وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ فیصلہ کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ملک کے بڑے ریگولیٹری اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرے، ان اداروں کے بورڈ رومز میں شفافیت لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ملک میں اختیارات سے تجاوز ایک معمول بن چکا ہے اور اب تو صورت حال یہاں تک بگڑچکی ہے کہ کسی افسر کے کمرے کے باہر بیٹھاہوچپراسی بھی صاحب سے ملاقات کیلئے آنے والوں کی جانب مٹھی گرم کئے جانے کی توقع لگائے بیٹھا ہوتا ہے اور وہ اسے حق تصور کرتا ہے اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے انھیں بعض اوقات صاحب بہادر سے ملے بغیر ہی بے نیل ومرام واپس لوٹنا پڑتاہے ، کمرے میں بیٹھے صاحب بہادر اپنے چپراسی کے اس طرز عمل سے ناواقف نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے اختیارات کے زعم میں سائل کو پریشان کرنا شاید اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہیں ،یہی نہیں اب تو صورت حال اس حد تک بگڑچکی ہے کہ صاحب بہادر اپنی مرضی سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی کرلیتے ہیں اور متعلق ادارے جو ایک کلرک کے میڈیکل کے بل کی ادائیگی کیلئے بھی بعض اوقات اعتراضات پر اعتراضات لگاتے رہتے ہیں انھیں اس کی ادائیگی میں تامل سے کام نہیں لیتے ایسے اختیارات کے جائزے کا مطالبہ گزشتہ ماہ اُس وقت سامنے آیا جب سینیٹ کی ایک کمیٹی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) کے چیئرمین کی غیر معمولی تنخواہ اور مراعات جو مبینہ طور پر 38 کروڑ 10 لاکھ روپے اور دیگر سہولتوں پر مشتمل تھیں پر سوالات اٹھائے۔ بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ دیگر ریگولیٹری اداروں، جن میں اسٹیٹ بینک اور نیپرا شامل ہیں، کے قانونی ڈھانچے بھی ان کے انتظامی سربراہان اور بورڈز کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ بغیر کسی حکومتی یا پارلیمانی نگرانی کے اپنی تنخواہیں اور مراعات خود من مانی طور پر بڑھا سکتے ہیں۔اس صورت حال سے ظاہرہوتاہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن ایک ایسا کلچر بن چکا ہے جوان اداروں میں تیزی سے پھل پھول رہاہے جہاں قانون ن میں نرمی ہے اور احتساب کاکوئی موثر طریقہ نہیں ہے۔
یہ رجحان اقتدار کے ایوانوں سے لے کر روزمرہ شہری معاملات تک پھیلا ہوا ہے، اب ہر خود مختار ادارے کا سربراہ جو عام طورپر حکمرانوں یا ان کے چہیتوں کا چہیتا یا بیٹا ،بھتیجا ،داماد یا کوئی اوررشتہ دار ہوتا ہے یہ طے کرتا ہے کہ کس کو رعایت ملے گی، کس کو نظرانداز کیا جائے گا اور کس کو نظر میں آنے کے لیے قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اس برائی کے معمول بن جانے نے میرٹ کو کھوکھلا کر دیا ہے، اور حکمرانی کو ایک تجارتی لین دین میں بدل دیا ہے۔
اگرچہ وزیراعظم کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ بے اعتدالیاں بڑھ جانے کے سبب نہیں کیاہے کیونکہ وزیر اعظم گزشتہ دنوں خود ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بلاجواز اضافے کی منظوری دے چکے ہیں اور ان کے صاحبزادے اور بعض دوسرے قریبی رشتہ دار خود بھی اس طرح کے من مانے فیصلوں کے ذریعے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے فیصلوں سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں بلکہ اس وزیر ا عظم نے اس طرح کی کمیٹی مبینہ طورپر آئی ایم ایف کی جانب سے گورننس میں شفافیت لانے کی شرط پوری کرنے کیلئے کی ہے تاہم ریگولیٹری اداروں اور مقتدر حکام کی من مانیوں کی موجودہ صورت حال میں وزیراعظم کی جانب سے ملک کے بڑے ریگولیٹری اداروں کے اعلیٰ افسران اور عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیٹی کے قیام سے یہ توقع کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر روایتی اقربا پروری کے بجائے حقیقی معنوں میں دیانتدار افراد کو اس طرح کی کمیٹی کا رکن بنایاجائے تو اس کمیٹی کے ارکان ایسے خود ساختہ فیصلوں کی قانونی حیثیت اور مناسبیت کا جائزہ لے سکیں گے اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات پیش کریں گے بصورت دیگر اس طرح کی کمیٹی کا قیام کچھ من پسند لوگوں کو نوازنے اور کاغذی خانہ پر ی کے ذریعے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسابقتی اور مارکیٹ کے مطابق تنخواہیں اور مراعات ہی ماہر پیشہ ور افراد کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں تاکہ ریگولیٹری ادارے بہتر طور پر کام کر سکیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم یہ دلیل اُس وقت کمزور ہو جاتی ہے جب فیصلے وہی لوگ کریں جو براہِ راست ان سے فائدہ اٹھانے والے ہوں وہ بھی غیر شفاف طریقے سے۔ ان اداروں کی جانب سے بار بار ریگولیٹری ناکامیوں اور عوامی مفاد کے تحفظ، شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے میں ناکامی نے اس دلیل کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ چونکہ زیادہ تر ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے، بعض لوگ چاہیں گے کہ حکومت ان قانونی ڈھانچوں میں تبدیلی کرے جو ان کے سربراہوں کو اپنی مراعات خود طے کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلطی ہوگی۔ اس کے بجائے، کمیٹی کو چاہیے کہ تمام ریگولیٹری اداروں کے قوانین کا ازسرِنو جائزہ لے اور ایسے اقدامات تجویز کرے جن کے ذریعے اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو ادارے کی کارکردگی اور سخت پارلیمانی نگرانی سے منسلک کیا جا سکے تاکہ احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی، اسے فیصلہ سازی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تجاویز پیش کرنی چاہئیں تاکہ عوام کا اعتماد ان اداروں پر بحال ہو۔
پاکستان کے اداروں کو جتنی گہرائی سے کرپشن نے کھوکھلا کیا ہے، شاید ہی کسی اور قوت نے کیا ہو۔ کرپشن نے عوامی خدمت اور ذاتی مفاد کے درمیان لکیر مٹا دی ہے، جس کے باعث ریاست خود اپنی سمت اور مقصد کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین گورننس رپورٹ صاف طور پر یہ کہتی ہے کہ جب تک کلیدی سرکاری اداروں کی قیادت اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کی جاتی، اصلاحات کبھی مؤثر انداز میں جڑ نہیں پکڑ سکتیں۔رپورٹ میں دس ایسے سرکاری اداروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو بدعنوانی کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں، اور سفارش کی گئی ہے کہ ان میں تقرریاں شفاف اور مسابقتی طریقے سے کی جائیں۔ ان اداروں میں قومی احتساب بیورو (نیب)، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) اور مسابقتی کمیشن شامل ہیں وہ ادارے جنہیں شفافیت اور دیانت داری کی حفاظت کرنی تھی، مگر اب خود اثر و رسوخ کے جال میں الجھ چکے ہیں۔ جب احتساب کے محافظ ہی اپنی ساکھ کھو بیٹھیں، تو نظامِ حکمرانی کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔آئی ایم ایف کی سفارشات کوئی سزا نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ تجاویز ہیں، جو اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ فنڈ نے سفارش کی ہے کہ انسدادِ کرپشن کے اقدامات پر عوامی رپورٹنگ کی جائے، آڈیٹر جنرل کو زیادہ خودمختاری دی جائے، اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو از سرِ نو منظم کیا جائے تاکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔ ان میں سے ہر قدم ایک قومی ضرورت ہے پاکستان کو کمی کسی مشورے کی نہیں بلکہ عزم کی ہے۔ میرٹ پر مبنی تقرریاں محض رسمی اصلاحات نہیں بلکہ وہ لکیر ہیں جو شہریوں کی خدمت کرنے والی حکومت کو خود غرض حکومت سے جدا کرتی ہیں۔ جب تک دیانت داری کو وفاداری پر ترجیح نہیں دی جاتی، کوئی مالی پیکج یا بیرونی آڈٹ اعتماد بحال نہیں کر سکتا۔ اگر ملک واقعی اصلاحات کا خواہاں ہے تو اسے میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا -97 نہ کبھی کبھار، نہ مخصوص مواقع پر، بلکہ ہمیشہ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، گورننس اور احتساب کی تمام باتیں کھوکھلی رہیں گی۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تنخواہوں اور مراعات میں ریگولیٹری اداروں اختیارات کے آئی ایم ایف کی جانب سے اداروں کی اداروں کے صورت حال ہیں بلکہ ہیں اور ہے اور کے لیے
پڑھیں:
آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے!
آفتاب احمد خانزادہ
رومی کہتے ہیں، ”اگر آپ کے دل میں روشنی ہوگی تو آپ اپنے گھر کا راستہ تلاش کر لیں گے”۔ چارلس بوکوسکی اپنی نظم میں لکھتے ہیں، ”کوئی بھی آپ کو نہیں بچا سکتا سوائے آپ کے۔ آپ کو بار بار تقریباً ناممکن حالات میں ڈالا جائے گا۔ کیا آپ ایسا بننا چاہتے ہیں؟ بے چہرہ، بے دماغ، بے دل وجود، کیا تم موت سے پہلے موت کا تجربہ کرنا چاہتے ہو؟ آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا سوائے آپ کے اور آپ بچانے کے قابل ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو آسانی سے نہیں جیتی جاتی لیکن اگر کوئی چیز جیتنے کے قابل ہے تو یہ ہے۔ اس کے بارے میں سوچو، اپنے آپ کو بچانے کے بارے میں”۔
اگر آپ اپنی زندگی سے ناخوش اور بے چین ہیں، تو آپ اپنے دماغ سے سوچ رہے ہیں اور فیصلے کر رہے ہیں۔ اس لیے دنیا کا کوئی ڈاکٹر آپ کو اس حالت سے نہیں بچا سکتا کیونکہ آپ غلط راستے پر سفر کر رہے ہیں اور یہ راستہ مکمل ناخوشی اور بے سکونی پر ختم ہوتا ہے۔ آپ کو یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ کیسے، آئیے ہم آپ کو بتائیں، کیسے۔ اپنی کتاب The Power of Now میں جرمنـکینیڈین مصنف Eckhart Tolle لکھتے ہیں، دماغ ایک طاقتور چیز ہے اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، لیکن جب غلط استعمال کیا جائے تو یہ بہت تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ زیادہ مناسب طریقے سے کہا جائے تو، ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنے دماغ کا غلط استعمال کرتے ہیں، آپ عام طور پر اسے بالکل استعمال نہیں کرتے، بلکہ یہ آپ کو استعمال کرتا ہے۔ یہی خامی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے، یہ آپ کا وہم ہے، دراصل ذہن نامی چیز نے آپ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ سچ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی طرح، میں بھی سوچنے کا رجحان رکھتا ہوں، میں بہت سی چیزوں کو حاصل کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دماغ کا استعمال کرتا ہوں۔ اگر صرف اس وجہ سے کہ آپ پہیلی کو حل کرنے یا ایٹم بم بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنا دماغ استعمال کر رہے ہیں۔ جس طرح کتے ہڈیوں کو چبانا پسند کرتے ہیں، اسی طرح دماغ مسائل کو حل کرنا پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے؛ یہ پہیلیوں کو حل کرتا ہے ایٹم بم بناتا ہے، چاہے آپ کو اس میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔ آؤ بتاؤ کیا تم جب چاہو اپنے دماغ سے آزادی حاصل کر سکتے ہو؟ کیا آپ کو اس کا آف بٹن ملا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مکمل طور پر سوچنا چھوڑ دیں، نہیں، میں یہ نہیں کر سکتا یا شاید کبھی کبھار ایک یا دو لمحوں کے لیے۔ لہذا، دماغ آپ کو استعمال کر رہا ہے، آپ نے لاشعوری طور پر اپنی شناخت کو اس سے جوڑ دیا ہے۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تم اس کے غلام بن گئے ہو۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے آپ نادانستہ طور پر کسی کے زیر قبضہ ہو جائیں اور اس شخص کا دعویٰ کرنا شروع کر دیں جو آپ کے پاس ہے۔ آزادی کا آغاز جانتا ہے کہ آپ وہ مالک نہیں ہیں جو سوچنے والا دماغ ہے۔ جس لمحے آپ اپنے ذہن میں مفکر کو دیکھیں گے، آپ کے اندر شعور کی ایک اعلی سطح بیدار ہوگی۔ تب آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ خیالات سے آگے ذہانت کا ایک بہت بڑا دائرہ ہے، اور فکر ذہانت کا ایک چھوٹا سا پہلو ہے۔ آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ تمام چیزیں جو خوبصورتی کی طرح اہم ہیں،محبت، تخلیقات، خوشی اور اندرونی سکون وغیرہ دماغ سے باہر پیدا ہوتے ہیں اور اس احساس کے ساتھ ہی آپ کا شعوری بیداری کا سفر شروع ہوتا ہے۔ میں کون ہوں، میں اپنے آپ کو کیسے دریافت کر سکتا ہوں اور میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں، یہ سوالات انسان کو پہلے دن سے پریشان کر رہے ہیں۔ انہی سوالات نے انسان کو فلسفہ اور نفسیات سے روشناس کرایا، پھر انسان دوسرے مرحلے میں داخل ہوا کہ خیالات و نظریات میں تبدیلی کیسے ممکن ہے۔
جدید نفسیات کے بانی ولیم جیمز نے برسوں کی تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا کہ ”اس صدی کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویوں کو بدل کر اپنی زندگی بدل سکتے ہیں”۔ جب یونانی فلسفی Metrocles سے دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا : خود علم۔ یہ گوتم بدھ کی تعلیمات کا بھی بنیادی حصہ ہے، اپنے خیالات، جذبات اور ماحول سے آگاہی کے ذریعے ہم اندرونی روشنی کو دریافت کرتے ہیں۔ ہم چیزوں کو اپنے ذہن کے مطابق دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور پھر فیصلے کرتے ہیں، اور اصرار کرتے ہیں کہ ہم عظیم فیصلے کر رہے ہیں اور عظیم زندگی گزار رہے ہیں، چاہے وہ فیصلے غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن جب ناخوشی، بے چینی، اضطراب اور بیماریاں ہمارا مقدر بن جاتی ہیں تو ہم ہکا بکا رہ جاتے ہیں اور پھر ساری دنیا پر الزام لگانے لگتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فیصلے ہمارے دماغ سے ہوتے ہیں نہ کہ ہمارے دل سے۔ ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہماری سوچ سے باہر ذہانت کا ایک وسیع دائرہ ہے۔ زندگی ان گنت چھوٹے چھوٹے فیصلوں کا نام ہے، سکون ہو یا بے سکونی، خوشی ہو یا ناخوشی انہی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ جب آپ اپنے آپ کو نہیں جانتے، جب آپ خود کو نہیں پہچانتے، تو پھرآپ کی زندگی کے فیصلے کوئی اور کر رہا ہے، آپ نہیں، تو وہ فیصلے آپ کے لیے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟ اگر آپ آخر عمرتک خوش، چست اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں، تو اپنے دل سے سوچیں، کیونکہ آپ کا دل آپ کے سب سے وفادار اور مخلص ساتھی ہے، جو آپ کو کبھی غلط فیصلے نہیں کرنے دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔