ملالہ یوسفزئی کا یونیورسٹی میں دوران تعلیم متعدد بار نشہ کرنے کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
لندن (ویب ڈیسک) نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں دوران تعلیم متعدد بار دوستوں کیساتھ نشہ کیا۔
برطانوی اخبار کے مطابق ملالہ یوسفزئی نے 2025 میں جلد سامنے آنے والی اپنی یادداشت میں منشیات استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
ملالہ یوسفزئی کی سوانح عمری ’فائنڈنگ مائی وے‘ 21 اکتوبر 2025 کو سامنے آئے گی، مذکورہ کتاب ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور چیلنجز کو بیان کرتی ہے، کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات بھی بیان کیے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی نے کتاب میں اپنے آکسفورڈ یونیورسٹی کے دنوں کے ایک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح ویڈ (weed) استعمال کرنے سے ان کے طالبان کے ہاتھوں گولی لگنے کے صدمے کی یادیں واپس آئیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ نشہ کرنے کے بعد وہ شدید خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوگئیں، انہیں شدید الٹیاں آئیں، ان کا جسم لرزنے لگا، وہ اس قدر صدمے میں چلہ گئیں کہ ان سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔
مذکورہ قصے سے متعلق وہ لکھتی ہیں کہ ایک رات وہ اپنی یونیورسٹی کی دوست انیسہ کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پرانے شیڈ میں گئیں جہاں ان کی سہیلی انیسہ دو لڑکوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور وہ نشہ کر رہے تھے۔
ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں کہ وہاں لڑکوں اور لڑکی کے سامنے میز پر ایک عجیب سا شیشے کا آلہ رکھا تھا جسے انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا، لڑکے کی جانب سے اسے استعمال کرنے کے بعد انہوں نے بھی اسے استعمال کیا۔
وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے پہلے بھی بھنگ آزمائی ہوئی تھی لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا لیکن اس ویڈ کے استعمال نے انہیں ہلاکر رکھ دیا، وہ ماضی میں پہنچ گئیں، انہیں ایسا لگا جیسے وہ 15 سال کی عمر میں سوات پہنچ گئی ہوں اور ان پر حملہ ہوا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ کارکن کتاب میں لکھتی ہیں کہ پہلی بار ویڈ کا نشہ کرتے وقت جب انہوں نے دھواں کھینچا تو وہ زور زور سے کھانسنے لگیں، کچھ دیر بعد انہوں نے دوبارہ کوشش کی اور اس بار وہ کھانسے بغیر دھواں اندر لے گئیں۔
ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں کہ نشہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ عجیب چیزیں ہونے لگیں، ان کے دماغ نے وقت کا حساب کھو دیا، ان کا ذہن ماؤف ہوگیا۔
انہوں نے کتاب میں لکھا کہ جب وہ اپنے ہاسٹل کی طرف واپس جانے لگیں تو ان کے پاؤں بھاری ہو گئے، انہیں چلنے میں دشواری ہوئی اور ان کے پٹھوں نے کام کرنا بند کر دیا، وہ اپنے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کرتی رہیں لیکن ان کے جسم نے جواب دینا بند کردیا تھا، پھر اچانک انہیں شدید خوف نے گھیر لیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ اسی کیفیت میں چلی گئیں جو انہوں نے 15 سال کی عمر میں طالبان کے حملے کے بعد کوما میں محسوس کی تھی، ان کے دماغ میں وہ خوفناک مناظر واپس آ گئے، ان کی سکول بس، ایک بندوق بردار شخص، ہر طرف خون اور انہیں سٹریچر پر ہجوم کے درمیان لے جایا جا رہا تھا۔
ملالہ یوسفزئی نے لکھا ہے کہ وہ اس وقت اپنے دماغ میں چلاتی رہیں لیکن ان کا جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا۔
انہوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ انہیں اپنی دوست انیسہ اٹھا کر ہاسٹل کے کمرے میں لے گئیں جہاں وہ فرش پر گر گئیں، انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور وہ مسلسل خوفزدہ تھیں، انہیں ایسا لگا کہ ان کے گلے میں کچھ پھنس گیا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوما کے دوران ہسپتال میں ان کے گلے میں ٹیوب تھی۔
وہ لکھتی ہیں کہ میں کچھ دیر بعد باتھ روم میں گئی اور الٹی کر دی، میں جیسے ہی آنکھیں بند کرتی میرے سامنے خوفناک مناظر دوبارہ شروع ہوجاتے، میں چیخنے لگتی، خوف کے مارے میں پوری رات سو نہ سکی۔
ملالہ یوسف زئی نے لکھا ہے کہ رات بھر وہ ڈرتی رہیں کہ اگر وہ سو گئیں تو شاید مر جائیں گی، وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرتی رہیں، خود کو جھٹکے دیتیں اور اپنے چہرے پر تھپڑ مارتیں تاکہ جاگتی رہیں، صبح تک وہ کچھ بہتر ہوئیں لیکن وہ چند دن تک صدمے میں رہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ملالہ یوسفزئی نے انہوں نے کتاب میں کے بعد
پڑھیں:
ادویات اور ویکسین کا دیگر ممالک پر انحصار کم کرنے کے لئے محققین کو کردار ادا کرنا ہوگا‘خواجہ عمران نذیر
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2025ء) صوبائی وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرپنجاب خواجہ عمران نذیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش صحت عامہ کے مسائل سے نکالنے کیلئے، ادویات اور ویکسین کے لئے دیگر ممالک پر انحصار کم کرنے کیلئے محققین کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف زوالوجی کے زیر اہتمام اپلائیڈ زوالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے اشتراک سے دو روزہ آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس برائے اپلائیڈ زوالوجی 2025ء کی الرازی ہال میں منعقدہ اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر وائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی،وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹررؤفِ اعظم ،وائس چیئرپرسن اپلائیڈزوالوجیکل سوسائٹی آف پاکستان ڈاکٹر فرحت جبین،ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف زوالوجی ڈاکٹر نبیلہ روحی، آرگنائزنگ سیکریٹری ڈاکٹر اظہر رسول ، رجسٹرار ڈاکٹر احمد اسلام ،محققین، ماہرین تعلیم،سائنسدان اورطلبائوطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔(جاری ہے)
اپنے خطاب میں خواجہ عمران نذیر نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے 144وے فائونڈر ڈے پر منعقدہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ضروریات کے تناظر میں منعقد ہ بہترین معلوماتی کانفرنس پر منتظمین مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تیزی سے بدل رہا ہے جیسا دو سال قبل تھا اب ایسا نہیںرہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں پاکستان کے غیر ملکی ذخائر3بلین ڈالر سے بھی کم تھے اور گمان تھا کہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی دن رات کی محنت اور غیر معروف فیصلوں کی بدولت آج پاکستان کی صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے۔ انہوں نے پاکستان کیلئے آپریشن بنیان المرصوص گیم چینجر ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کو دنیا بھر میںبہترین استقبال کیا جارہا ہے ، سیلوٹ کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج تک پاکستان کی کامیابی کی گونج دنیا بھر میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے بھارت کو جو سبق سکھایا وہ اسکی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سپوتوں کی قربانیوں کے طفیل ہم سکون سے جی رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گرین پاسپورٹ کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان بہت ذہین ہیں جنہیں امید دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو بتانے کی ضرورت ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کے ہی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے سے منفیت کے خاتمے کے لئے سوشل میڈیا پر پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لئے ہم سب کو اپنا کام کرنا ہوگا۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں کانفرنس کے انعقاد کا مقصد سائنسدانوں کو ایک متحرک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ تحقیق کے فروغ کے لئے مختلف مضامین کے محققین کو مل کر کام کرناچاہیے ۔انہوں نے کہا کہ فوڈ سکیورٹی ، ہیلتھ سائنسز ، کاٹن ، کپاس سمیت کئی شعبہ جات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہو ں نے کہا کہ میرے لئے بطورکانفرنس بانی اور پنجاب یونیورسٹی کے فائونڈ ر ڈے پر وائس چانسلر کے طور پر اہم موضوع پر کامیاب کانفرنس سے خطاب کرنا سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خاص دن پر پنجاب یونیورسٹی کے تمام اساتذہ ، ملازمین، طلبائوطالبات اور ایلومنائی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقاء پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہے جس نے کئی نامور شخصیات پیدا کیں ۔انہوں نے کہا ملک کا دفاع، عزت اور ترقی، علم اور آگاہی کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب یونیورسٹی ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی گی ۔ڈاکٹر رئوف اعظم نے کہا کہ پاکستانی جامعات میں محددوووسائل کے باوجودبہترین تحقیق کو فروغ دیا جارہا ہے مگرموجودہ صورتحال مزید فنڈنگ کی متقاضی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے علوم کی تخلیق کرنا جامعات کا کام ہے جس کے لئے ایسی سائنسی کانفرنسز کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ محققین کو پلیٹ فارم مہیا کریں تاکہ وہ علوم کا تبادلہ کرکے مسائل کا حل نکالنے کیلئے کردار ادا کرسکیں۔ کانفرنس سے ڈاکٹر نبیلہ روحی، ڈاکٹر فرحت جبیں ، ڈاکٹر احمد اسلام سمیت غیر ملکی مندوبین نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے وائس چانسلرز، محققین ، منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔تقریب میں پنجاب یونیورسٹی کے 144 ویںفائونڈر ڈے کی تقریب کے سلسلے میں کیک بھی کاٹا گیا۔