جنرل قاآنی کے قتل کی افواہیں، نفیساتی آپریشن کا تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایسی دنیا میں جہاں خبروں اور افواہوں کے درمیان لائن بہت نازک ہو چکی ہے، میڈیا کے اثرات بارے فہم و فراست اور تنقیدی سوچ ہی معاشرے کی واحد دفاعی ڈھال ہیں۔ نفسیاتی کارروائیوں کے طریقہ کار کو سمجھنا، معتبر ذرائع کی نشاندہی کرنا، اور میڈیا ایکٹرز کے پوشیدہ اہداف سے آگاہ ہونا، رائے عامہ کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ خود سردار قاآنی نے اس واقعے کے رد عمل میں کہا کہ "صیہونی حکومت میرے قتل کی خبریں شائع کر رہی ہے تاکہ میرے دوست پریشان ہو جائیں، مجھ سے رابطہ کریں، اور وہ میری صحیح جگہ معلوم کر سکیں۔" یعنی سائیبر نیٹ ورکس کے دور کی نفسیاتی جنگ میں ہر پیغام معلومات کے حصول کا جال بن سکتا ہے۔ تحریر: عباس سیاحطاهری
جمعہ کی رات، 10 اکتوبر 2025، سائبر اسپیس میں انفارمیش وار فئیر کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک درپیش تھی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قاآنی کے قتل کی افواہ سوشل میڈیا پر عین منصوبہ بندی اور دقت کے ساتھ اڑائی گئی اور تیزی سے پورے خطے میں پھیل گئی۔ غلط معلومات اور نفسیاتی کارروائیوں کے نمونوں کا مطالعہ کرتے ہوئے برسوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال تھا کہ عصری مواصلاتی ماحولیاتی نظام میں ایک مصنوعی بحران کیسے تشکیل پا سکتا ہے اور اسے وسعت دی جا سکتی ہے۔
یہ واقعہ 17:40 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:10) پر شروع ہوا، جب اقوام متحدہ میں سرکاری اسرائیلی سفارت کار، جس کا نام "گدبن ولید" ہے، نے ایک مختصر پیغام پوسٹ کیا: "گڈ نائٹ، کمانڈر قاآنی،" ان کی تصویر کے ساتھ۔ یہ مبہم جملہ، جس پر 66000 سے زائد آراء موجود تھیں، سطحی طور پر غیر اہم لگ رہا تھا، لیکن درحقیقت یہ آپریشن کا آغاز تھا۔ ذہنوں کو مختلف امکانات کی طرف لے جانے کے لیے ایک مختصر جملے میں ایک ابہام ایجاد گیا تھا۔ جسے ماس کمیونیکیشن تھیوریز میں "بونے کے بیج" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دو منٹ بعد، 17:42 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:12) پر، ٹیرر الارم اکاؤنٹ، جس کے 260000 فالوورز ہیں، نے لکھا: "رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنرل قاانی کو حملے کے بعد ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔"
یہاں سے ماخذ کا حوالہ دیئے بغیر اور پرجوش لہجے میں دوسری لہر شروع ہو گئی۔ اس اکاؤنٹ نے پہلے بھی کئی مواقع پر غیر مصدقہ خبریں شائع کرکے "افواہوں کے ذریعے حملہ آور" ہونے کا کردار ادا کیا تھا۔ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں، بظاہر خود مختار لیکن منسلک اکاونٹس کا نیٹ ورک وارد عمل ہوا۔ غیر سرکاری صہیونی ذرائع ابلاغ، بیرون ملک فارسی زبان کے کچھ ذرائع ابلاغ، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف سائیبر کارکنوں نے اس بیانیے کو دوبارہ پھیلایا۔ نفسیاتی آپریشنز کی سائنس اس مرحلے کو "ملٹی سورس ایمپلیفیکیشن" کہا جاتا ہے: ایک سے زیادہ ذرائع سے ایک خبر کو دہرانے سے اعتبار کا بھرم پیدا کرنا۔
اس طرح کے نمونے میں، یہاں تک کہ اگر ہر ذریعہ "تصدیق شدہ" یا "افواہ" جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، تب بھی دوبارہ اشاعت کا مجموعہ سامعین کے ذہنوں میں من گھڑت داستان کو حقیقت کے قریب تر بنا دیتا ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی وضاحت الزبتھ نول نیومن کے "خاموشی کے سرپل" تھیوری نے کی ہے۔ یعنی عوامی حلقوں میں بیانیہ کی تکرار اسے دھیرے دھیرے ایک غالب فکر میں بدل دیتی ہے۔ 18:25 اور 18:50 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 21:55 اور 22:20) کے درمیان، ملاحظات کا حجم 100000 سے زیادہ تک پہنچ گیا، جب کہ اس واقعے کا کوئی سرکاری سورس یا تصویر تک نہیں تھی۔
معروف بین الاقوامی اور ملکی میڈیا 22:00 GMT (تہران کے وقت کے مطابق 1:30 AM) تک خاموش رہا۔ نہ ہی بی بی سی، نہ ہی رائٹرز، اور نہ ہی فارس یا تسنیم جیسی ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے اس معاملے پر کوئی رپورٹ شائع کی۔ صرف بورنا نیوز ایجنسی نے ایک مختصر تجزیے میں اس خبر کو صیہونی حکومت کی ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیا ہے (بلاشبہ فارس نے بعد میں تردید شائع کی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی)۔ "افواہ کے ماحولیاتی نظام" اور "معتبر خبروں کے ماحولیاتی نظام" کے درمیان یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ کیسے خبر گیٹ کیپرز کے بغیر سوشل نیٹ ورکس کا ڈھانچہ مصنوعی بحرانوں کی پیداوار اور تقسیم کے لیے ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
شائع ہونے والے پہلے 45 پیغامات کے اوپن سورس ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن کا ایک کثیر پرتوں والا ڈھانچہ تھا۔ بنیادی ذریعہ سرکاری عہدہ رکھنے والا فرد تھا اور اس وجہ سے وہ "ادارہاتی اعتبار" سے لطف اندوز ہوا۔ ثانوی ذریعہ ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ تھا جس کی غیر مصدقہ سیکیورٹی وارننگ شائع کرنے کی تاریخ تھی۔ تیسری پرت صیہونی حکومت کے اہداف کے ساتھ منسلک ذرائع ابلاغ اور سیاسی کارکنوں کا ایک مجموعہ ہے، جنہوں نے اسے منعکس کیا۔ شماریاتی تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان پیغامات کے ساتھ صارفین کے تعامل کی شرح تقریباً 2.
یہ کہانی کی سچائی کے بارے میں بروقت تردید نہ ہونیکی وجہ سے عوامی سطح پر شکوک و شبہات کی ایک الارمنگ علامت ہے۔ لیکن نفسیاتی کارروائیوں میں، مقصد ہمیشہ مکمل یقین دلانا نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات محض ابہام پیدا کرنا، ہدف بنائی گئی کمیونٹی کے ردعمل کا اندازہ لگانا، یا عوامی اعتماد کو ختم کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو سیاہ پروپیگنڈہ کہتے ہیں؛ یعنی وہ معلومات جو قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ذہنوں کو الجھانے اور اجتماعی اعتماد کو کمزور کرنے کے لیے کھڑی جاتی ہیں۔ ادھر ملکی میڈیا کی خاموشی یا تاخیر بھی اس مسئلے کا ایک اہم حصہ ہے۔
اگرچہ افواہ کو نظر انداز کرنا اس کی افزائش کو روک سکتا ہے، لیکن ایسے حالات میں جہاں سامعین کے لئے معلوماتی خلا موجود ہو، یہ خاموشی خود ابہام کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ایسے حالات میں سرکاری میڈیا کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، لیکن بروقت رائے عامہ کے لیے خبر اور جھوٹ کے درمیان لائن کو واضح رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کارروائی کا اختتام ایران اور خطے میں منصوبہ بند ہیرا پھیری کی وجہ سے آج کی انفارمیشن وار کے کمزور ہونے کی واضح تصویر ہے۔ افواہ سازی کی یہ لہر حقیقی معلومات پر مبنی نہیں تھی بلکہ محتاط نفسیاتی ڈیزائن پر مبنی تھی۔ اس کی شروعات ایک سفارتی ستم ظریفی سے ہوئی، سوشل میڈیا پر پھیلی اور رائے عامہ کی سطح پر ایک من گھڑت بحران کا باعث بنی۔
تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ 90% امکان کے ساتھ، یہ واقعہ ایک منصوبہ بند میڈیا آپریشن کا نتیجہ تھا اور صرف 10% غلط فہمی یا مذاق شامل تھا۔ ایسی دنیا میں جہاں خبروں اور افواہوں کے درمیان لائن بہت نازک ہو چکی ہے، میڈیا کے اثرات بارے فہم و فراست اور تنقیدی سوچ ہی معاشرے کی واحد دفاعی ڈھال ہیں۔ نفسیاتی کارروائیوں کے طریقہ کار کو سمجھنا، معتبر ذرائع کی نشاندہی کرنا، اور میڈیا ایکٹرز کے پوشیدہ اہداف سے آگاہ ہونا، رائے عامہ کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ خود سردار قاآنی نے اس واقعے کے رد عمل میں کہا کہ "صیہونی حکومت میرے قتل کی خبریں شائع کر رہی ہے تاکہ میرے دوست پریشان ہو جائیں، مجھ سے رابطہ کریں، اور وہ میری صحیح جگہ معلوم کر سکیں۔" یعنی سائیبر نیٹ ورکس کے دور کی نفسیاتی جنگ میں ہر پیغام معلومات کے حصول کا جال بن سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تہران کے وقت کے مطابق نفسیاتی کارروائیوں صیہونی حکومت کے لیے ایک کے درمیان آپریشن کا سکتا ہے کے ساتھ قتل کی
پڑھیں:
افغانستان میں خوارج کے خلاف پاک فوج کا فیصلہ کن آپریشن، مسلم لیگ (ق) کی بھرپور حمایت
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) افغانستان میں خوارج کے خلاف پاک فوج کے فیصلہ کن آپریشن پر مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں مثبت اور بروقت اقدام قرار دیا ہے۔
پارٹی کے مرکزی ترجمان مصطفیٰ ملک، صوبائی صدر انتخاب خان چمکنی اور رہنما بلال محمد زئی نے مشترکہ بیان جاری کیا۔ مصطفیٰ ملک نے کہا کہ پاک فوج کا یہ اقدام علاقائی امن اور قومی سلامتی کی ضمانت ہے۔ قوم اپنے بہادر سپاہیوں کی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔ افواجِ پاکستان نے ہمیشہ عوام کے تحفظ اور وطن کے استحکام کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہیں، جبکہ بھارت دہشتگرد گروہوں کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہا ہے، جو خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے۔
خیبر پختونخوا میں اپوزیشن رہنماؤں نے علی امین گنڈا پور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب غیرقانونی قرار دے دیا
انتخاب خان چمکنی نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر دفاع سے ہرگز غافل نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ امن کی خواہش کمزوری نہیں، خودمختاری پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی حمایت کی ہے۔ بلال محمد زئی نے کہا کہ پاک فوج کی کارروائی قومی مفاد میں ہے اور یہ قدم خطے میں پائیدار امن و استحکام کا باعث بنے گا۔ انہوں نے قوم پر زور دیا کہ وہ دشمن کے پروپیگنڈے سے ہوشیار رہے کیونکہ اتحاد و استحکام ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) پوری قوم کے ساتھ افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور دشمن کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
کراچی میں بچوں کے سامنے باپ کوقتل کرنے والا ڈاکو پولیس مقابلے میں مارا گیا
مزید :