح 10 فیصد سے کم تھی۔
یہ کہانی کی سچائی کے بارے میں بروقت تردید نہ ہونیکی وجہ سے عوامی سطح پر شکوک و شبہات کی ایک الارمنگ علامت ہے۔ لیکن نفسیاتی کارروائیوں میں، مقصد ہمیشہ مکمل یقین دلانا نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات محض ابہام پیدا کرنا، ہدف بنائی گئی کمیونٹی کے ردعمل کا اندازہ لگانا، یا عوامی اعتماد کو ختم کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو سیاہ پروپیگنڈہ کہتے ہیں؛ یعنی وہ معلومات جو قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ذہنوں کو الجھانے اور اجتماعی اعتماد کو کمزور کرنے کے لیے کھڑی جاتی ہیں۔ ادھر ملکی میڈیا کی خاموشی یا تاخیر بھی اس مسئلے کا ایک اہم حصہ ہے۔
اگرچہ افواہ کو نظر انداز کرنا اس کی افزائش کو روک سکتا ہے، لیکن ایسے حالات میں جہاں سامعین کے لئے معلوماتی خلا موجود ہو، یہ خاموشی خود ابہام کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایسے حالات میں سرکاری میڈیا کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، لیکن بروقت رائے عامہ کے لیے خبر اور جھوٹ کے درمیان لائن کو واضح رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کارروائی کا اختتام ایران اور خطے میں منصوبہ بند ہیرا پھیری کی وجہ سے آج کی انفارمیشن وار کے کمزور ہونے کی واضح تصویر ہے۔ افواہ سازی کی یہ لہر حقیقی معلومات پر مبنی نہیں تھی بلکہ محتاط نفسیاتی ڈیزائن پر مبنی تھی۔ اس کی شروعات ایک سفارتی ستم ظریفی سے ہوئی، سوشل میڈیا پر پھیلی اور رائے عامہ کی سطح پر ایک من گھڑت بحران کا باعث بنی۔
تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ 90% امکان کے ساتھ، یہ واقعہ ایک منصوبہ بند میڈیا آپریشن کا نتیجہ تھا اور صرف 10% غلط فہمی یا مذاق شامل تھا۔ ایسی دنیا میں جہاں خبروں اور افواہوں کے درمیان لائن بہت نازک ہو چکی ہے، میڈیا کے اثرات بارے فہم و فراست اور تنقیدی سوچ ہی معاشرے کی واحد دفاعی ڈھال ہیں۔ نفسیاتی کارروائیوں کے طریقہ کار کو سمجھنا، معتبر ذرائع کی نشاندہی کرنا، اور میڈیا ایکٹرز کے پوشیدہ اہداف سے آگاہ ہونا، رائے عامہ کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ خود سردار قاآنی نے اس واقعے کے رد عمل میں کہا کہ "صیہونی حکومت میرے قتل کی خبریں شائع کر رہی ہے تاکہ میرے دوست پریشان ہو جائیں، مجھ سے رابطہ کریں، اور وہ میری صحیح جگہ معلوم کر سکیں۔" یعنی سائیبر نیٹ ورکس کے دور کی نفسیاتی جنگ میں ہر پیغام معلومات کے حصول کا جال بن سکتا ہے۔